خودرا فضیحت دیگراں را نصیحت

اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا

سید احمدسالک ندوی ، بھٹکل

 

بی جے پی ایم‌پی کو اپنی بیوی کا پارٹی چھوڑنا برداشت نہیں؟
میاں بیوی کے درمیان اختلاف تو فطری بات ہے لیکن یہ صرف سیاسی اختلافات کی وجہ سےشوہر نے کوئی بڑا قدم اٹھایا ہو ایسا آپ نے نہیں سنا ہوگا۔ پچھلے دنوں مغربی بنگال کے بشنوپور سے بی جے پی ایم پی سومترا خان نے اپنی اہلیہ سجاتا منڈل کو صرف اس لیے قانونی طلاق کا نوٹس بھجوایا کہ اس کی بیوی نے بی جے پی کو چھوڑ کر ترنمول کانگریس میں شمولیت اختیار کی حالانکہ سومترا خان نے طلاق کے نوٹس میں سجاتا پران کے اہل خانہ کو ذہنی کوفت پہنچانے اور اذیت دینے کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے اسی وجہ سے وہ منڈل کے ساتھ اپنی شادی ختم کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ ہفت روزہ دعوت نےجب اس سلسلے میں معلوم کیا تو پتہ چلا کہ منڈل پر لگے ان الزامات کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔دوسری جانب سجاتا منڈل نے کہا ہے کہ جس پارٹی نے مسلم خواتین کے ساتھ ہمدردی کے نام پر تین طلاق کے خلاف قانون بنایا اسی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ نے سر عام اپنی بیوی کو طلاق کا نوٹس دیا۔ بات تب مضحکہ خیز بنی جب سجاتا نے کہا کہ تین طلاق کو ختم کرنے والے لوگ ہی میرے شوہر سے مجھے طلاق دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔سجاتا نے یہ بھی کہا تھا کہ سیاست آپ کی ذاتی زندگی میں داخل ہوتی ہے توتعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔ دوسری جانب سومترا خان نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے میڈیا سے بھی گزارش کی وہ ان کی بیوی کے ساتھ خان استعمال نہ کریں۔
سجاتا نے کیوں چھوڑی بی جے پی ؟
یہ سوال اپنے آپ میں بہت اہم ہے کہ سجاتا نے بی جے پی سے ٹی ایم سی میں کیوں شمولیت اختیار کی ۔ کیا سجاتا کو آنے والے الیکشن میں بی جے پی کی اچھی کارکردگی کی امید نہیں ہے یا کوئی دوسرا دکھ ہے جو انہیں اندر سے گھلا رہا ہے۔ عورت دراصل توجہ چاہتی ہے۔ وہ توجہ چاہے شوہر کی ہو یا والدین کی ہو یا اپنے سے اوپر کے لوگوں کی۔ جب انہیں نظر انداز کیے جانے کا احساس ستاتا ہے تو پھر وہ ٹوٹ جاتی ہے۔ سجاتا نے بھی اس بات کو بنیاد بنایااور کہاکہ بی جے پی نے ہم جیسے چھوٹے کارکنوں کو نظر انداز کیا اور موقع پرست لیڈروں کو زیادہ اہمیت دی۔ اسی کے پیش نظر انہوں نے ٹی ایم سی کا رخ کیا۔ سجاتا کا درد تب بھی چھلکا جب انہوں نے کہا کہ شوہر کو پارلیمانی انتخابات میں جیت دلانے کے لیے انہوں نے بہت سی تکلیفیں برداشت کیں لیکن اس کے بدلے میں انہیں کچھ بھی نہیں ملا۔ سجاتا کا یہ سوال بہر حال حق بجانب ہے کہ مسلم خواتین کی ہمدردی کا دعویٰ کرکے تین طلاق پر پابندی کا کریڈٹ لینے والی بی جے پی اب کیوں خاموش ہے؟ حالانکہ سجاتا وزیراعظم مودی سے امید لگائی بیٹھی ہیں کہ وہ اس پر کچھ نوٹس لیں گے۔ سجاتا اپنی صنفی کمزوری کو بنیاد بناکر بھی گہار لگارہی ہیں کہ اس نے دربادی اور دم گھٹ جانے والے بی جے پی کے ماحول سے نکل کر ترنمول کے آزاد ماحول میں سانس لینے کے لیے ٹی ایم سی میں شامل ہوئی ہیں لیکن فی الوقت یہ سب اپیلیں صدا بصحرا نظر آرہی ہیں ۔
سومترا خان کون ہیں؟
سومترا ویسے عورت کا نام لگتا ہے لیکن یہ مرد کا نام ہے۔ خان سے ان کے مسلم ہونے کا بھی شبہ ہوتا ہے ۔ حالانکہ سجاتا سے ان کی شادی ہندو میرج ایکٹ 1955 کے تحت ہندوانہ رسومات کے مطابق کی گئی تھی۔ انتخابی حلف نامہ کے مطابق یہ شیڈول کاسٹ کے ہیں اور خان کا سابقہ ان کے والد کے نام سے چلا آرہا ہے ان کے والد دھننجے خان اور والدہ چھایا رانی خان ہیں حالانکہ بعض لوگوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ ان علاقوں میں مخلوط آبادی کی وجہ سے ناموں میں بھی الٹ پھیر ہوا ہوگا۔
ایک طرف بی جے پی تین طلاق کی مذمت میں قانون لاتی ہے لیکن اسی کے ارکان اگر یہ کام کرتے ہیں پارٹی خاموش ہوجاتی ہے۔ ایسے ہی بی جے پی بیٹی پڑھاو ’بیٹی بچاو‘ کا نعرہ لگاتی ہے لیکن ماضی قریب میں مختلف ریاستوں میں بی جے پی کے ارکان عصمت دری کے واقعات میں ملزم بنائے گئے ہیں۔ ان واقعات سے اس پارٹی کے قول و عمل میں پایا جانے والا تضاد پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔ خیال رہے کہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی صرف یقین دہانی کافی نہیں ہوتی، حکمراں جماعت کی طرف سے خواتین کو انصاف دلانے اور ان سے حسن سلوک کرنے کے زبانی دعوؤں کی بھی ہمارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں کیونکہ ان کے خیمے میں خواتین کے بہی خواہ خود اس کا لحاظ نہیں کر رہے ہیں۔صرف دوسری سیاسی پارٹی میں شامل ہو جانےکے بدلے میں ایک خاتون سے اس کا شوہر اتنا سخت بدلہ لیتا ہے اور اس زیادتی پرخواتین کی ہمدردی کے نام پر قوانین بنا کرآسمان سر پر اٹھانےوالے چپّی سادھ لیتے ہیں تو آپ اس دکھاوے کی ہمدردی کی حقیقت کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔اس واقعہ سے اتنا ضرور معلوم ہوا کہ موقع پرستی کی سیاست میں نہ بیوی شوہر کی وفادار ہوتی ہے اور نہ ہی شوہر کو بیوی عزیز ہوتی ہے۔ اپنا سیاسی الو سیدھا کرکے اپنے مفادات پر آنچ آنے والی ہر چیز کو راستے سے ہٹانا ہی ان کے پیش نظر ہوتا ہے۔
***

خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی صرف یقین دہانی کافی نہیں ہوتی، حکمراں جماعت کی طرف سے خواتین کو انصاف دلانے اور ان سے حسن سلوک کرنے کے زبانی دعوؤں کی بھی ہمارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں کیونکہ ان کے خیمے میں خواتین کے بہی خواہ خود اس کا لحاظ نہیں کر رہے ہیں

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 10 جنوری تا 16 جنوری 2021