ڈاکٹر سید وہاج الدین ہاشمی
خواجہ حسن نظامی (اصل نام سید علی حسن) کی پیدائش بستی حضرت نظام الدین دہلی میں ۱۸۷۹ء میں ہوئی۔ ان کے والد حافظ سید عاشق علی نظامی تھے۔ خواجہ صاحب بارہ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے۔ آپ کے والد درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے پیرزادے تھے لیکن عام پیر زادوں سے بہت مختلف۔ درگاہ کی نذر ونیاز سے انہوں نے کبھی تعلق نہ رکھا۔ قرآن مجید کی جلدیں باندھتے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے۔ خواجہ صاحب نے ابتدائی تعلیم بستی نظام الدین میں حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں مولانا اسماعیل کاندھلوی، مولانا یحيیٰ کاندھلوی جیسے علماء شامل تھے۔ انہوں نے مولانا رشید احمد گنگوہی کے مدرسہ رشیدیہ گنگوہ سے فراغت حاصل کی۔ خواجہ حسن نظامی کا بچپن بہت تکلیفوں میں گزرا۔ گزر اوقات کے لیے خواجہ صاحب نے پھیری لگا کر کتابیں اور دہلی کی عمارتوں کے فوٹوز بھی فروخت کیے۔ خواجہ حسن نظامی کا تعلق صوفی خاندان سے تھا۔ مگر پیرزادگی انہیں پسند نہ تھی اس لیے معاش کی دوسری راہ نکالی اور صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ خواجہ حسن نظامی نے ہر موضوع پر لکھا، شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر ان کی کوئی تحریر نہ ملے۔ انہوں نے آپ بیتی بھی لکھی، سفرنامے بھی لکھے، سفرنامہ حجاز مصر و شام، سفرنامہ ہندوستان، سفرنامہ پاکستان، قابل ذکر کتابیں ہیں۔’ گاندھی نامہ‘ اور ’یزید نامہ‘ بھی ان کی اہم کتابوں میں سے ہیں۔
اردو ادب کی تاریخ میں خواجہ حسن نظامی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے انشائیہ اور طنز ومزاح کو بامِ فلک تک پہنچا دیا۔ خواجہ حسن نظامی نے انشائیے بھی لکھے۔ جھینگر کا جنازہ، گلاب تمہارا کیکر ہمارا، مرغ کی اذان، مچھر، مکھی، الّو ان کے مشہور انشائیے ہیں۔ انہوں نے حلقہ نظام المشائخ قائم کیا جس کے تحت ’نظام المشائخ‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا۔ اپنے ایک دوست احسان الحق کے ہفتہ وار اخبار ’توحید‘ کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ پھر اپنا رسالہ ’منادی‘ بھی نکالا۔ مولانا مودودی نے ۱۹۶۸ء میں لاہور میں منعقد ہونے والے یوم خواجہ حسن نظامی کے لیے پیغام پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا:
’’خواجہ صاحب اردو زبان کے مسلم انشاء پردازوں میں سے تھے اور اپنے طرز میں بالکل منفرد۔ بیسار نویسی ان کی خاص صفت تھی اور بسا اوقات کئی کئی روز تک بلا ناغہ اور بے تکان درجنوں صفحات سپرد قلم کر دیتے تھے مگر تحریر کی روانی اور یکسانی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا تھا۔ ہماری نئی نسلوں میں اردو زبان کا اچھا ذوق پیدا کرنے کے لیے انہیں خواجہ صاحب مرحوم کی تحریروں سے آشنا کرانا بہت مفید ہے‘‘۔
خواجہ صاحب کی تصانیف کی تعداد چالیس ہے جبکہ ایک تحقیق کے مطابق یہ تعداد تین سو کے لگ بھگ ہے۔ خواجہ صاحب بہت زود گو انسان تھے۔ ایک مقام پر آپ نے خود کہا ہے کہ مہینے میں ایک کتاب تو ہو جاتی ہے۔ ان کی تصانیف میں سیپارہ دل، بیگمات کے آنسو، غدر دلی کے افسانے، مجموعہ مضامین حسن نظامی، طمانچہ بر رخسار یزید، سفر نامہ ہندوستان اور کرشن کتھا مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۹۱۰ء میں انہوں نے ہندوستان کی درگاہوں سے بازاری عورتوں کا ناچ گانا بند کروانے کے لیے تحریک شروع کی اور ایک ہی سال کی جدو جہد سے اس وبا کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس مقصد کے لیے وہ نظام دکن سے بھی ملے اور انہیں مجبور کر کے یہ قانون منظور کرایا کہ ریاست کی کسی درگاہ میں طوائفوں کا ناچ گانا نہیں ہو سکے گا۔
خواجہ صاحب نے ادبی وصحافتی میدانوں کے علاوہ مختلف دینی موضوعات پر ہر قسم کے مضامین لکھے لیکن انہیں جس چیز نے اس میدان میں اعلیٰ مقام عطا کیا وہ قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر ہے۔ خواجہ صاحب نے ایک ایسے دور میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی ہے جب ہندوستان میں ہندووں اور مسلمانوں میں باہمی کشمکش جاری تھی، شدھی تحریک عروج پر تھی چونکہ خواجہ حسن مبلغ تھے اسی لیے انہوں نے مناسب سمجھا کہ لوگ جزوی باتوں میں الجھنے کے بجائے اسلام کو خود اپنی زبان میں سمجھیں اس لیے انہوں نے قرآن مجید کا عام فہم اردو اور ہندی زبانوں میں ترجمہ کیا۔ قرآن مجید کے ترجمہ خواجہ حسن نے کیوں کیا اس کا سبب خود ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
’’میں حسن نظامی، مٹھی بھر خاک سے، علم وعمل سے تہی دست، عقل دین سے ہاتھ خالی، میری کیا مجال تھی جو قرآن شریف کے ترجمہ یا تفسیر کا اردادہ کرتا، لیکن مسلمانوں کی موجود حالت اور عام جہالت اور اسلام سے ناواقفیت دیکھتے دیکھتے کلیجہ پک گیا۔ آریہ سماج نے مسلمانوں کو بے دین اور مرتد بنانے کا بیڑا اٹھایا تو مسلمانوں کی یہی جہالت ان کی مددگار ہوئی۔۔۔ یہ حالت دیکھ کر میرا منہ کلیجہ کو آنے لگا۔ مجھ کو ہندوستان میں جینا تلخ ہو گیا اور یہ خیال بار بار دل میں چٹکیاں لینے لگا کہ کل قیامت کے دن اگر رسول اللہ ﷺ اور وہ اولیاء اللہ جنہوں نے ہندوستان کے کروڑوں آدمیوں کو مسلمان کیا تھا مجھ سے سوال فرمائیں کہ ہزاروں مسلمان ہندوستان میں مرتد ہو گئے اور او بے غیرت تو چپ چاپ بیٹھا رہا۔۔۔۔ تو اس وقت میں کیا جواب دوں گا اور مجھے کیسی سخت شرمندگی ہوگی‘‘۔ یہی وجہ تھی جس کی وجہ سے خواجہ حسن نے ترجمہ وتفسیر لکھی۔ اس کے علاوہ وہ اس وقت کے مروجہ ترجمہ وتفسیر سے مطمئن نہیں تھے چونکہ ان کی زبان کافی بدل چکی تھی اور وہ تراجم عام فہم نہیں تھے۔ خواجہ صاحب لکھتے ہیں: ’’سب خرابیوں کو محسوس کرنے کے بعد ایک تفسیر لکھنے کا ارادہ کیا اور طے کر لیا کہ میری مخاطب عورتیں ہیں، بچے ہیں اور کم لیاقت کے مسلمان ہیں، مجھ کو ایسی تفسیر لکھنی چاہیے جو آج کل کی صاف اور سلیس زبان میں تو ہو مگر زباندانی کے محاورے لکھنے کی تلاش میں قرآن شریف کے مفہوم کی ادائیگی فوت نہ ہوجائے‘‘۔
خواجہ صاحب کے ترجمہ وتفسیر کا انداز بھی اس وقت کے ترجمہ وتفسیر سے ہٹ کر ہے۔ اس وقت تک ترجمہ اور تشریح کا رواج اس طرح تھا کہ بین السطور میں اردو ترجمہ دیا جاتا اور حاشیوں پر تفسیر وتشریح ہوتی تھی اس کے برخلاف خواجہ صاحب نے ترجمہ وتفسیر میں ایک نیا طرز وانداز اپناتے ہوئے پہلے قرآن کی ایک آیت لکھتے ہیں اس کے نیچے شاہ رفیع الدین کا ترجمہ دیا ہے پھر اس کے بعد اپنا ترجمہ لکھا ہے اور ترجمہ کی عبارت کے ساتھ ہی ساتھ جہاں ضرورت سمجھتے ہیں تفسیر نکات کو قوسین میں لکھتے چلے جاتے ہیں۔ احتیاط کے پیش نظر خواجہ حسن نظامی نے ہر پارہ کی تفسیر کو مولانا کفایت اللہ صاحب صدر جمعیۃ العلماء اور ناظم جمعیت مولانا احمد سعید صاحب وغیرہ سے سنا اور دوسری تفاسیر سے اس کا تقابل کیا، کئی کئی گھنٹے اس پر بحث ومباحثہ ہوا اور اس کے بعد اسے شائع کروایا۔ خواجہ صاحب نے پہلے پارہ کے ترجمہ کے اختتام پر آٹھ صفحات پر مشتمل اعمال وخواص کا ایک ضمیمہ دیا ہے۔ ان کا ارادہ ہر پارے کے آخیر میں اس طرح کے اعمال وخواص دینا تھا لیکن پھر اس خطرہ کے احساس سے کہ سہولت پسند لوگ کسب اور محنت چھوڑ کر انہی اعمال کی برکتوں کے پیچھے پڑ جائیں گے اس لیے انہوں نے اپنے ارادے کو ترک کر دیا۔
مفسر موصوف نے اس ترجمہ وتفسیر کو چھ سال میں مکمل کیا۔ ان کے مرید ملا محمد واحدی نے پہلی بار ۱۹۲۴ء میں جب اسے شائع کیا تو اس کا نام ’عام فہم تفسیر‘ لکھا تھا لیکن جب اس کا دوسرا ایڈیشن دفتر منادی سے شائع کیا گیا تو لفظ ’ترجمہ‘ کا اضا فہ کرکے اسے ’عام فہم ترجمہ وتفسیر‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس کے علاوہ خواجہ صاحب نے ۱۹۲۹ء سات سال کی مدت میں ہندی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا اور تفسیر بھی لکھی۔ ۹۰۰ صفحات پر مشتمل یہ ترجمہ وتفسیر دو جلدوں میں حلقہ مشائخ دہلی نے شائع کیا۔ مزید برآں یہ کہ خواجہ صاحب نے ہندی زبان میں ایک مفصل تفسیر لکھنا شروع کیا تھا لیکن سورۃ بقرہ کی تفسیر مکمل ہونے پر ضخامت اور مصارف کے پیش نظر اپنے ارادے کو ترک کر دیا اس طرح یہ تفسیر بھی ہنوز غیر مطبوعہ ہے۔
ان دو ترجموں کے علاوہ مترجم موصوف نے اردو میں ایک اور ترجمہ بھی لکھا جسے وہ ’لفظی بامحاورہ نیا ترجمہ‘ کہتے تھے جو ’ترتیلی اردو ترجمہ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ دو جلدوں اور بارہ سو(۱۲۰۰) صفحات پر مشتمل یہ ترجمہ پہلی بار ۱۹۴۰ء میں درگاہ نظام الدین اولیاء سے شائع ہوا تھا۔ اس ترجمہ میں مترجم نے ایک نئی جدت اختیار کی ہے وہ یہ کہ متن قرآن کے چند الفاظ اور ان کے ترجمے کو علیحدہ خانوں میں لکھا ہے تاکہ ہر ہر لفظ کا ترجمہ ٹھیک اسی لفظ کے نیچے بہ آسانی معلوم کیا جا سکے۔ اس ترجمہ میں خواجہ صاحب نے اردو کے الفاظ پر اعراب لگائے ہیں تاکہ جو لوگ اردو نہیں جانتے ہیں وہ بھی بآسانی ترجمہ کو صحت تلفظ کے ساتھ پڑھ سکیں۔
خواجہ حسن نے قرآن مجید کے جو تراجم کیے ہیں ان میں کسی نہ کسی قسم کی جدت ضرور نظر آتی ہے۔ رواجی حاشیوں کی بجائے موصوف نے تفسیری تشریحات کو ترجمہ کے ساتھ ساتھ قوسین میں دینے کو رواج دیا تاکہ پڑھنے والا اکتاہٹ محسوس نہ کرے۔ چونکہ مترجم موصوف کا مقصد قرآن کے پیغام کو کم تعلیم یافتہ لوگوں تک پہنچانا تھا اس لیے مترجم نے اس میں نہ تو ایک آیت کی تشریح میں دوسری آیت پیش کی ہے اور نہ ہی احادیث، فقہ و مسائل کے مباحث، صرف ونحو وغیرہ کے اصولوں سے بحث کو اس میں شامل کیا ہے۔ خواجہ صاحب کے ان تراجم کو ہوئے لگ بھگ ایک صدی ہونے کو ہے لیکن قرآن فہمی اور زبان دانی کے لحاظ سے آج بھی یہ تراجم معاون ومددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
حوالے:
۱۔کتاب نما ،خصوصی شمارہ، خواجہ حسن نظامی( شخصیت اور ادبی خدمات)، مکتبہ جامعہ لمیٹڈدہلی،ص۔۱۲۹
۲۔ خواجہ حسن نظامی، عام فہم تفسیر ،درویش پریس ،دہلی،ص۔۵
۳۔ ایضاً
***
خواجہ صاحب نے ایک ایسے دور میں قرآن مجید کی تفسیر لکھی ہے جب ہندوستان میں ہندووں اور مسلمانوں میں باہمی کشمکش جاری تھی، شدھی تحریک عروج پر تھی چونکہ خواجہ حسن مبلغ تھے اسی لیے انہوں نے مناسب سمجھا کہ لوگ جزوی باتوں میں الجھنے کے بجائے اسلام کو خود اپنی زبان میں سمجھیں
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021