پروفیسر محسن عثمانی ندوی
پے در پے پیش آنے والے مسائل کے لیے علمااجتہاد سے کام لیں
اسلامی تہذیب کی حیثیت برگ وبار کی ہے اور اس کی جڑ عقیدہ میں پوشیدہ ہے ۔تہذیب عقیدہ سے تراشیدہ نقطہ ہائے نظرکامجموعہ ہے ، اور عقائد میں بھی بنیادی عقیدہ وجود خالق کا اور توحیدکا ہے ۔اگر عقیدہ درست ہے تواس جڑ سے جو شاخیں اور پھل پھول ا ور برگ وبار پیدا ہوں گے وہ بھی نفیس ہوں گے، لیکن اگر عقیدہ میںضعف اور اضمحلال کے آثار ہیں اوراسلامی فکر کمزور ہوگئی ہے تونئے نئے تہذیبی چیلنجز سامنے آئیں گے اگرچہ دنیا میں بہت سی جگہوں پر مسلمان حکومتوں کے مالک ہیں دنیا کی آبادی میں ہر پانچواںآدمی مسلمان ہے قدرتی وسائل کے اعتبار سے مسلم ممالک مالا مال ہیں لیکن ترقی کے میدان میں مسلمان پسماندہ ہیں ، صنعت اورسائنس میں اور تعلیم میںاور دفاعی پیداوار میںان کا کوئی مقام نہیں ہے ،جہاں وہ اقلیت میں ہیں وہاں زیادہ مظلومیت کا شکارہیں، اس لیے بہت سے مسائل کا ان کو سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ مثال کے طور پرجن درپیش تہذیبی مسائل میں مسلمان اس وقت مبتلا ہیں ان میں چند یہ ہیں ۔
۱۔ ہندوستان میں زبردستی جے شری رام کے لگوائے جاتے ہیں ،اس نعرہ کاعقیدہ توحید سے ٹکراو ہے ۔ رام دسرت کے بیٹے تھے سیتا ان کی بیوی تھی یہ اوصاف انسان کے ہوتے ہیں خدا کے نہیں ہوسکتے ہیں اس کی پوجانہیں کی جاسکتی ہے اور نہ ان کومعبود بنا کر نعرے لگائے جاسکتے ہیں اور یہ نعرہ اسلامی عقیدہ کے خلاف ہے
۲ ۔ اسکولوں میں سوریہ نمسکارکا لزوم اسلامی عقیدہ کے خلاف ہے یہ سورج کی عبادت ہے اور اسلام میں ایک اللہ کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں ہے۔
۳ ۔ ملت اسلامیہ کو جب ذراسکون ملتاہے تو عافیت کے دشمن کوئی اورزخم تازہ کوئی اور ضرب کاری لگانے کے لیے پہنچ جاتے ہیں،اورپوری ملت کا وجود لالہ خونیں کفن کے مانند ہوجاتا ہے ، زخم زخم گلاب ، اس وقت نیا اہم مسئلہ حجاب کا ہے ۔ اسکولوںکے لیے جو یونیفام طے کیا گیاہے شریعت سے اسکا ٹکراو ہے کیونکہ وہ حجاب کے خلاف ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کورٹ کا فیصلہ کیا آتاہے اورہائی کورٹ کاجو بھی فیصلہ آئے گا جس کے خلا ف فیصلہ آئے گا وہ سپریم کورٹ جائے گا، اس طرح مسلمان بہت دنوں تک اس میں الجھے رہیں گے ۔ بابری مسجد کے معاملہ میں یہ ہوچکا ہے ،اس کے باوجودکہ سپریم کورٹ نے اعتراف کرلیا تھا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ مسجد مندر کو توڑ کر بنائی گئی پھر بھی فیصلہ ہندووں کے حق میں آیا ۔حجاب کے سلسلہ میں بھی ممکن ہے یہ فیصلہ آئے کہ اکثر مسلمان عورتیں حجاب کا استعمال نہیں کرتی ہیں اس لیے یہ مسلمانوں کے مذہب اور تہذیب کاجز نہیں ہے ۔ اسی طرح ڈاڑھی کے مسئلہ میں کسی جج نے اسی طرح کا فیصلہ دیا تھا۔
۴ ۔ پارلیمنٹ میں تین طلاقوں سے متعلق جو قانون پاس ہوا ہے یہ قانون اسلامی شریعت کے خلاف ہے ۔اس قانون کے رو سے ایسی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے جبکہ اسلامی شریعت کے رو سے واقع ہوجاتی ہے ۔ درپیش تہذیبی مسائل میں ایک یہ بھی مسئلہ ہے ۔اس سلسلہ میں ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ اجتہاد سے کام لیا جائے ۔ در پیش تہذیبی چیلنجز میں بہت سے فقہی مسائل بھی آجاتے ہیں ۔ان پر نئے سرے سے غور وفکرکی ضرورت ہے ۔اجتہاد کے دروازہ کو کھولنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ فقہ کا جدید ارتقاء عصری تقاضوں کے مطابق ہوسکے اورمسلمان نئے مسائل کا کا میابی کے ساتھ مقابلہ کرسکیں ۔پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اسلامی نقطہ نظرکو برادران کے سامنے خود ان کی زبان میں پیش کیا جائے ۔مسلم پرسنل لاپرانگریزی میں برادران وطن کو مطمئن کرنے والے لٹریچر کی ضرورت ہے کیونکہ یونیفام سول کوڈ کولانے کی تیاری ہورہی ہے اور یہ بڑی خطرناک بات ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی میں تھیولوجی کے شعبہ میں ایک استاد مولاناتقی امینی تھے، بڑے عالم تھے، ان کی ایک کتاب ندوۃ المصنفین نے شائع کی تھی جس کا نام تھا’’ شریعت میں حالات زمانہ کی رعایت‘‘۔اس کتاب میں انہوں نے بیسوں ایسے مسائل کا ذکرکیا تھا جن کے بار ے میں علماء کا فتوی کچھ اورتھا لیکن حالات کی تبدیلی کے بعد فتوی بدل گیا ۔یہ کتاب بہت اہم ہے اور علماء کے مطالعہ کے لائق ہے ۔ بازارمیں کتاب تو اب نہیںملتی ہے لیکن کتب خانوں میں ملے گی، علی گڑھ میں موجود ہے ، نئے سرے سے اس کتاب کے مطالعہ اور اس پرغوروفکرکی ضرورت ہے ۔میں کوئی فتوی صادرنہیں کررہا ہوں ،اورنہ یہ ہمارا منصب ہے لیکنLoudthinking کے طور عرض کرتا ہوں کہ ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے میں ایسا کیوں ہے کہ ہندوستان کے علماء کی رائے کچھ اور ہے اوردوسرے مسلم ملکوں کے علماء کی رائے کچھ اورہے ، یوسف القرضاوی صاحب سے لیکر مصروشام کے بہت سے علماء تین طلاقوں کو ایک طلاق قراردیتے ہیں جو ابن تیمیہ اور ابن قیم رحمۃ اللہ علیہما کا مسلک ہے اور ہندوستان میں اہل حدیث حضرات کا مسلک اور فتوی کچھ اور ہے ۔حضرت عمر تین طلاق دینے والوں کو کوڑے مارتے تھے۔ بیت المال کا انتظام تھاجہاں سے ہر اس شخص کی مدد کی جاتی تھی جو مال کا اور ضروریات کا محتاج ہوتا تھا اور جس کا کوئی کفیل نہیں ہوتا تھا، اب نہ حضرت عمر ہیں جو کوڑوں کی سزا دیں اورنہ مسلمانوں کاکوئی بیت المال ہے اس مسئلہ میں بھی حالات بدل گئے ہیں،کیا حالات کی تبدیلی بھی اس کا تقاضہ نہیں کرتی ہے کہ ہم اجتہادی نقطہ نظراختیارکریں، ہمارے جمود کا نقصان یہ ہوا ہے کہ پارلیمنٹ سے ایسا قانون پاس ہوا ہے جو نہ صرف غیر اسلامی ہے بلکہ بہت ظالمانہ ہے، نہ صرف عدالت عالیہ کا فیصلہ مسلمانوں کے خلاف آیا ہے بلکہ پارلیمنٹ سے یہ قانون پاس ہوا ہے کہ یہ طلاق ہی معتبر نہیں ہے اورپھرطلاق دینے والا سزا کا مستحق بھی ہے ۔ اب اگر تین طلاق کے بعد کوئی مذہب سے بیگانہ شخص زبردستی مطلقہ کو اپنے پاس رکھنا چاہے تو قانون اس کی مدد کو آئے گا۔حکومت اس کی پشت پناہ ہوگی کیونکہ قانو ن کی ر و سے یہ طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی ۔اسلامی معاشرہ کو کتنا بڑا چیلنج درپیش ہے ۔اب یونیفام پرسنل لا کی تلواربھی سروں پرلٹک رہی ہے ، اگر ہندوستان میں مسلمانوں نے یوسف القرضاوی اوردوسرے علماء کا موقف اختیار کیا ہوتا اورحالات زمانہ کی رعایت کی ہوتی تو اتنا بڑا نقصان نہیں ہوتا ،اس لیے اجتہاد کے دروازہ کو کھولنے کی ضرورت ہے ۔ ایک منصوص مسئلہ ہوتاہے جو قرآن وحدیث کی واضح نص سے ثابت ہوتاہے اور ایک اجتہادی مسئلہ ہوتا ہے دونوں میں فرق کرنے کی ضرورت ہے اگر اجتہاد کا دروازہ باکل بندکردیا جائے گا تو پریشانیاں لاحق ہوں گی جیسے کہ طلاق کے مسئلہ میں پریشانی لاحق ہوچکی ہے ۔اقبال کاشعرہے
نہ جانے کتنے سفینے ڈبو چکی اب تک
فقیہ و صوفی وملا کی نا خوش اندیشی
آخر اسلام دشمنی کے اس طوفان کا حل کیا ہے ، کس طرح نئے نئے زخموں کے لگنے کا سلسلہ بند ہوگا،اسلام کا چمن کب پھر سے بہار آشنا ہوسکتاہے؟ تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ بڑے پیمانہ پر غیرمسلموں سے، برادران وطن سے رابطہ قائم کر نے کی ضرورت ہے ،اپنے اخلاق اور کردار سے اورخدمت خلق کے کاموں سے اور لسان قوم کے ذریعہ دین اسلام کا موثر تعارف کرانے کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر یہ بات پھیلائی گئی ہے کہ مسلم سماج میں عورتوں پر بہت ظلم ہوتا ہے ۔اس وقت اس بات کی شدت کے ساتھ ضرورت ہے ہندوستان کی تمام زبانوں میں اور انگریزی میں ایسا لٹریچر سامنے آئے جس سے معلوم ہو کہ اسلام نے جتنے حقوق عورتوں کو دیے ہیں کسی مذہب نے نہیں دیے ہیں ۔ہم نے اس ملک میں دین توحید کا تعارف نہیں کرایا ۔مسلمان علماء نے اس ملک میں سیکڑوں دینی مدرسے قائم کیے لیکن ایک مدسہ بھی ایسا نہیں قائم کیا جس سے ایسے علماء فار غ ہوکر نکلتے جو برادران وطن کو ا ن کی زبان میں خطاب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جب کہ قرآن میں ہے کہ جتنے رسول آئے وہ قوم کو لسان قوم میں خطاب کیا کرتے تھے آخر بانیان مدارس کی توجہ اس کی طرف کیوں نہیں ہوئی اب بھی قدیم نصاب تعلیم پر وہ سخت موقف کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں ۔
برادران وطن تک اسلام کے تعارف ،مسجدوں سے ان کو مانوس کرنے کا کام کسی حد تک شروع ہوا ہے ، ایسا لگتا ہے مسلمانوں میں ان کاموں کا شعور بیدار ہورہاہے ،یہ سلسلہ اگر جاری رہا اور مسلمان اپنے دینی جلسوں میں مسجدوں میں اورسیرت کے پروگراموں میں غیرمسلموں کو مدعو کرتے رہے اور ایسے مقررین تیارکرتے رہے جو برادران وطن کو خطاب کرنے کے اہل ہوں اور برادران وطن تک ان کی زبان میں اسلام کا لٹریچرپہنچانا شروع کریں ،پڑوسیوں کا حقوق اداکریں ،غیرمسلموں کو دوست بنائیں اور اجنبیت ختم کریں تو حالات بدلیں گے ۔
ہمارے گھر کے سامنے ایک شہتوت کا درخت ہے ،ابھی کچھ دن پہلے تک اس پر خزاں کاموسم طاری تھا،سارے پتے جھڑ گئے تھے ،شاخیں بے برگ بار تھیں ، آج دیکھا تو نئی کونپلوں کا نکلنا شروع ہوگیا ہے ،اب چند روز میں نئے برگ بار آئیں گے اس کے بعدسرخ اور عنابی رنگ کے شہتوت کے میٹھے پھل پورے درخت میں بھر جائیں گے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ۔مجھے ملت کے حالات اوردرخت کے درمیان ایک مماثلت معلو م ہونے لگی اور زبان پر اقبال کا شعر آنے لگا
دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
***
***
اس وقت اس بات کی شدت کے ساتھ ضرورت ہے ہندوستان کی تمام زبانوں میں اور انگریزی میں ایسا لٹریچر سامنے آئے جس سے معلوم ہو کہ اسلام نے جتنے حقوق عورتوں کو دیے ہیں کسی مذہب نے نہیں دیے ہیں ۔ہم نے اس ملک میں دین توحید کا تعارف نہیں کرایا ۔مسلمان علماء نے اس ملک میں سیکڑوں دینی مدرسے قائم کیے لیکن ایک مدسہ بھی ایسا نہیں قائم کیا جس سے ایسے علماء فار غ ہوکر نکلتے جو برادران وطن کو ا ن کی زبان میں خطاب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، جب کہ قرآن میں ہے کہ جتنے رسول آئے وہ قوم کو لسان قوم میں خطاب کیا کرتے تھے آخر بانیان مدارس کی توجہ اس کی طرف کیوں نہیں ہوئی اب بھی قدیم نصاب تعلیم پر وہ سخت موقف کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں ۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 فروری تا 05مارچ 2022