فرزانہ ناہيد، حيدرآباد
اعتکاف کا مطلب يہ ہے کہ آدمي ہر مشغوليت ومصروفيت سے توجہ ہٹا کر صرف اور صرف اپنے رب ذو الجلال کے ليے يک سو ہو جائے، باہر کي دنيا سے اپنے تعلق کو منقطع کر کے پروردگار سے تعلق جوڑلے، اس کي چوکھٹ پر آکر اس طرح پڑ جائے کہ صرف اسي کا ہو رہے۔ ہر وقت اس کي ياد اس کي حمد اور اس کي عبادت ہي اس کا محبوب ترين مشغلہ ہو۔ عام طور پر زيادہ تر مرد حضرات ہي اعتکاف کرتے ہيں ليکن احاديث سے معلوم ہوتا ہے کہ شريعت نے اس خاص عبادت کو صرف مردوں کے ليے مخصوص نہيں رکھا ہے۔ ام المومنين حضرت عائشہؓ کا بيان ہے کہ نبي صلي اللہ عليہ و سلم رمضان کے آخري عشرے ميں اعتکاف کيا کرتے تھے، يہاں تک کہ اللہ نے آپ کو اٹھاليا، پھر آپ کے بعد آپ کي بيوياں اعتکاف کرتي رہيں۔ (بخاري)۔
اس حديث سے دو باتيں معلوم ہوتي ہيں ايک يہ کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم جب تک با حيات رہے نہايت پابندي سے اعتکاف کرتے رہے۔ اعتکاف کو روزوں سے خصوصي مناسبت ہے۔ روزہ ہي وہ عمل ہے جس کے بارے ميں اللہ نے فرمايا ہے کہ ’’روزہ خالص ميرے ليے ہے اور ميں ہي اس کا اجر دوں گا‘‘۔ نبي صلي اللہ عليہ وسلم رمضان کے آخري عشرے ميں اعتکاف فرمايا کرتے تھے اور تا زيست اس کي پابندي کرتے رہے، بلکہ حديث ميں يہ صراحت بھي ہے کہ ايک سال آپﷺ اعتکاف نہ کر سکے تو دوسرے سال آپ نے دو عشروں کا اعتکاف کيا۔
دوسري اہم بات يہ ہے کہ آپ کے بعد ازواج مطہرات بھي برابر اعتکاف کرتي رہيں۔ عورتوں کا اعتکاف مسجد ميں نہيں بلکہ گھر ميں ہوتا ہے، گھر کے اندر نماز کے ليے انہوں نے جو جگہ مخصوص کر رکھي ہو اسي گھر والي مسجد ميں وہ اعتکاف کريں، جس طرح رسول اللہﷺ کي پاک بيوياں پابندي اور اہتمام کے ساتھ اعتکاف کرتي رہيں۔ اکثر خانہ داري کي ذمہ داريوں کي وجہ سے خواتين کا ذہن اعتکاف کي طرف نہيں جاتا ليکن جن خواتين کے ليے اپني ذمہ داريوں سے دس دن کے ليے فراغت حاصل کرنا اور شوہروں سے اجازت ملنا ممکن ہو، انہيں ضرور اس عبادت کي طرف متوجہ ہونا چاہيے۔رمضان کے مبارک شب وروز ميں ذوقِ عبادت بڑھا ہوا ہوتا ہے ايسے ميں اگر اعتکاف کا اہتمام ہو جائے تو خِلوت کي گھڑيوں ميں رب کريم سے قربت وتعلق کو گہرا کرنے کا سنہري موقع ہاتھ لگ جائے گا اور کوئي وجہ نہيں کہ باقي کے گيارہ ماہ آپ کي زندگي پر اس کے اثرات مرتب نہ ہوں۔
اگر کسي وجہ سے آپ کو اس مبارک سنت پر عمل کا موقع نہ ملے تو آئندہ رمضان ميں اس عبادت ميں مشغول ہونے کي نيت ضرور کريں اور دعا کرتے رہيں ان شاء اللہ اعتکاف کي سعادت ضرور آپ کے حصے ميں آئے گي۔ آپ نے غور کيا ہوگا کہ موسم کي سختي کے باوجود رمضان شريف کے با برکت لمحات کس تيزي سے ہم سے رخصت ہو رہے ہيں۔ يہ گويا پرسوں کي ہي بات لگتي ہے کہ ہم سوچ رہي تھيں کہ رمضان آنے والا ہے، رمضان کي تياري کرني ہے۔۔ ليکن رمضان آيا بھي اور اب دو دہے گزرنے کو ہيں۔ نہيں معلوم يہ رمضان ہميں کيا دے کر جا رہا ہے۔ اگر نيکيوں اور رحمتوں کے اس فصل بہار ميں ہمارے دامن رحمت خداوندي سے سُونے رہ جائيں تو سوچيے کہ ہمارے ليے اس سے بڑي بد نصيبي کيا ہوگي۔ اس ماہِ احتساب ميں تنہائي کے لمحات ميں اپنے دل کي خبر ضرور ليجيے کہ اس ميں کيا کيا چل رہا ہے۔ کيا آپ کا مزاج اس شريعت کے تابع ہو چکا ہے جس کو حضور نبي کريم ﷺلے کر آئے؟ آپ کي ايماني کيفيات کا کيا حال ہے۔ کيا مقصدِ زندگي کے تقاضوں اور ذمہ داريوں کے احساس سے آپ کي آنکھيں نمناک ہو جاتي ہيں؟ وطن عزيز کے تيزي سے بدلتے ہوئے حالات ميں کيا اب بھي آپ کي زندگي کي ترجيحات وہي ہيں جو پہلي تھيں؟ سوچيے، خوب سوچيے اور اپنے ليے اس رمضان ميں ان اعمال کي توفيق کے ليے دعا کيجيے جو رب کريم کي رضا کو لازم کرتے ہيں۔