دلی فسادکے متاثرین ہنوز امداداور معاوضے کے منتظر
دلی اقلیتی کمیشن کی چشم کشا رپورٹ۔شفافیت کے لیے حکومت سے پانچ رکنی آزاد کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش
افروز عالم ساحل
دارالحکومت دلّی کے شمال مشرقی علاقوں میں ہوئے تشدد کے پانچ ماہ گزر جانے کے بعد بھی متعدد معاملات میں نقصانات کا اب تک توثیقی عمل مکمل نہیں ہوا ہے۔ بہت سے معاملات میں توثیق کے بعد بھی یا تو کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا ہے یا’’عبوری معاوضہ‘‘ کے نام پر بہت کم رقم ادا کی گئی ہے۔اس بات کی اطلاع دلّی حکومت کے ذریعہ ڈی ایم سی ایکٹ 1999 کے تحت قائم کردہ قانونی ادارہ، دلّی اقلیتی کمیشن نے گزشتہ 16 جولائی 2020 کو جاری شمال مشرقی ضلع میں ہونے والے فسادات کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ میں دی ہے۔
کمیشن کی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ امن و امان قائم رکھنے میں حکام کی ناکامی کی وجہ سے تشدد میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے سرکاری ملازموں اور عام شہریوں کی ہلاکت کے معاملات میں معاوضے کی رقم کے تعین میں شدید اختلاف ہے۔ سرکاری ملازمین کی اموات پر بڑی مقدار میں معاوضہ دیا جارہا ہے جبکہ لوٹ مار، جلانے، املاک اور مذہبی مقامات کو ہونے والے نقصانات کے لیے یا تو معاوضہ ادا ہی نہیں کیا گیا ہے یا بہت کم رقم ادا کی گئی ہے۔
اس طرح سے دلّی اقلیتی کمیشن کی یہ رپورٹ یہ سوال بھی کھڑا کرتی ہے کہ کیجریوال حکومت نے دلّی تشدد میں مارے گئے آئی بی کے ملازم اور دلّی پولیس کے اہلکار کے لواحقین کے لیے ایک ایک کروڑ روپے کے معاوضے کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر مہلوکین کے اہل خانہ کو ۱۰۔۱۰؍ لاکھ روپے کی عبوری راحت تک محدود کر دیا گیا ہے۔ آخر یہ فرق کس بنیاد پر کیا گیا ہے جبکہ دونوں کی جانیں ایک ہی فساد میں گئی ہیں؟
دلّی اقلیتی کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے دلّی حکومت کی ویب سائٹ پر دستیاب دستاویزات سے قریب 250 معاوضے کی درخواستوں کا جائزہ لیا ہے اس کے علاوہ کمیٹی کو دیے گئے 450 درخواست فارموں کا بھی تجزیہ کیا ہے۔
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ دلّی میں لا اینڈ آرڈر مرکزی حکومت کے کنٹرول میں آتا ہے اس کے باوجود فسادات کے متاثرین کے معاوضے یا ان کی بازآبادکاری کے عمل میں مرکزی حکومت کی کوئی اسکیم یا مدد شامل نہیں ہے۔
کمیشن نے اپنی اس رپورٹ میں حکومت سے معاوضے کے تعلق سے یہ سفارش کی ہے کہ دلّی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ معاوضہ تمام متاثرین کو منصفانہ اور عاجلانہ طور پر ادا کیا جائے۔ یہی نہیں بلکہ فساد سے متاثر افراد کے لیے دلّی حکومت کی امدادی اسکیم کا جائزہ لیا جائے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کیا ہر زمرے کے تحت معاوضے کی رقم نقصان، چوٹ اور نقصان کی مقدار کے متناسب ہے؟ اور اگر ضرورت ہو تو امدادی اسکیم کا نیا خاکہ تحریری طور سے حکومت کو پیش کیا جائے۔ ساتھ ہی کلیمز کمشنر کی مدد کے لیے دو تین ماہرین کی ایک ٹیم مقرر کی جائے جو شاکی افراد کو مدد دلانے میں کمشنر کی مدد کرے۔ اس کے علاوہ موجودہ تحقیقاتی رپورٹ کے نتائج کو بطور بنیاد استعمال کرکے مذہبی عبادت گاہوں، مدرسوں، قبرستانوں اور مزارات کو ہونے والے نقصانات کا اندازہ کر کے معاوضہ دینے کی سفارش بھی دلی اقلیتی کمیشن کی طرف سے دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ دلّی اقلیتی کمیشن نے فروری 2020 کے اواخر میں دلّی کے شمال مشرقی ضلع میں بھڑکنے والے فسادات کی تحقیقات کے لیے 9 مارچ 2020 کو دلّی اقلیتی کمیشن نے ایم آر شمشاد (ایڈووکیٹ آن ریکارڈ، سپریم کورٹ آف انڈیا) کی سربراہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے 27 جون 2020 کو اپنی 130 صفحات پر مشتمل رپورٹ کمیشن کو پیش کر دی۔ کمیشن نے رپورٹ پر غور کیا اور اسے قبول کیا۔ کمیشن کی جانب سے یہ رپورٹ لیفٹیننٹ گورنر دلّی اور وزیر اعلیٰ دلّی کو مزید کارروائی کی درخواست کے ساتھ 12 جولائی کو پیش کر دی ہے۔ دلی کے تمام وزراء اور اسپیکر دلّی قانون ساز اسمبلی کو بھی اس رپورٹ کی کاپی پیش کر دی گئی ہے۔ ساتھ ہی اس رپورٹ کو 16جولائی 2020 کو عوام و میڈیا کے لیے بھی منظر عام کر دیا گیا ہے۔
تقریباًپانچ مہینے بعدبھی معاوضہ نہیں ملا
ہفت روزہ دعوت نے اپنی تحقیق میں پایا کہ دلّی کے اس فساد کو ہوئے قریب پانچ مہینے ہونے کو ہیں، لیکن ابھی تک سیکڑوں متاثرین معاوضہ کا انتظار کر رہے ہیں۔ کئی متاثرین کی طرف سےدلّی ہائی کورٹ میں کئی وکلاء نے درخواستیں دی ہیں، تاکہ انہیں جلد از جلد معاوضہ دلایا جاسکے۔ ان وکلاء سے ملی معلومات کے مطابق سیکڑوں کی تعداد میں ایسے متاثرین ہیں جنہیں فسادات کے دوران ہونے والے نقصان کا کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔
جبکہ ایک معاملے کی سماعت میں جسٹس پرتیبھا ایم سنگھ نے کہا تھا کہ ’’درخواست گزار کی درخواست پر تیزی سے کارروائی ہونی چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ درخواست گزار کو شدید چوٹ پہنچی ہے اور معاوضہ جاری کرنے میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘‘
حالاںکہ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ابھی تک معاوضے کے لیے فارم بھی نہیں بھرے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فسادات کے بعد متعدد متاثرین خوف سے دلّی چھوڑ کر چلے گئے تھے اور لاک ڈاؤن کے وقت واپس آئے اور بہت سے ابھی تک واپس نہیں آئے ہیں۔
ایسے بہت سے متاثرین جن کو معاوضہ نہیں ملا ہے وہ دلّی ہائی کورٹ میں پہلے ہی اپنی درخواستیں دائر کرچکے ہیں۔ ایسے ہی ایک معاملے میں ایک ہنگامہ آرائی کے دوران گولی کا نشانہ بننے والے ایک متاثرہ شخص کے معاملے میں مؤقف اختیار کرنے والی ایک درخواست میں کہا گیا تھا ’’درخواست گزار نے مارچ 2020 کے پہلے ہفتے میں اس اسکیم کے تحت معاوضے کے لیے درخواست دائر کی تھی، لیکن اب تک اسے کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔‘‘
ایک وکیل کے مطابق 400 سے زیادہ متاثرین نے معاوضے کے لیے دلّی ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں یا تو معاوضے کی رقم دلّی حکومت کے حکم کے مطابق موصول نہیں ہوئی ہے یا پھر سرے سے موصول ہی نہیں ہوئی ہے۔وہیں انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق جون کے آخر تک معاوضے کے لیے 3200 درخواستیں موصول ہوئیں۔ جس میں سے 1700 کی منظوری دی گئی، 700 کے قریب ابھی بھی زیر التوا ہیں، جبکہ 900 سے زائد کو مسترد کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے تشدد کے دو دن بعد ہی معاوضہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ مکان کے بھاری یا مکمل نقصان اور گھر کے سامان کو نقصان پہنچنے کی صورت میں فی خاندان 25000 روپے کی فوری امداد دی جائے گی۔ اس فوری امداد کے بعد نقصان کا تخمینہ کیا جائے گا اور اس کے مطابق مکمل معاوضہ دیا جائے گا۔
جمعیت علماء ہند کی جانب سے معاوضہ میں اضافہ کا مطالبہ
جمعیت علماء ہند کے جنرل سکریٹری محمود اسعد مدنی نے دلّی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو خط لکھ کر دلّی تشدد کے شکار متاثرین کے معاوضے کی رقم کو بڑھائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
مسٹر کیجریوال کو لکھے گئے اپنےخط میں محمود مدنی نے کہا ہے کہ دلّی تشدد کے متاثرین کو سکھ مخالف فساد 1984 میں عدالت کے طے شدہ معیارات کو مد نظر رکھتے ہوئے معاوضہ دیا جانا چاہیے تاکہ متاثرین اور اس کے اہل خانہ با عزت طریقے سے دوبارہ اپنی زندگی کا آغاز کر سکیں۔ حالانکہ مولانا مدنی یہی بات فروری کے مہینے میں جاری پریس ریلیز میں بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ایماندارانہ طور سے کارروائی کرتے ہوئے فساد پر قدغن لگائے اور مرنے والوں اور زخمیوں کو سکھ فساد کے طرز پر معاوضہ دینے کا اعلان کرے۔ اس سے قبل سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی آف انڈیا بھی یہ مطالبہ کر چکی ہے۔ پارٹی نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے مطالبے میں کہا تھا کہ مسلمانوں کے نقصان کا مکمل معاوضہ دیا جائے، فسادات میں مارے جانے والے افراد کے اہل خانہ کو ایک کروڑ روپے اور شدید زخمی افراد کو 50 لاکھ روپے معاوضہ دیا کیا جائے۔
کیا ہے رپورٹ کی اہمیت؟
دلّی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں بتایا کہ کمیشن نے یہ رپورٹ وزیر اعلی اروند کیجریوال، لیفٹیننٹ گورنر انیل بیجل، ڈپٹی چیف منسٹر منیش سسودیا اور دلّی کے تمام وزراء اور دلّی قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر کو بھیج دی ہے، اب وہ آگے کیا کرتے ہیں، وہی بہتر جانتے ہیں۔ اب سب کچھ ان کے سامنے ہے، اگر وہ چاہیں گے تو کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔
یہ پوچھنے پر کہ فیکٹ فائنڈنگ کے دوران میں کوئی پریشانی سامنے آئی؟ انہوں نے کہ کوئی پریشانی نہیں آئی۔ بس پریشانی اتنی رہی کہ کمیٹی اور کمیشن دونوں نے دلّی پولیس سے ایف آئی آرز کی کاپیاں اور گرفتاریوں وغیرہ کے بارے میں معلومات طلب کیں لیکن پولیس نے کسی کو بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے سربراہ ایم آر شمشاد نے ہفت روزہ دعوت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ان حقائق کو سامنے لانا ہوتا ہے جو عام لوگوں کی نظر میں نہیں ہوتے۔ ہم لوگوں نے عوام میں جاکر تمام حقائق کو یکجا کیا اور اسے ایک رپورٹ کی شکل دی ہے۔ اب حکومت کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اس رپورٹ کی سفارشات کو مانے کیوں کہ کسی بھی کمیشن کو اپنی سفارشوں کو منوانے کا اختیار نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ لا کمیشن جو ملک کی حکومتوں کو قانون بنانے کے لیے کہتا ہے، وہ بھی صرف تجویز ہی پیش کرسکتا ہے۔
آئی پی ایس عبدالرحمٰن کا کہنا ہے کہ اس طرح کی رپورٹ کی خاص اہمیت ہے۔ یہ اکیڈمک کے لوگوں کے لیے کام کی چیز ہے۔ وہ اس رپورٹ کے بعض اعداد و شمار کو اپنے ریسرچ میں استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ حکومت اگر کمیشن آف انکوائری ایکٹ بنا کر بھی ان فسادات کی تحقیقات کرواتی تب بھی حکومت ان سفارشوں کو ماننے کی پابند نہیں ہے۔ حکومت کے خواہش پر منحصر ہے کہ وہ کسی رپورٹ کی سفارشوں کو کتنا مانتی ہے۔ ممبئی فسادات کی جانچ کے لیے شری کرشن کمیشن بنی تھی لیکن اس کا کیا حثر ہوا وہ ساری دنیا بخوبی جانتی ہے۔
عبدالرحمٰن مہاراشٹرا اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن کے اسپیشل انسپکٹر جنرل تھے، لیکن انہوں نے شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں اپنے اس عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ حالانکہ ہفت روزہ دعوت کے پاس موجود معلومات کے مطابق ابھی تک ان کا استعفیٰ حکومت نے منظور نہیں کیا ہے۔
ایڈووکیٹ ابوبکر سباق کہتے ہیں کہ چونکہ دلّی اقلیتی کمیشن، دلّی حکومت کا نیم عدالتی ادارہ (quasi-judicial body) ہے، اس لیے دلّی حکومت کو اس رپورٹ کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور مجھے پوری امید ہے کہ سی ایم کیجریوال اسے ضرور پوری سنجیدگی سے لیں گے۔ لیکن سب کچھ حکومت کے صوابدید پر منحصر ہے، اسے رپورٹ کو ماننے کے لیے پابند نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایل جی صاحب مرکزی حکومت کے نمائندے ہیں، وہ بھی ضرور اس پر مثبت قدم اٹھائیں گے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ گجرات فسادات کی عدالت میں سنوائی چلی تو زیادہ تر وہ ہیومن رائٹس کمیشن کے سفارشوں پر مبنی تھی۔ اگر دلّی اقلیتی کمیشن کی مستقبل میں آنے والی نئی ٹیم آئے گی، اگر وہ اس رپورٹ کو لے کر عدالت میں جاتی ہے تو ایک اہم قدم ثابت ہوگا۔
ابوبکر سباق اس فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے ایک ممبر ہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک مستند و مضبوط دستاویز ہے۔ حکومت اگر ایمانداری سے اس کو دیکھے گی تو وہ ایکشن بھی لے سکتی ہے اور لوگوں کو انصاف بھی مل سکتا ہے۔ اگر کوئی چاہے تو اس رپورٹ کی بنیاد پر عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹا سکتا ہے۔
وہیں سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اے رحمٰن کا کہنا ہے کہ دلّی اقلیتی کمیشن نے یہ رپورٹ لانے میں بہت دیر کردی، دیر اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ اس کا اب کوئی فائدہ نہیں ملنے والا ہے۔ دلّی پولیس کے ذریعہ عدالت میں چارچ شیٹ داخل کردینے کے بعد اب پورا معاملہ عدالت کے زیر سماعت آگیا ہے۔ ایسے میں فیکٹ فائنڈنگ کی اس رپورٹ کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ سی آرپی سی کی دفعہ 482 کے تحت دلّی پولیس کے ذریعہ داخل کردہ چارج شیٹ کو چیلنج کیا جائے۔ اس کے لیے وکلا کی ٹیم کو آگے آنا چاہیے، چارج شیٹ کو ختم کرایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ پوری طرح سے جھوٹ کا پلندہ ہے۔ اور میں اسے فساد نہیں بلکہ مسلمانوں پر حملہ مانتا ہوں۔
دلّی اقلیتی کمیشن کے ذریعے پیش کردہ رپورٹ سے متعلق ہفت روزہ دعوت نے دلّی حکومت سے بھی اس کا موقف جاننے کی کوشش کی، لیکن یہ رپورٹ لکھے جانے تک دلّی حکومت سے اس کا کوئی جواب نہیں مل سکا ہے۔
عام آدمی پارٹی نے بتایا دلّی تشدد بی جے پی کی ‘گہری سازش کا نتیجہ’
طویل خاموشی کے بعد اب دلّی میں حکمراں عام آدمی پارٹی نے لیفٹیننٹ گورنر انیل بیجل پر دلّی فساد اور سی اے اے مخالف مظاہروں سے متعلق مقدمات میں عدالتی عمل کو روکنے کا الزام عائد کیا ہے۔عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا کے رکن سنجے سنگھ نے دلّی فساد کو بی جے پی کی ’’گہری سازش کا نتیجہ‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ بی جے پی، فساد سے وابستہ چہروں کو بچانے کے لیے اپنی پسند کے وکیلوں کی تقرری کرنا چاہتی ہے۔
راجیہ سبھا کے ممبر پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے گزشتہ اتوار کو ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ الزامات عائد کیے تھے، جہاں انہوں نے دلّی حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر انیل بیجل کے مابین جاری تنازعے کا خاکہ پیش کیا، جس میں لیفٹیننٹ گورنر کا زور اس بات پر ہے کہ دلّی پولیس کی طرف سے تجویز کردہ 6 سرکاری وکیل تشدد سے متعلق معاملوں پر بحث کریں گے۔ سنجے سنگھ نے کہا،’’ہم منصفانہ تحقیقات اور منصفانہ سماعت چاہتے ہیں۔‘‘
اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا،’’پولیس کچھ معاملات میں چارج شیٹ داخل نہیں کررہی ہے، کچھ میں کمزور چارج شیٹ، کچھ میں مضبوط، کچھ معاملات میں اضافی چیزیں لکھ رہی ہے اور کچھ میں حقیقت کو چھپا رہی ہے۔‘‘
وہیں عام آدمی پارٹی کے ترجمان اور ایم ایل اے راگھو چڈھا نے کہا، ‘دلّی پولیس تفتیشی ایجنسی ہے، لہذا وکلاء کو طے کرنے میں ان کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
اسدالدین اویسی اور سلمان خورشید کے دلّی تشدد میں ملوث ہونے کی جانچ
دلّی تشدد معاملے میں اجئے گوتم نامی ایک شخص کی طرف سے دائر مقدمے میں دلّی پولیس کے ذریعے دلّی ہائی کورٹ میں داخل جواب سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دلّی تشدد میں وارث پٹھان، اسدالدین اویسی، کانگریسی لیڈر سلمان خورشید اور دیگر رہنماؤں کی جانب سے دیے گئے اینٹی سی اے اے بیان پر تفتیش جاری ہے۔ جبکہ اسی کیس کی آخری سماعت میں دلّی پولیس نے مرکزی وزیر اور بی جے پی لیڈروں انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما، کپل مشرا اور ابھے ورما کو اشتعال انگیز تقریریں کرنے کے معاملے میں کلین چٹ دے دی تھی۔ پولیس نے کہا تھا کہ ان بی جے پی لیڈروں کے خلاف کوئی کیس نہیں بنتا۔
واضح رہے کہ درخواست گزار اجئے گوتم نے دلّی ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کر کے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وارث پٹھان، اسدالدین اویسی، سلمان خورشید سمیت رہنماؤں کی جانب سے دیے گئے اینٹی سی اے اے بیان کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ کیونکہ ان کی اشتعال انگیز تقریروں کی وجہ سے شمال مشرقی دلّی میں تشدد پھوٹ پڑا۔ اس وقت دلّی پولیس کی تفتیش بھی اسی سمت میں جا رہی ہے۔
دلّی اقلیتی کمیشن کی رپورٹ کے اہم نتائج اور سفارشات:
1۔ تشدد پرمسلسل اکسانا
دسمبر 2019 سے فروری 2020 تک دلّی کے اسمبلی انتخابات کی مہم کے دوران بی جے پی قائدین نے سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف لوگوں کو تشدد پر اکسانے کے لیے متعدد تقاریر کیں۔ رپورٹ میں ان تقاریر کی تفصیلات ریکارڈ کی گئی ہیں۔
23 فروری 2020 کو موج پور میں کپل مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کے فوراً بعد شمال مشرقی دلّی کے مختلف علاقوں میں تشدد بھڑک اٹھا۔ اس تقریر میں انہوں نے شمال مشرقی دلّی کے جعفر آباد علاقے میں مظاہرین کو زبردستی ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ مظاہرین اور عوام کو یہ دھمکیاں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر پولیس نارتھ ایسٹ شری وید پرکاش سوریہ کی موجودگی میں دی گئی تھیں۔
2۔ منصوبہ بند ، منظم اور نشانہ بند تشدد
مسلح ہجوم شمالی مشرقی دلّی کے مختلف علاقوں میں گیا، افراد پر حملہ کیا ، املاک اور کاروبار کو لوٹا اور جلایا۔ ہجوم نے’’جے شری رام‘‘ ،’’ہر ہر مودی‘‘ ،مودی جی ، کاٹ دو ان ملوں کو‘‘ ،’’آج تمہیں آزادی دیں گے‘‘ وغیرہ جیسے نعرے لگاتے ہوئے مسلم افراد ، گھروں ، دکانوں ، گاڑیوں اور مساجد وغیرہ املاک پر چن چن کر حملہ کیا۔ گواہوں نے بتایا کہ ہجوم میں بڑی تعداد میں بیرونی افراد شامل تھے لیکن ان میں کچھ مقامی افراد بھی شامل تھے جن کو متاثرین پہچان سکتے ہیں۔ ہجوم لاٹھیوں لوہے کی سلاخوں آنسو گیس کے گولوں گیس سلنڈروں اور آتشیں اسلحوں سے لیس تھا۔
شمال مشرقی دلّی کے متعدد علاقوں میں، مسلمانوں کی املاک کو لوٹ لیا گیا جلایا گیا اور مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ حملےاس حد تک منصوبہ بند تھے کہ جہاں مالکان ہندو تھے لیکن جائیدادیں مسلمانوں کو کرایے پر دی گئی تھیں وہاں ان عمارتوں کو بچالیا گیا لیکن غیر منقولہ املاک کو لوٹ لیا گیا یا احاطے کے باہر لا کرجلا دیا گیا۔متاثرین کی شہادتوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ تشدد کسی ’’فساد‘‘ کی طرح بے ساختہ نہیں تھا بلکہ منصوبہ بند، منظم اور نشانہ بند تھا۔
3۔ مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا
اس رپورٹ میں 11 مساجد ، پانچ مدرسوں ، ایک درگاہ اور ایک قبرستان کی تفصیلات دی گئی ہیں جن پر تشدد کے دوران حملہ ہوا تھا اور جن کو نقصان پہنچایا گیاتھا۔ حملہ آوروں نے خاص طور پر مسلم عبادت گاہوں اور اسکولوں یعنی مساجد اور مدرسوں کے ساتھ قرآن مجید کی کاپیوں جیسی مذہبی علامتوں کو توڑ ڈالا اور جلادیا۔ فسادات کے دوران مسلم پڑوسیوں نے مسلم اکثریتی علاقوں میں غیر مسلم عبادت گاہوں کی حفاظت کی۔ بڑی تعداد میں علاقے کے مسلمان بے گھر ہوگئے ہیں۔ کوویڈ۔19 لاک ڈاؤن کی وجہ سے متاثرین ان امدادی کیمپوں سے بھی نکال دیے گئے جہاں ان بے گھر افراد نے پناہ لی تھی۔
4۔ پولیس کا کردار
تحقیقاتی کمیٹی کے ذریعے جمع کردہ متعدد شہادتیں تشدد کے دوران پولیس کی بے عملی کی گواہی دیتی ہیں حالانکہ تشدد اس کی نگاہوں کے سامنے پھیل رہا تھا۔ نیز ایمرجنسی کال نمبر پر بار بار فون کرنے کے باوجود پولیس موقع پر نہیں پہنچی تھی۔ شہادتیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ کس طرح پولیس علاقے میں گشت کررہی تھی لیکن جب مدد طلب کی گئی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے مدد کرنے سے انکار کردیا کہ ان کو کسی کام کا آرڈر نہیں ملا ہے۔ پولیس نے غیر قانونی طور پر جمع ہونے والوں کو منتشر کرنے ، یا تشدد کرنے والے افراد کو گرفتار کرنے اور ان کو نظر بند کرنے کے اختیار کو بھی استعمال نہیں کیا۔
تشدد کا نشانہ بننے والوں کی متعدد شہادتوں سے واضح ہوتا ہے کہ ایف آئی آر درج کرنے میں یا تو جان بوجھ کر تاخیر کی گئی یا ان پر کارروائی نہیں کی گئی۔ مزید یہ کہ شکایات کی سنگینی کے باوجود پولیس نے درج کی گئی ایف آئی آر پر بھی عمل نہیں کیا۔ کچھ معاملات میں پولیس اس وقت تک ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتی رہی جب تک کہ شکایت کنندہ نے نامزد ملزمین کے نام اپنی شکایت سےنہیں خارج کردیے۔ کچھ معاملات میں شکایات کو پہلے سے درج کی گئی ایف آئی آرز میں غلط طور پر شامل کر دیا گیا۔
شہادتوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کچھ معاملات میں پولیس ملوث تھی اور اس نے خود حملوں کو ہونے دیا۔ جہاں کچھ پولیس عہدیداروں نے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوشش بھی کی وہاں متاثرین کے مطابق پولیس افسروں نے اپنے ساتھیوں کو روک دیا اور بھیڑ کو منتشر کرنے کی کوشش کرنے والے پولیس والوں سے کہا کہ’’انہیں مت روکو‘‘۔ کچھ معاملات میں پولیس محض تماشائی بن کر کھڑی رہی جبکہ ہجوم لوٹ مار ، جلانے اور تشدد میں مصروف تھا۔ کچھ دوسرے معاملات میں پولیس نے واضح طور پر مجرموں کو یہ کہتے ہوئے بڑھاوا دیا کہ’’جو چاہو کرلو‘‘۔ کچھ شہادتوں میں بتایا گیا ہے کہ پولیس اور نیم فوجی افسران نے حملہ ختم ہونے کے بعد مجرموں کو ب
حفاظت علاقے سے باہر منتقل کیا جبکہ کچھ معاملات میں پولیس نے متاثرین کو بھی بحفاظت باہر نکالا۔کچھ شہادتوں میں پولیس افسران کے خلاف جسمانی زیادتی اور بدسلوکی سمیت براہ راست تشدد میں ملوث ہونے کے واضح الزامات لگائے گیے ہیں اور کچھ معاملات میں شکایت کرنے والے متاثرین کو ہی گرفتار کرلیا گیا ہے، خاص طور پر ان حالات میں جہاں انہوں نے نامزد افراد کے خلاف شکایت درج کروائی یا اس کی کوشش کی۔ نامزد ملزمین کے خلاف شکایات کی مناسب تحقیقات کے بغیر چارج شیٹ داخل کرنے سے جہاں تفتیش کی غیر جانبداری اور مقصدیت کے بارے میں شبہ پیدا ہوتا ہے وہیں دلّی پولیس کے ذریعے مجموعی طور سے تشدد کے بارے میں ایک نیا بیانیہ پیش کرنے کی کوشش کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
5۔ خواتین پر اثر
شہادتیں بتاتی ہیں کہ مسلم خواتین پر ان کی مذہبی شناخت کی بنا پر حملہ کیا گیا تھا۔ ان کے حجاب اور برقعے اتار دیے گئے تھے۔ خواتین کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس فورسز اور پرتشدد ہجوم نے احتجاجی مقامات پر حملہ کیا، خواتین پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور ہجوم کے ذریعے ان پر حملہ ہوا۔ خواتین نے بھیڑ کے ذریعے تیزابی حملوں اور جنسی تشدد کی دھمکیوں کی مثالیں بھی بیان کیں۔
پولیس نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان پر حملہ کرنے کے لیے لفظ ’’آزادی‘‘ کے نعرے کااستعمال کیا۔ اس میں کم از کم ایک واقعہ ایسا بھی شامل ہے جس میں خواتین مظاہرین کے سامنے پولیس افسروں نے اپنے جنسی اعضا دکھائے۔ زبانی زیادتیاں بھی فطری طور پر جنسی اور فرقہ وارانہ تھی۔ یہ واضح ہے کہ پولیس مدد کے لیے آگے نہیں آئی اور متعدد واقعات میں خواتین کے خلاف تشدد میں ملوث رہی۔
سفارشات:
1۔ حکومت کو خصوصی تشکیل کے ذریعے ایک پانچ رکنی آزاد کمیٹی تشکیل دینا چاہیے۔ اس کمیٹی کی سربراہی ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی ہو، اور اس میں 1) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنزجج ، 2) ایک سینئر ایڈوکیٹ ، 3) ایک ریٹائرڈ پولیس اہلکار ، جو ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدے سے کم نہ ہو اور جس نے دلّی پولیس میں خدمات انجام نہ دی ہوں ، اور 4) اچھی شہرت رکھنے والے ایک سول سوسائٹی کا رکن بطور ممبر ہوں۔ سربراہ اور ممبروں کے انتخاب میں امیدواروں کی مناسبت کا اندازہ مندرجہ ذیل معیارات کے مطابق کیا جانا چاہیے: (i) ذاتی دیانتداری کا عمدہ ریکارڈ (ii) انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے ثابت عزمی اور (iii) قانون اور اس سے متعلق کارروائیوں کا علم۔
2۔ کمیٹی کا حکم نامہ کثیرالجہتی ہونا چاہیے اور اس میں یہ باتیں شامل ہونی چاہئیں :(i) تمام متعلقہ معاملات میں ایف آئی آر کے مناسب اور فوری رجسٹریشن کو یقینی بنایا جائے جہاں شکایات کو ابھی تک ایف آئی آر میں تبدیل نہیں کیا گیا ہے۔(ii) تعزیرات ہند کے سیکشن 164 کے تحت متاثرین کے بیانات کی ریکارڈنگ کو یقینی بنایا جائے (iii) دلّی گواہ پروٹیکشن اسکیم کے مطابق گواہ اورمتاثرین کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔(iv) پولیس کے ذریعے دائرکردہ چارج شیٹوں کی روشنی میں ان کیسوں کا جائزہ لیا جائے جن کو چھوڑ دیا گیا ہے۔(v) دلّی پولیس کے ذریعہ تشدد ہونے دینے یا اپنی ڈیوٹی سے دستبرداری کی تحقیقات جس میں کمانڈ کی ذمہ داری بھی شامل ہے اور ساتھ ہی ساتھ تشدد کی براہ راست کارروائیوں میں ملوث ہونے اور جنسی تشدد کی تحقیقات بھی شامل ہونا چاہیے۔ یہ شواہد رپورٹ، تصویروں ، ویڈیوز اور دوسری دستاویزات کے ساتھ عدالت میں پیش کیے جائیں۔(vi) اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ معاوضہ تمام متاثرین کو منصفانہ اور عاجلانہ طور پر ادا کیا جائے۔(vii) ہنگاموں سے متاثر افراد کے لیے دلّی حکومت کی امدادی اسکیموں کا جائزہ لیا جائے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کیا ہر زمرے کے تحت معاوضے کی رقم نقصان، چوٹ اور نقصان کی مقدار کے متناسب ہے؟ اور اگر ضرورت ہو تو امدادی اسکیموں کا نیا خاکہ تحریری طور سے حکومت کو پیش کیا جائے ۔
3۔ کلیمز کمشنر کی مدد کے لیے ۲ ۔ ۳ ماہرین کی ایک ٹیم مقرر کی جائے جو متاثرین کو مدد دلانے میں کمشنر کی مدد کرے۔
4۔ متاثرین کو قانونی خدمات کی فراہمی کے لیے دلّی اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی کے ساتھ مل کر فوجداری قانون کے عمل میں قابلیت رکھنے والے 5 تا 10 سالہ تجربہ کار ٹرائل کورٹ کے وکیلوں کی ایک ٹیم تشکیل دی جائے۔ ٹیم میں صنفی توازن کو یقینی بنایا جائے اور اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ عوام اور / یا سرکاری عہدیداروں کے خلاف جنسی تشدد کی شکایات درج کرنے سمیت خواتین اور بچوں کے متاثرین کی مدد کے لیے خصوصی اقدامات اٹھائے جائیں۔ نشانہ بننے والی خواتین کو مؤثر قانونی نمائندگی کا یقین دلایا جائے نیز جنسی تشدد کے مقدمات کی پیروی کرنے والوں کو ان کی پسند کے وکیل کی شمولیت کے لیے قانونی مدد دی جائے۔
5۔ سیاسی رہنماؤں کی تقاریر اور نعروں کے شمال مشرقی ضلع میں بھڑکنے والے تشدد سے براہ راست اور قریبی تعلق کے بارے میں ہائی کورٹ کی مدد کے لیے کسی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے
ریٹائرڈ جج سے قانونی رائے حاصل کی جائے۔
6۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں کہ کسی بھی شخص نے جس نے کسی گروہ کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کیا ہو اس کو ان معاملات میں سرکاری وکیل کے عہدے پر مقرر نہیں کیا جائے گا۔
7۔ سرکاری وکیلوں کے منصفانہ، غیر جانبدارانہ انداز میں اور انصاف کے مفاد میں کام کرنے کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں۔
8۔ موجودہ تحقیقاتی رپورٹ کے نتائج کو بطور بنیاد استعمال کرکے مذہبی عبادت گاہوں ،مدرسوں ، قبرستانوں اور مزارات کو ہونے والے نقصانات کا صحیح صحیح اندازہ لگایا جائے اور ان کا معاوضہ دیا جائے۔
***
دلّی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں بتاتے ہیں، کمیشن نے یہ رپورٹ وزیر اعلی اروند کیجریوال، لیفٹیننٹ گورنر انیل بیجل، ڈپٹی چیف منسٹر منیش سسودیا اور دلّی کے تمام وزراء اور دلّی قانون ساز اسمبلی کے اسپیکر کو بھیج دی ہے، اب وہ آگے کیا کرتے ہیں، وہی بہتر جانتے ہیں۔ اب سب کچھ ان کے سامنے ہے، اگر وہ چاہیںگے تو کچھ نہ کچھ ضرور کریںگے۔