دلی پولس انتقامی کارروائی کے تحت نوجوانوں کوگرفتار کررہی ہے
سی اے اے مخالف مہم میں حصہ لینے والے نشانہ پر
افروز عالم ساحل
اس وقت جب کہ پوری دنیا کورونا وبا سے بچنے کی جد وجہد میں اپنے گھروں میں مقید ہے، لاک ڈاؤن کے تمام ضوابط پر عمل پیرا ہے، دلی پولیس مسلم وانصاف پسند نوجوانوں کو ٹارگیٹ کرنے کے اپنے پرانے شوق کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) مخالف مہم میں حصہ لینے والوں پر لاک ڈاؤن کے باوجود لگاتار کارروائی کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ دلی پولیس ان پر انسدادِ دہشت گردی قانون ’یو اے پی اے‘ کے تحت مقدمے درج کر رہی ہے۔ کئی لوگوں کو کال کر کے ان سے 15 دسمبر 2019 کو جامعہ میں سی اے اے کے خلاف ہوئے مظاہروں میں شامل ہونے کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے۔ اور کئی لوگوں کو دلی کے مختلف علاقوں سے گرفتار کرنے کی بھی خبر ہے۔ جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں دلی کے شمال مشرقی ضلع میں فرقہ وارانہ فسادات کو انجام دینے کے الزام میں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالر میراں حیدر اور صفورہ زرگر کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ کونسلر طاہرحسین کے خلاف بھی یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ وہیں نوجوان لیڈر عمر خالد پر عائد کی گئی دفعات ابھی واضح نہیں ہیں۔
دلی پولیس کے ایک افسر نے انگریزی روزنامہ ’دی ہندو‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایف آئی آر میں عمر خالد کا نام تو ہے مگر ابھی انہیں نہ ملزم بنایا گیا ہے اور نہ ہی ان پر یو اے پی اے کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ پولیس فساد میں ان کے رول کی جانچ کر رہی ہے۔ جب کہ کئی خبر رساں ایجنسیوں نے یہ اطلاع دی تھی کہ عمر خالد پر بھی یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کر لیا گیا ہے۔ اس سے پہلے اسی یو اے پی اے کے 13 (1) / 18 اور آئی پی سی کے دوسرے الزامات کے تحت مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ شرجیل کے خلاف پانچ ریاستوں دلی، اتر پردیش، منی پور، آسام اور اروناچل پردیش میں بغاوت کے الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں۔
نشانے پر ہیں جامعہ کے طلبہ:
میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق دلی پولیس کی اسپیشل سیل نے جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) کے 50 سے زیادہ ممبروں کو قومی دارالحکومت میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں میں شامل ہونے کے الزام میں نوٹسیں جاری کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں ہی شمال مشرقی دلی میں فرقہ وارانہ فسادات رو نما ہوئے تھے۔
انگریزی روزنامہ ’دی نیو انڈین ایکسپریس‘ میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق دلی پولیس نے اس سلسلے میں50 سے زیادہ جے سی سی ممبران کو طلب کیا ہے۔ دلی پولیس کے جوائنٹ کمشنر (اسپیشل سیل) نیرج ٹھاکر نے نیو انڈین ایکسپریس کو بتایا ’’ابھی تک ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو شمال مشرقی دلی فساد کے سلسلے میں نوٹس جاری کیا ہے، نہ کہ جامعہ کے معاملے میں۔“
وہیں جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی سے منسلک طلبہ کے علاوہ گرفتاریوں کا یہ سلسلہ شمال مشرقی دلی میں بھی جاری ہے۔ سوشل میڈیا میں آئے ایک ویڈیو میں کئی خواتین دلی پولیس پر یہ الزام عائد کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں کہ جب کہ وہ ملک گیر لاک ڈاؤن کے نتیجے میں اپنے گھروں میں قید ہیں، دلی پولس لگاتار ہمارے بچوں کو گرفتار کر رہی ہے۔
ہفت روزہ دعوت کی ایسے طلبہ سے بات ہوئی، جس میں طلبہ نے بتایا کہ انہیں دلی پولیس کرائم برانچ سے مسلسل کالز آرہے ہیں اور ان سے ان کی تفصیلات مانگی جا رہی ہے۔ وجہ پوچھنے پر بتایا جا رہا ہے کہ 15 دسمبر 2019 کو ان کے موبائل فون کا لوکیشن جامعہ میں پایا گیا ہے۔ ایک طالب علم نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 24 اپریل کو انہیں دلی پولیس کے کرائم برانچ، چانکیہ پوری پولیس اسٹیشن سے کال آیا اور ان کے بارے میں تمام تفصیلات پوچھی گئیں۔ یہ سب کچھ اس لیے کیوں کہ 15 دسمبر 2019 کو ان کے موبائل کا لوکیشن جامعہ میں پایا گیا تھا۔ یہ نوجوان جامعہ کا طالب علم نہیں ہے بلکہ دلی کی ایک دوسرے یونیورسٹی میں پڑھتا ہے اور 15 دسمبر کو اپنے دوستوں کے ساتھ جامعہ گیا تھا۔ ایسے کالز جامعہ نگر میں رہنے والے کئی طلبہ کو وصول ہوئے ہیں اور اب یہ طلبہ اس لاک ڈاؤن میں ذہنی طور پر مزید پریشان ہو رہے ہیں۔ جامعہ میں تشدد کے علاوہ دلی فسادات معاملے میں بھی کئی طلبہ کو اٹھائے جانے کی خبر بھی ہے۔
روزنامہ انڈین ایکسپریس نے اپنی ایک خبر میں باوثوق ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ دلی فسادات کے سلسلے میں اب تک 802 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ کرائم برانچ نے جو کہ اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے، جس میں 42 قتل کے معاملات ہیں 182 افرداد کو گرفتار کیا ہے جب کہ شمال مشرقی ضلعی پولیس نے 620 افراد کو گرفتار کیا ہے۔ 182 گرفتار ملزمین میں سے 50 کی گرفتاری لاک ڈاؤن کے دوران عمل میں آئی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ اس سلسلے میں کوئی آفیشیل اعداد وشمار موجود نہیں ہیں۔
دلی پولیس کی یہ کارروائی غیر انسانی اور غیر جمہوری:
دلی یونیورسٹی میں وکالت کی تعلیم حاصل کر رہی طالبہ سواتی کھنہ کا کہنا ہے کہ میری نظر میں یہ انسدادِ دہشت گردی قانون ’یو اے پی اے‘ غیر آئینی ہے۔ اس قانون پر اب تک کوئی جوڈیشیل ریویو ہی نہیں ہوا ہے۔ ایسے میں اس کے تحت کسی پر کارروائی کرنا ایک طرح سے غلط ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال یو اے پی اے ترمیم بل 2019 کے آئینی جواز کو چیلنج کرتے ہوئے دلی کے سجل اوستھی اور این جی او ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔ عرضی گزاروں کا مطالبہ ہے کہ اس بل کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔ اس عرضی پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔
سواتی مزید کہتی ہیں، ملک میں ہیلتھ ایمرجنسی کی چھاؤں میں ایمرجنسی سے بھی بدتر حالات ہیں۔ اس طرح کی گرفتاریاں ہی غیر آئینی ہیں۔ کسی شہری کو آئین کے ذریعے ملے رائٹ ٹو لائف اینڈ لیبرٹی کو جو آئین کے آرٹیکل 20 اور 21 کے تحت آتا ہے کسی بھی حالت میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔
نلسار یونیورسٹی آف لاء حیدرآباد کی ایسوسی ایٹ پروفیسر وسماجی کارکن منیشا سیٹھی ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں کہتی ہیں کہ یہ پورا معاملہ دلی فسادات کے اصل گنہگاروں کو بچانے کی کوشش ہے۔ دلی پولیس حکومت کے اشارے پر اس بہانے کپل مشرا جیسے لوگوں کو کلین چٹ دینے کی کوشش میں لگ گئی ہے کہ شمال مشرقی دلی فسادات میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ یہ وہی دلی پولیس ہے جو بی جے پی لیڈروں اور ان کے حمایتیوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے میں چشم پوشی سے کام لیتی ہے۔منیشا سیٹھی دلی پولیس کے ذریعے ہو رہی ان گرفتاریوں کو ایک کانسپیریسی ایف آئی آر کے تحت دلی میں ہوئے پورے سی اے اے مخالف مظاہروں کو کریمنلائز کرنے کی کوشش خیال کرتی ہیں۔
جامعہ سے جنڈر اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے راہل کپور کا کہنا ہے کہ جب ملک اتنی مشکلوں کے دور سے گزر رہا ہے تو حکومت اور پولیس کا ایک ہی فوکس کوویڈ 19 ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت اس میں پوری طرح سے نا کام ثابت ہو رہی ہے۔ غریب مزدوروں کے لیے ہماری حکومت کچھ بھی نہیں کر رہی ہے۔
راہل کہتے ہیں کہ مجھے دلی فساد کے جانچ پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور وہ ہونی چاہیے کپل مشرا جیسے لوگوں کے خلاف جنہوں نے بھڑکاؤ تقریریں کیں لیکن ان کے خلاف تو کوئی ایکشن نہیں لیا گیا نہ ان کے خلاف دلی پولیس اب تک کوئی ایف آئی آر درج کر پائی ہے۔ آپ ایسے طلبہ کو گرفتار کر رہے ہیں جو اس لاک ڈاؤن میں بھی جان کو جوکھم میں ڈال کر ریلیف ورک میں لگے ہیں، ملک کے غریبوں کی مزدوروں کی مدد کر رہے ہیں؟ دراصل یہ گرفتاریاں ان لوگوں کی ہو رہی ہیں جو سی اے اے مخالف مظاہروں میں سرگرم تھے۔ میران و صفورہ بھی سرگرم تھے، اس لیے ان کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ سپریم کورٹ جیلوں میں بھیڑ کم کرنے کی ہدایت دے رہی ہے، دلی پولیس مرکزی حکومت کے اشارے پر بے گناہ نوجوانوں کو حراست میں لے رہی ہے تو کہیں نہ کہیں یہ ان نوجوانوں کی زندگی خطرے میں ڈالنے کی کوشش ہے۔ واضح رہے کہ راہل کپور جامعہ میں پہلے دن سے ہی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں سرگرم رہے ہیں۔ انہوں نے change.org پر دلی پولیس کی جامعہ کے طلباء پر کی گئی بربریت کے خلاف دستخطی مہم بھی چلائی اور اس سے متعلق قومی انسانی حقوق کمیشن میں شکایت بھی درج کروائی ہے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اے رحمٰن کا صاف طور پر کہنا ہے کہ یہ ایک انتقامی اور اندھی کارروائی ہے، یہ حکومت کا بیحد قابل نفرت کام ہے۔ یہ غیر انسانی اور غیر قانونی کارروائی ہے۔
وہ آگے کہتے ہیں کہ “اس طرح کی کارروائیاں حکومت کی ایما پر کی جاتی ہیں۔ چونکہ پولیس مرکزی حکومت کے تحت ہے۔ دلی پولیس کے کمشنر براہ راست مرکزی وزارت داخلہ کو رپورٹ کرتے ہیں۔ اب وزیر داخلہ امت شاہ کا ای وی ایم کا بٹن دبانے والا وہ بیان یاد کر لیجیے جو انہوں نے دلی الیکشن کے دوران دیا تھا۔ اب ویسا ہوا نہیں ایسے میں ان کی بدنامی بھی خوب ہوئی سوشل میڈیا پر ان کو خوب ٹرول کیا گیا۔ یہ امت شاہ کے لیے ایک شرمندگی کی بات تھی۔ وہ بس اسی کا انتقام لے رہے ہیں۔“
وہ مزید کہتے ہیں کہ ملک میں جو سی اے اے مخالف مظاہرے ہوئے تھے اور ان مظاہروں کی بدولت عام لوگوں کے ذہنوں میں جو مثبت اثر پڑا تھا اس کو حکومت کی طرف سے دھونے کی یہ کوشش ہے۔ یہ طلبہ اور غیرت مند مسلمانوں کو "سبق” سکھانے والی کارروائی ہے تاکہ وہ مستقبل میں ایسی جراءت نہ کر سکیں اور یہ کارروائی ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب کہ لوگ لاک ڈاؤن میں ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے۔
ادھر دلی پولیس نے ایک ٹویٹ کر کے اس تعلق سے کہا ہے کہ “جامعہ اور شمال مشرقی دلی فسادات کے معاملات کی تفتیش کے دوران اس نے پوری غیر جانبداری کے ساتھ اپنا کام انجام دیا ہے۔ یہ تمام گرفتاریاں سائنسی اور فارنسک شواہد کے تجزیہ پر مبنی ہیں۔ دلی پولیس قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے اور شمال مشرقی دلی فسادات کی سازش کرنے والوں اور مجرموں کو سلاخوں تک پہونچانے اور بے گناہ متاثرین کے لیے انصاف کے حصول کے لیے پر عزم ہے”
غور طلب ہے کہ ’شانتی، سیوا اور نیائے’ کی بات کرنے والی دلی پولیس نے دلی ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود بھڑکاؤ بیان دینے والے بی جے پی لیڈروں کے خلاف اب تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔
کیا کہتے ہیں دلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین:
دلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا اس پورے معاملے میں کہنا ہے کہ جو بھی ہو رہا ہے وہ بہت غلط ہو رہا ہے۔ حکومت اپنے پاور کا غلط استعمال کر رہی ہے۔ گجرات میں ان کی ایک پرانی تاریخ رہی ہے۔ وہاں انہوں نے دن کو رات اور رات کو دن کر دیا تھا۔ گجرات فسادات کے سارے ملزمین باہر کر دیے گئے۔ جن لوگوں نے بے گناہ لوگوں کو زندہ جلایا تھا وہ سب لوگ آج جیلوں کے باہر ہیں۔
ڈاکٹر خان مزید کہتے ہیں، اصل میں حکومت کی جانب سے پوری کوشش ہے کہ کسی بھی طرح سے یہ ثابت کیا جائے کہ دلی فسادات کے ذمے دار مسلمان ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جامعہ وشاہین باغ میں ہوئے سی اے اے مخالف مظاہروں کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔ جب کہ میرا یقین ہے کہ جو لوگ بھی مظاہرے کر رہے تھے وہ پوری طرح پُر امن تھے اور کسی قسم کا تشدد ان کی طرف سے نہیں ہوا۔ نارتھ ایسٹ دلی میں جو فساد ہوا وہ کپل مشرا کی وجہ سے ہوا۔
دلی اقلیتی کمیشن اس تعلق سے کیا کر رہی ہے؟ اس سوال کا ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے یہ جواب دیا کہ نارتھ ایسٹ دلی فسادات کے معاملے میں ہم نے ایک کمیٹی بنائی ہے، یہ کمیٹی جلد ہی اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ یہ کمیٹی کیا کام دیکھ رہی ہے؟ اس پر وہ بتاتے ہیں کہ کمیٹی یہ چیک کر رہی ہے کہ یہاں فساد کیسے پھوٹ پڑا؟ کس نے کرایا؟ کس کا نقصان ہوا؟ کون لوگ پکڑے گئے؟ کون نہیں پکڑے گئے؟ ایف آئی آر میں کس کے نام لکھے ہوئے ہیں؟ ان کی گرفتاری کیوں نہیں ہو رہی ہے؟ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ جن کے خلاف مسلمانوں نے ایف آئی آر درج کرائی انہیں نہیں پکڑا جارہا ہے بلکہ الٹا ایف آئی آر درج کرانے والوں کو ہی گرفتار کیا جا رہا ہے۔
جامعہ کے معاملے میں کمیشن کیا کر رہا ہے؟ اس پر ڈاکٹر خان نے کہا کہ ہم نے اس تعلق سے ایک کمیٹی کے لیے حکومت سے پرمیشن مانگی تھی، جو آج تک نہیں ملی ہے۔ اس معاملے میں دلی حکومت کچھ کیوں نہیں کر رہی ہے؟ اس پر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کا کہنا ہے کہ یہ تو وہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ ہم صرف اپنا کام کر رہے ہیں۔
جامعہ کے دو اسٹوڈنٹ ایکٹیوسٹ اور بھی کئی ہیں پولیس حراست میں:
یکم اپریل کو جامعہ کے ریسرچ اسکالر اور اسٹوڈنٹ ایکٹیوسٹ میران حیدر کو گرفتار کیا گیا۔ حیدر کا تعلق جے سی سی سے رہا ہے اور وہ سی اے اے مخالف مظاہروں میں کافی ایکٹیو تھے۔ دراصل حیدر کو اسپیشل سیل نے اپنے لودھی کالونی کے دفتر میں تفتیش کے لیے بلایا تھا اور بعد ازاں انہیں حراست میں لے لیا۔ ان پر دلی فساد میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ اب ان پر یو اے پی اے لگا دیا گیا ہے۔ وہیں دیگر دفعات کے تحت بھی ان پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
وہیں جے سی سی سے منسلک صفورہ زرگر کو بھی 12 اپریل کو گرفتار کیا گیا۔ صفورہ بھی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ریسرچ اسکالر اور اسٹوڈنٹ ایکٹیوسٹ ہیں۔ انہیں دلی کے جعفر آباد علاقے میں سی اے اے مخالف احتجاج کے لیے مسلم خواتین کو منظم کرنے اور سڑک جام کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ صفورہ ابھی بھی پولیس کی حراست میں ہیں۔ پولیس نے ایک بیان جاری کر کے کہا تھا کہ ان سے دلی فساد اور سی اے اے مخالف تحریک کے سلسلے میں تفتیش کی جا رہی ہے۔ لیکن ان پر بھی یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
16 اپریل کو دلی پولیس نوجوان بھارت سبھا کے قومی نائب صدر یوگیش سوامی کو بھی اٹھا کر لے گئی۔ بتایا جا رہا ہے یوگیش اس لاک ڈاؤن میں شمال مشرقی دلی میں امدادی کاموں کی نگرانی کر رہے تھے۔ پولیس پر الزام ہے کہ یوگیش سوامی، جب کہ وہ کراول نگر میں واقع اپنے دفتر میں موجود تھے، تبھی پولیس اہلکار سادہ وردی میں آئے اور ان کو گاڑی میں ڈال کر چلتے بنے۔ واضح ہو کہ یوگیش سی اے اے مخالف مظاہروں میں کافی سرگرم تھے۔
کیا ہے پورا معاملہ؟
شہریت ترمیمی بل 2019 پر لوک سبھا وراجیہ سبھا سے مہر لگتے ہی پورے ملک میں اس قانون کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ سمجھا جاتا ہے کہ اس قانون کے خلاف مہم کی شروعات جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہوئی تھی اور شاہین باغ کی وجہ سے پوری دنیا کے لوگ اس مہم سے واقف ہوئے۔ جامعہ میں یہاں کے طلبہ اور الومنائی جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) لگا تار سرگرم رہے اور جامعہ کیمپس کے گیٹ نمبر 7 کے سامنے دن رات مظاہرہ کرتے رہے۔ سی اے اے مخالف یہ مہم رواں سال مارچ میں ملک گیر لاک ڈاؤن سے قبل تک جاری رہی۔
لیکن ملک میں کورونا کے قہر کے نازل ہوتے ہی 21 مارچ کو جی سی سی نے ایک پریس ریلیز جاری کر کے اعلان کیا کہ کورونا کے پیش نظر وہ اپنا مظاہرہ وقتی طور پر برخاست کر رہے ہیں البتہ جیسے ہی حالات بہتر ہوں گے وہ اس کو پھر سے شروع کریں گے۔ وہیں 23 مارچ کو شاہین باغ میں بھی مظاہرے کو ختم کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ اسی درمیان فروری کے آخر میں دلی کے شمال مشرقی علاقے میں مسلم مخالف فساد رو نما ہوا، اس فساد میں مرنے اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ ان کی دکانوں اور مکانوں کے علاوہ، مساجد اور دوسری عبات گاہوں پر بھی حملے ہوئے اس فساد کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا نے پولیس کی موجودگی میں جعفر آباد میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن احتجاج کر رہی مسلم خواتین کے خلاف نفرت انگیز تقریر کی اور مقامی لوگوں کو تشدد کے لیے اکسایا۔ لیکن اس سلسلے میں ابھی تک مشرا کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اس پر کسی طرح کی کارروائی ہوئی ہے۔
لیکن دوسری جانب دلی پولیس کرائم برانچ نے 6 مارچ کو ایک ایف آئی آر (نمبر 59/2020) درج کی۔ اس ایف آئی آر میں کرائم برانچ کے اروند کمار بتاتے ہیں کہ انہیں ان کے ایک خاص مخبر نے یہ اطلاع دی کہ دلی میں جو فرقہ وارانہ فساد ہوا ہے، وہ پہلے سے طے شدہ ایک سازش کا نتیجہ تھا۔ ان فسادوں کو پھیلانے کی سازش جے این یو کے ایک طالب علم عمر خالد اور اس کے ساتھیوں نے جو دو الگ الگ تنظیموں سے جڑے ہوئے ہیں، مل کر رچی تھی۔ اس سازش کے تحت عمر خالد نے دو الگ الگ جگہوں پر تقریریں کیں اور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے آمد کے موقع پر لوگوں سے سڑکوں پر اترنے اور سڑکوں کو بند کرنے کی اپیل کی تھی تاکہ اس دوران انٹرنیشنل سطح پر یہ پیغام پھیلایا جا سکے کہ ہندوستان میں اقلیتوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ اسی سازش کے تحت عمر خالد اور اس کے ساتھیوں نے عورتوں اور بچوں کو دلی میں کئی جگہ سڑکوں پر اتارا تھا۔
ایف آئی آر میں یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس سازش میں ہتھیار، پٹرول بم، تیزاب کی بوتلیں اور پتھر کئی گھروں میں اکٹھے کیے گئے۔ پولیس کا الزام ہے کہ معاون ملزم دانش کو فسادات میں حصہ لینے کے لیے دو جگہوں پر لوگوں کو اکٹھا کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
دراصل اب اسی ایف آئی آر کے تحت اسپیشل سیل، سی اے اے مخالف تحریک میں سرگرم رہے نوجوانوں کو پوچھ تاچھ کے لیے بلا رہی ہے۔ میراں حیدر اور صفورہ زرگر کی گرفتاری بھی اسی ایف آئی آر کے تحت کی گئی ہے۔واضح رہے کہ عمر خالد کی اس تقریر کا ذکر 11 مارچ کو لوک سبھا میں بھی کیا گیا تھا، تب ’یونائٹیڈ اگیسنٹ ہیٹ’ نامی ایک تنظیم نے پریس بیان جاری کر کے اس بیان کو غلط قرار دیا تھا۔ اس بیان کے مطابق جس ویڈیو کلپ کا ذکر لوک سبھا میں کیا گیا ہے وہ ’عمر خالد‘ کی ایک لمبی تقریر سے لی گئی ہے۔
عمر نے یہ تقریر 17 فروری کو امراوتی، مہاراشٹرا میں کی تھی۔ اس کلپ میں، وہ کہتے ہیں "24 فروری کو جب ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان آئیں گے تو ہم انہیں بتائیں گے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم اور حکومت ہند ملک کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ مہاتما گاندھی کی اقدار کو ختم کر رہے ہیں جس کے خلاف ہندوستان کی عوام حکم رانوں سے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اگر حکم راں ہندوستان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو ہندوستان کی عوام ملک کو متحد رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم سڑکوں پر اتریں گے۔ کیا آپ لوگ باہر آئیں گے؟” وزیر داخلہ اور ان کے ساتھیوں کے مطابق مہاراشٹرا میں اکسائے جانے والے ان الفاظ نے سات دن کے بعد دلی میں تشدد کو جنم دیا۔ لیکن بہت ہی چالاکی سے انہوں نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے کو خارج کر دیا جہاں عمر خالد نے کہا تھا کہ اس جد وجہد میں ہم صرف دو ہتھیار استعمال کریں گے، ایک جو مہاتما گاندھی نے ستیہ گرہ کی شکل میں دیا ہے اور دوسرا یہ کہ ہم "نفرت” کے خلاف "محبت” سے لڑیں گے۔
دلی پولیس کی اس کارروائی سے اٹھ رہے ہیں سوال:
دلی پولیس کی اس کارروائی پر ہر طرف سے مذمت ہو رہی ہے۔ سماجی کارکنان، ماہرین تعلیم اور تمام شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے شہریوں نے دلی پولیس کے ذریعے دلی فسادات میں بے گناہ طلبہ اور حقوقِ انسانی کے کارکنوں کو جھوٹے الزامات لگا کر پھنسانے اور ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرنے کی کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے گرفتار کیے گئے تمام لوگوں کو رہا کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں فلم ڈائریکٹر مہیش بھٹ، انوراگ کشیپ، وشال بھاردواج، وشال ڈڈلانی، رتنا پاٹھک شاہ، سوشانت سنگھ، ذیشان ایوب، ہنسل مہتا، نندیتا داس سمیت دیگر 29 مشہور فلمی ہستیوں کی جانب سے اتوار کو جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جب کہ ملک کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کی شکل میں ایک سنگین بحران سے دوچار ہے، دلی پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے دو طلباء اور شمال مشرقی دلی کے علاقوں سے متعدد کارکنوں کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پرامن احتجاج میں حصہ لیا تھا، وہیں روزآنہ اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے بے شمار طلباء اور کارکنوں کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا جا رہا ہے۔ ان کو اب دلی فرقہ وارانہ فساد سے متعلق مقدمات میں ملوث کیا جا رہا ہے۔ جبکہ اس فساد میں جان ومال کے نقصانات کے لحاظ سے مسلمان ہی سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ان ہستیوں نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا ہے کہ لاک ڈاؤن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کا لاک ڈاؤن نہیں ہوسکتا، حکام کے ذریعہ عوام کی اس انداز میں بدسلوکی نہیں کی جانی چاہیے۔ دلی پولیس کی یہ حرکتیں بالکل غیر انسانی اور غیر جمہوری ہیں۔
وہیں سول اقدام سے وابستہ اہم شخصیات پر مشتمل تنظیم ’’ہم بھارت کے لوگ‘‘ نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے، جس میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر مخالف مظاہروں کے نوجوان رہنماؤں کے خلاف یو اے پی اے کے استعمال کی مذمت کی گئی ہے۔ ان لوگوں کے خلاف یو اے پی اے کے نفاذ اور نو آبادیاتی بغاوت کے قوانین کو ’’فطری طور پر غیر قانونی‘‘ قرار دیتے ہوئے سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے دلی پولیس سے ان مقدمات کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کے مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’طاقت کے اس طرح غلط استعمال کے وقت ہم ہر شہری اور ہر سیاسی جماعت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہماری جمہوریت کے تحفظ کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہوں۔ ہم میڈیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سچائی کے گواہ بن کر کھڑے ہوں۔‘‘
اس سے قبل ’کیمپین اگینسٹ وچ ہنٹ آف اینٹی سی اے اے ایکٹویسٹ‘ نے بھی ایک پریس بیان جاری کر کے دلی پولیس کی اس غیر قانونی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے کئی اہم سوال کھڑے کیے ہیں۔ اس مہم کے ذریعے جاری کردہ بیان میں شرجیل امام، ڈاکٹر کفیل خان، خالد سیفی، عشرت جہاں، سبو انصاری، میراں حیدر اور صفورہ زرگر جیسے اسکالرز اور کارکنوں کی گرفتاریوں کی مذمت کی ہے۔
واضح رہے کہ اس مہم میں ملک کے کئی مشہور صحافیوں، پروفیسرس، ایڈوکیٹس، فلم میکرز، سماجی کارکن اور ایکٹیویسٹ شامل ہیں۔
کشمیر کے تین صحافیوں پر بھی لگا ’یو اے پی اے‘:
جہاں ایک طرف دلی میں طلبہ پر یو اے پی اے لگایا جا رہا ہے وہیں کشمیر سے تعلق رکھنے والے تین صحافیوں کے خلاف بھی ’یو اے پی اے‘ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
’دی ہندو‘ کے نامہ نگار عاشق پیر زادہ، 26 سالہ فوٹو گرافر مسرت زہرا اور معروف صحافی، مصنف اور تجزیہ کار گوہر گیلانی کی چند سوشل میڈیا پوسٹس کو ’وطن دشمن اور اشتعال انگیز‘ قرار دے کر ’یو اے پی اے‘ کے تحت مقدمہ درج کرنے کا معاملہ میڈیا کے ذریعے سامنے آیا ہے۔
اس سلسلے میں ایڈیٹرز گلڈ نے حکومت کے ان اقدامات کی مخالفت کی ہے۔ ایڈیٹرز گلڈ کا کہنا ہے کہ صرف سوشل میڈیا یا مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ پر کچھ شائع ہونے پر ہی اس قانون کا سہارا لینا طاقت کا کھلا غلط استعمال ہے۔ اس کا مقصد صرف ان صحافیوں کو دہشت زدہ کرنا ہے۔
ایڈیٹرز گلڈ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ ان صحافیوں کو کسی بھی قسم کا نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔
کیا ہے یو اے پی اے ؟:
یو اے پی اے ایک بے حد سخت قانون ہے اور اسے دہشت گردی اور ملک کی سالمیت اور خود مختاری کو خطرہ پہنچانے والی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ قانون پارلیمنٹ نے 1967 میں منظور کیا تھا اور تب سے اس میں متعدد ترامیم ہوئیں۔ اس کے تحت ملزم کو کم سے کم سات سال قید ہوسکتی ہے۔اگست 2019 میں اس قانون میں ترمیم کی گئی، جس کے بعد اب تنظیموں کی بجائے کسی بھی فرد کو دہشت گرد قرار دیا جاسکتا ہے اور املاک ضبط کی جاسکتی ہیں۔ یہ قانون قومی تفتیشی ایجنسی این آئی اے کو متعدد اختیارات بھی دیتا ہے۔ اس بل کے تحت تفتیشی این آئی اے کے افسران کو ڈائریکٹر جنرل کی اجازت سے جائیداد پر قبضہ کرنے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔
***
یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے، بہت غلط ہورہا ہے۔ حکومت ہند اپنے پاور کا غلط استعمال کررہی ہے۔ گجرات میں ان کی ایک پرانی تاریخ رہی ہے۔ وہاں انہوں نے دن کو رات اور رات کو دن کردیا تھا۔ گجرات فسادات کے سارے ملزمین باہر کردیے۔ جن لوگوں نے لوگوں کو زندہ جلایا تھا وہ سب لوگ جیلوں کے باہر ہیں۔
ظفر الاسلام