خودکشی کی وجوہات اور اس کا سدباب
خودکشی کرنے والوں میں 94فیصد نفسیاتی مریض 43 فیصد کیسس میں وجہ کا تعین مشکل
ڈاکٹر کاظم ملک ،ممبئی
ہمارے ملک میں خودکشی ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔ ہر سال تقریباً ایک لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں اور پچھلی دو دہائیوں میں یہ تعداد مزید بڑھی ہے۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی تقریباً چوہتر افراد خودکشی کے ذریعے اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق 37.8فیصد بھارتی جو خودکشی کرتے ہیں، ان کی عمر تیس سال یا اس سے کم ہوتی ہے۔ تقریباً چوہتر فیصد افراد چوالیس سال سے کم عمر میں خودکشی کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس کی سب سے بڑی وجہ معاشی مسائل ہیں۔ بے روزگاری، قرض، جائیداد کے مسائل کے باعث ملک کے باشندوں کی بڑی تعداد ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ خواتین میں خودکشی کا رجحان مردوں کے مقابلے میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس کی وجوہات پر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ خواتین ذہنی خلجان کا شکار زیادہ کیوں ہوتی ہیں ۔
خودکشی کرنے کے طریقوں کی بھی تحقیق کی گئی ہے۔ زیادہ تر خودکشیاں زہر کھاکر کی جاتی ہیں جبکہ پھانسی لگانے اور اپنے آپ کو جلا لینے کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ ایک دلچسپ تحقیق یہ ہے کہ ساٹھ افراد میں سے ایک فرد خودکشی کے رجحانات رکھتا ہے ۔ انہی وجوہات کی بنا پر خودکشی ایک بڑا سماجی مسئلہ بن گئی ہے اور دنیا بھر کے سماجی دانشور اس کے مختلف حل پیش کررہے ہیں۔
ویسےتو خودکشی ایک شخص کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے لیکن اسے خودکشی پر ابھارنے یا مجبور کرنے کے لیے کئی سماجی عوامل ذمہ دار ہوتے ہیں۔ سماج میں پھیلی نا انصافی، دھوکہ، فریب ایک حساس فرد پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہوتا ہے۔
تیتالیس فیصد خودکشی کے واقعات میں یہ طے کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کہ تمام ظاہری سہولتوں کے باوجود ایک شخص نے خودکشی کیوں کی۔
صرف چوالیس فیصد واقعات میں خودکشی کی وجہ کا تعین ہوپاتا ہے۔ اس میں بھی بڑا حصہ خانگی زندگی کے مسائل سے تعلق ہے جیسے طلاق ، ناکامیاب شادی شدہ زندگی، شادی شدہ زندگی کے باہر غیر قانونی تعلقات، اپنی پسند کی شادی نہ ہونا، شوہر یا بیوی کا ایک دوسرے کو دھوکہ دینا وغیرہ۔ ان مسائل میں دیکھا گیا ہے کہ عورتیں اکثر نا انصافی کا شکار ہوکر خودکشی کا راستہ اختیار کرتی ہے۔
گزشتہ دو سالوں سے ساری دنیا کورونا کی بیماری اور لاک ڈاون کا شکار ہے۔ جس کے باعث گھر کے تام افراد ایک ہی گھر میں قید ہوکر رہ گئے ہیں اس وجہ سے ان میں آپسی تنازعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اکثر افراد نے اس کے تدارک کے لیے ماہرین نفسیات کا سہارا لیا ہے تاکہ ان کے رشتوں کی دراڑ کم ہوجائے۔
خانگی مسائل کے علاوہ ملک کے معاشی مسائل بھی خودکشی کا باعث بنتے ہیں جن میں غریبی، بے روزگاری ، قرض ادا نہ کرپانا، کاروبار میں ناکامی سرفہرست ہیں۔ اقتصادیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اگرملک کے معاشی حالات پر جلد قابو نہ پایا گیا تو کئی لاکھ لوگ غریبی کی سطح سے نیچے آجائیں گے اور ہمارا ملک دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے زمرے سے باہر نکل جائے گا۔ ساتھ ہی تعلیمی وسائل بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔ یہ تمام باتیں ایک شخص کو خودکشی کی طرف مائل کرنے کے لیے کافی ہے۔
مختلف ذہنی عارضے بھی خودکشی کی وجہ بنتے ہیں جیسے مایوسی (Disappointment) شماریات بتاتے ہیں کہ چورانوے فیصد خودکشی کرنے والے افراد کسی نہ کسی ذہنی عارضے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ساری دنیا میں خودکشی کرنے والے افراد میں مایوسی سب سے بڑی وجہ بن کر سامنے آتی ہے۔ اس کےبعد شراب کا نمبر آتا ہے۔ مایوسی کی وجہ سے خودکشی کرنے والوں میں مردوں کی بہ نسبت عورتوں کی تعداد زیادہ ہے جبکہ شراب پی کر مرنے والوں میں مردوں کی تعداد عورتوں سے تجاوز کرگئی ہے۔ اس کے بعد نشہ آور دواوں کے استعمال سے خودکشی کرنے والے افراد کا نمبر آتا ہے۔
شقاق دماغی (Schizophrenia ) بھی خودکشی کی بڑی وجہ ہے جس میں کوئی فرد زندگی کی حقیقت سے پرے کچھ سوچنے لگتا ہے یا اپنے خود کے بارے میں غلط رائے قائم کرنے لگتا ہے۔ اس کے برتاو میں تبدیلیاں محسوس ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ اسے وقتاً فوقتاً دورے پڑتے ہیں ان دوروں کے وقت اس کی دبی ہوئی شخصیت کا پتہ چلتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شہروں میں رہنے والے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کے مقابلے میں خودکشی کا زیادہ رجحان رکھتے ہیں۔ شاید اجتماعی خاندانوں کا علیحدہ ہونا، اپنے گھر سے دور ہجرت کرکے کہیں اور بس جانا، خاندان میں بزرگوں کا نہ ہونا یا بے اولاد ہونا یہ شہری علاقوں کے افراد کی الجھنیں ہوسکتی ہیں یا پھر روزگار کا نہ ملنا، کاروبار میں شدید نقصان یا لا علاج بیماری ۔ یہ تمام وجوہات ایک شخص کو خودکشی کی طرف مائل کرتے ہیں۔
یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ مذہب بیزار افراد زیادہ خودکشی کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین مانتے ہیں کہ مذہب پر اعتقاد ذہنی مایوسی کو دور کرنے کی بڑی وجہ ہے۔ اکثر خودکشی کرنے ولے افراد میں خدا پر یقین کمزور پایا گیا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ خودکشی کے خیالات آنے پر کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے آپ کو چند علامات ہم بتاتے ہیں جو خودکشی کا رجحان رکھنے والوں میں پائی جاتی ہیں جیسے
۔۔ مایوسی کی باتیں کرنا
۔۔ اکیلے رہنا یا محفلوں میں شرکت نہ کرنا
۔۔ نیند میں غیر معمولی کمی یا زیادتی ہونا
۔۔ بھوک نہ لگنا ۔
بہت زیادہ غصہ کرنا یا غصہ جلد آجانا۔
برتاو میں اچانک غیر معمولی تبدیلی دکھائی دینا۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جو خودکشی کی طرف میلان میں اضافہ کرتی ہے۔
اکثر خودکشی کا رجحان رکھنے والا شخص اپنی صورت حال کو خود سمجھ نہیں پاتا اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے آس پاس کے افراد کا جائزہ لیتے رہیں اوراگران میں ایسی کوئی تبدیلی پائی جائے تو فوراً اس شخص کو کسی تجربے کار ماہر نفسیات کو دکھایا جائے تاکہ وہ مناسب مشورہ دے سکے یا علاج شروع کرسکے۔ایسے شخص کو خوش رکھنا اسے اس کی پسند کی چیزیں دینا بھی اسے صحت مند بنانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ خدا پر یقین کو بڑھانا۔ اگر وہ شخص مسلمان ہے تو اسے باور کرانا کہ دنیا میں سب سے بڑی طاقت خداوند قدوس کی ذات پر بھروسہ و یقین کرنا ہے اور ہمیں انتہائی نامناسب حالات میں بھی مثبت رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ وہ شخص خوش قسمت ہے جس کے پاس رہنے کے لیے چھت، سواری اور دو وقت کا کھانا ہو۔ اس کے علاوہ حضورؐ نے فرمایا کہ مومن کے لیے خیر ہی خیر ہے جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور جب خوشی ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے۔
حضورؐ کا ارشاد ہے کہ اگر قیامت سامنے ہو اور تمہارے ہاتھ میں پودا ہوتو اسے لگادو۔ یہ وہ زبردست تعلیمات ہیں جو ہمیں مایوسی سے دور لے جاتی ہے۔ یاد رکھیے وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ ہر پریشانی کے بعد آسانی ہے۔ ہر پت جھڑ کے بعد بہار ہے۔ حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے۔ ضرورت ہوتی ہے صبر کی اور یقین کی ۔ یقین و توکل کی طاقت پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرسکتی ہے۔ اگر صحیح وقت پر اس طرح کی تعلیمات بہم پہنچائی جائیں تو ایک بڑی تعداد کو ہم خودکشی کرنے سے روک سکتے ہیں۔
***
ویسےتو خودکشی ایک شخص کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے لیکن اسے خودکشی پر ابھارنے یا مجبور کرنے کے لیے کئی سماجی عوامل ذمہ دار ہوتے ہیں۔ سماج میں پھیلی نا انصافی، دھوکہ، فریب ایک حساس فرد پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہوتا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم اگست تا 7 اگست 2021