عطیہ صدیقہ
ماہ صیام کی حقیقی روح کو پانے کے لیے ترجیحات کا تعین اور اوقات کی تنظیم ضروری
چیف ایڈیٹر ھادیہ ای ، میگزین
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى
الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ (البقرہ:۱۸۳)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیرؤوں پر فرض کیے گئے تھے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔
روزے ہر امت میں فرض رہے ہیں۔ روزوں کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے الله تعالیٰ تقویٰ کی صفت ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے۔
رمضان مومن کے لیے صالح انقلاب کا نقیب ہے۔تربیت و تزکیہ کا مہینہ ہے، خود احتسابی اور تبدیلی کا مہینہ ہے یہ انسان کی شخصیت میں ایک ایسا انقلاب لے کر آتا ہے جو شاید بغیر رمضان کے ہمارے لیے ممکن نہ ہو۔
تقویٰ یہ کہ اللہ تعالیٰ کاخوف، اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی جواب دہی کے احساس اور شعور کے ساتھ اپنی زندگی کو گناہوں سے بچاتے ہوئے گزارنا۔
ان روزوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان کے اندر ضبط نفس اور کنٹرول پیدا ہو۔ انسان کے اندر بہت سی خواہشات ہیں جذبات ہیں اگر یہ خواہشات زیادہ ہو جائیں تو وہ بھی پسندیدہ نہیں ہے۔ وہ راہ کونسی ہو جہاں انسان کو پتہ چلے کہ ہمیں یہاں رک جانا ہے۔ نبی ﷺ کی بہت ساری احادیث میں ہمیں رہنمائی ملتی ہے۔
انسان کو جب بھوک لگتی ہے تو وہ کھانا کھاتا ہے۔ انسان نیند آتی ہے تو سوتا ہے۔ اچھی چیزیں دیکھ کر وہ خوشی محسوس کرتا ہے۔ اگر اسے بھوک نہ لگے تو یہ کوئی اچھی نشانی نہیں ہے اگر وہ بھوک سے بہت زیادہ کھا لیتا ہے تو یہ بھی کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔
احادیث میں آتا ہے جب بہت زیادہ بھوک لگے تب کھانا کھاؤ اور تھوڑی بھوک باقی رکھ کر ہاتھ روک لو۔ اسی طرح اگر انسان بہت زیادہ سوتا ہے تو یہ کاہل اور سست کہلائے گا۔ اگر اسے نیند نہ آئے تو یہ بھی ایک بیماری کی علامت ہے۔ یعنی وہ کس طرح سے اپنے آپ پر کنٹرول کرے اور اپنی نیند کو بھی پورا کرے جسمانی ضرورت کو بھی پورا کرے اور اسی کے ساتھ ساتھ سست اور کاہل نہ بنے۔ تو یہاں جو ضبطِ نفس اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے اس کے لیے روزوں کے ذریعے ہمیں پورا مہینہ ٹریننگ سے گزارا جاتا ہے کہ اس ماہ میں حلال چیزوں کو کچھ وقت کے لئے ممنوع کر دیا جاتا ہے۔ چند باتوں کی پابندی کرنی ہوتی ہے۔ صبحِ صادق سے لے کر غروب آفتاب تک۔ اس طرح آہستہ آہستہ ہمارے اندر ایک کنٹرول پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں بھوک بھی لگتی ہے اور پیاس بھی لگتی ہے۔ تب ہم رک جاتے ہیں اس لیے کہ ہم روزے سے ہیں اور یہ سب کام نہیں کر سکتے۔
جو ضبط نفس ایک ماہ میں ہمارے اندرون میں پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ بعد کے 11ماہ بھی ہم اس پر کاربند رہیں۔ ایسا ہی ضبط نفس ہمارے اندر آئے۔ غصہ آجائے تو خود پر قابو رکھا جائے اور آپے میں رہا جائے۔
روزہ خواہشاتِ نفس پر قابو پانے میں ہمارا مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس اور اللہ تعالیٰ کے حاضر و ناظر ہونے کا احساس ہمارے اندر پیدا کرتا ہے۔
ہم روزے سے ہیں اور شدید گرمی پڑ رہی ہے اور ہم کچھ پیاس محسوس کرنے کے باوجود ضبط کرتے ہیں۔ وضو کرتے وقت اتنی احتیاط برتتے ہیں کہ ایک قطرہ بھی حلق سے نیچے نہیں جاتا وہ کونسا احساس ہے جو ہمیں روکے ہوئے ہے۔ ہمیں اس بات کا خیال ہوتا ہے کہ کسی بھی وجہ سے روزہ فاسد نہ ہوجا ئے۔ تنہائی میں بھی یہی احساس غالب ہوتا ہے۔
غلطیوں سے بچنے کا یہ احساس و شعور بعد کے 11 مہینوں میں بھی ہمارے اندر باقی رہے۔ یہ اس ٹریننگ کا مقصد ہے۔ ہم اپنی زندگی کے ہر معاملے میں اس احساس کو خود پر طاری رکھیں کہ الله دیکھ رہا ہے لوگوں سے معاملات درست رہیں بندگانِ خدا کے حقوق بحسن و خوبی ادا کیے جائیں۔
اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ روزے کے ذریعہ سے انسان کے اندر یہ صفات پیدا ہوں تبھی جا کر وہ روزہ ہے اسی لیے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔
یہ ایک مخفی (چھپی ہوئی) عبادت ہے۔ روزے کی ظاہری شکل نہیں ہوتی ہے۔ روزے کا مقصد تقویٰ پیدا کرنا ہے لیکن مسلمانوں کے درمیان تمام عبادات کی ظاہری شکل باقی رہ گئی ہے۔ اسی طرح سے روزہ کی بھی ظاہری شکل ہمارے پاس رہ گئی ہے۔
رمضان کے مقاصد سے ہم نے صرف نظر کیا اور ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمیں کرنا کیا ہے۔ رمضان کا مہینہ آتا ہے اس میں ٹریننگ حاصل کر کے ہم کیسے اپنے آپ کو اس بات کے لیے تیار کریں کہ آئندہ 11 مہینوں ہم اسی طرح سے گزاریں پھر جیسے جیسے ہمارے اندر یہ صفات کم ہوں گی پھر سے رمضان کا مہینہ آجائے گا یہ ٹریننگ ہوگی اور پھر بقیہ زندگی کو اسی طرح گزارنے کی کوشش کریں گے۔ روزے کے یہ مقاصد آج ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ ذہنوں میں یہ اعلیٰ مقاصد باقی نہیں رہے ہمارے مقاصد بدل گئے ہیں۔
خواتین کیا کریں
رمضان میں خاص طور پر خواتین کا کام بڑھ جاتا ہے۔ عام دنوں کے مقابلے میں پکوان زیادہ بنتے ہیں اور ہر ایک کے مطالبات بھی ہوتے ہیں کہ آج یہ بننا چاہیے وہ پکنا چاہیے۔ اس میں خواتین کا بہت زیادہ وقت کچن میں گزر جاتا ہے۔ ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم خود بھی اس پر عمل کریں اور گھر والوں کو بھی اس طرف متوجہ کریں کہ رمضان کا مہینہ اس لیے نہیں آیا ہے کہ ہم صرف اچھے سے اچھی افطاریاں تیار کریں اعلیٰ کھانے کھائیں۔ ان دنوں میں تو ہم ہلکی پھلکی اچھی اور کم سے کم خوراک لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ معدہ پر غیر معمولی بوجھ ڈالا جائے اور عبادت کے وقت طبعیت بوجھل ہو اور نمازوں میں خشوع و خضوع باقی نہ رہے۔ اس بات کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہیے اور گھر والوں کو بھی اچھے انداز میں متوجہ کروانا چاہیے کہ رمضان کا مہینہ صرف کھانے پینے اور لذتِ کام و دہن کے لیے نہیں آیا ہے۔ اس کے جو اصل مقاصد ہیں ان کو نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
اس سلسلے میں خواتین وقت سے پہلے کچھ چیزوں کی تیاری کرلیں تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزاریں اور گھر کے کاموں اور پکوان میں ہمارا کم سے کم وقت لگے۔
گھر کے کاموں کا سارا بوجھ خواتین پر نہ ڈالا جائے۔ گھر والوں کے درمیان بھی کچھ کام تقسیم ہونے چاہیے۔ بچوں کو بھی کام سونپا جائے۔ مرد حضرات میں بھی کچھ کام تقسیم کریں اس طرح سے ہم سبھی اوقات کو منظم کرتے ہوئے کاموں کو انجام دے سکتے ہیں۔پھر اس کے ساتھ ساتھ خواتین کی ایک اور مصروفیت بڑھ جاتی ہے وہ ہے خریداری کی مصروفیت، کپڑوں کی شاپنگ، ڈرائنگ روم کی سیٹنگ اور پھر شیر خورمہ کے نئے سیٹ کی خریداری وغیرہ۔ یہ سارے کام ہماری پلاننگ میں ہوتے ہیں۔ گھر کی چیزوں کی یہ ساری خریداری کس طرح سے کرنا ہے یہ فکر لگی ہوتی ہے۔ تو ہم یہ سوچیں کہ اگر ہم اپنا زیادہ سے زیادہ وقت بازاروں میں گزار دیں تو یہ مبارک مہینہ جس کے لیے آیا تھا وہ مقصد ہمارے ذہن سے اوجھل ہو گیا اور ہم نے خریداری کو مقصد بنا لیا۔ خواتین دیکھیں کہ کس طرح بازاروں میں ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے۔
ہمیں اس بات کی کوشش کرنی ہوگی کہ جو بھی بنانا ہے رمضان سے پہلے اس کی تیاری کرلیں۔ دیکھ لیں کہ اس کو صاف صفائی کے ساتھ آراستہ کرتے ہوئے اس کو پھر سے استعمال کر سکتے ہیں یا جو بھی لینا ہو اس کو وقت سے پہلے لے کر تیار کر لیں۔ اس کے لیے بازاروں میں جا کر اپنے وقت کو صرف کرنے کی اور برباد کرنے کی کوشش نہ کریں اس طرف ہمیں توجہ دینی ہوگی۔
اسی طرح گھروں کی صفائی ستھرائی کے لیے بھی خواتین بہت زیادہ فکر مند ہوتی ہیں۔ اس کام کو بھی رمضان سے قبل مکمل کرلیں غرض ہر کام کو صحیح وقت پر سلیقے سے انجام دیں گے تب ہی ہم رمضان المبارک کے نیکیوں کے بہار کے موسم کا پورا پورا فائدہ اٹھا سکتے ہیں
جیسے جیسے عید قریب آرہی ہوتی ہے اور رمضان کا آخری عشرہ آتا ہے جس میں شب قدر ہے اور اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنا ہوتا ہے لیکن ہماری خواتین کی ان دنوں مصروفیات اور بڑھ جاتی ہیں جیسے مہندی ڈیزائن، شیر خورمہ کی تیاری گھر کی سجاوٹ وغیرہ، خاص طور پر لیلتہ الجائزہ اس رات اللہ تعالیٰ اپنے مزدوروں کو مزدوری دینے والا ہوتا ہے اس رات میں اللہ تعالیٰ مہینہ بھر ہم نے جو روزے رکھے ہیں تلاوت کی ہے قیام اللیل کیا ہے اس کا اجر دیتا ہے۔ جو کوتاہیاں ہم سے ماہِ رمضان میں ہوئی ہوں اس کی معافی مانگنی ہوتی ہے۔ اللہ کے سامنے گڑگڑانا ہوتا ہے ان سب اہم اعمال کو چھوڑ کر اکثر غیر ضروری چیزوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ مقصد کیا تھا اور ہم کیا کر رہے ہیں۔
رمضان المبارک میں قرآن مجید کے ساتھ مسلمانوں کا تعلق بہت گہرا ہو جاتا ہے۔ اکثر خواتین قرآن مجید کو بغیر سمجھے پڑھنے کو کافی سمجھتی ہیں اور کئی مرتبہ قرآن ختم کرتی ہیں. جب کہ قرآن کتابِ ہدایت ہے اس کی کوئی ایک سورہ لے کر اس میں تدبر کریں، تفکر کریں تلاوت کے معنی ہیں سوچ سمجھ کر پڑھنے کے۔ ہم نے کتنا تفکر تدبر حاصل کیا اس کا احتساب کرنا ہے نہ کہ ختم قرآن کا مقابلہ۔ جب ہمیں پتہ ہی نہیں قرآن میں کیا احکامات ہیں ہمیں زندگی کیسے گزارنی ہے۔ جب تک ہمیں نہیں معلوم ہو گا ہم عمل کیسے کریں گے؟ قرآن تو آیا ہے ہماری رہنمائی کے لیے اور کتاب ہدایت بن کر تو ہم اد پر غور کریں۔قرآن کو جو خاص نسبت ہے اس مہینے سے شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ یہ ساری باتیں ہمیں قرآن مجید میں ملتی ہیں کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا یہ وہ کسوٹی ہے وہ فرقان ہے جو حق اور باطل کا فرق کھول کر رکھنے والی ہے۔
ہمیں معلوم ہی نہیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے اور قرآن زندگی گزارنے کا کیا طریقہ ہمیں بتاتا ہے ۔در اصل ہم عبادات کے مقصد کو بھلا بیٹھے ہیں ایسے کئی اور رمضان آئیں گے لیکن نہ ہمارے کردار میں تبدیلی آئے گی اور نہ عمل میں آئے گی جو کہ اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے روزے ۹م پر فرض کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو صرف ہماری بھوک اور پیاس مطلوب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ہمارے اندر تبدیلی پیدا ہو۔
اگر روزہ رکھ کر بھی تبدیلی نہیں آرہی ہے تو یہ حدیث بھی اس کے متعلق ملتی ہے ۔نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کئی روزے دار ایسے ہوتے ہیں جنہیں ان کے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
جب کہ روزہ تو اتنی بڑی عبادت ہے اللہ تعالیٰ نے خود اس کا اجر اپنے ہاتھ سے دینے کا وعدہ کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو روزے کے اصل مقصد کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ہمارے اندر مطلوبہ تبدیلی آئے اور رمضان المبارک کی برکتیں رحمتیں سمیٹنے والا بنائے۔
آمین
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا یکم مئی 2021