پرواز رحمانی
جب کورونا کا شور بلند ہوا
جب کورونا وائرس کا شور بلند ہوا تو عالمی ماہرین نے اس سے محفوظ رہنے کے (مفروضہ) طریقوں میں سے ایک طریقہ سماجی دوری (سوشل ڈسٹینسنگ) کا بتایا۔ ہماری حکومت کو بھی سب سے آسان طریقہ یہی پسند آیا، چنانچہ اس پر اتنا زور دیا کہ گویا اس وبا سے نمٹنے کا واحد علاج یہی ہے۔ عوام الناس بُری طرح ڈر گئے پھر ۲۲؍ مارچ کو ایک دن کے لاک ڈاون (رضا کارانہ کرفیو) کا اعلان کیا گیا جس پر لوگوں نے پورا پورا عمل کیا۔ حکام کے حوصلے بڑھ گئے کہ عوام اس جھانسے میں آسانی سے آسکتے ہیں لہٰذا دو دن بعد حکومت نے اعلان کیا کہ یہ عمل مزید ۲۱؍دن جھیلنا ہوگا۔ پھر اس کے جاری رہتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ یہ لاک ڈاون ۳؍ مئی تک جاری رہے گا۔ عوام کو قدرے اطمینان ہونا چاہیے تھا کہ ۳؍ مئی کے بعد اِس خود ساختہ قید سے رہائی مل جائے گی لیکن اطمینان نہیں ہوا اس لیے کہ وائرس کی صورت حال میں چنداں تبدیلی واقع نہیں ہوئی بلکہ دن گزرنے کے ساتھ ساتھ متاثرین اور اموات میں اضافہ ہوتا رہا۔ جب صورت حال یہ ٹھہری تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ۳؍ مئی کے بعد عوام کو ذرا بھی راحت ملے گی؟ اگر اس لاک ڈاون اور دیگر تدابیر سے کچھ بھی فرق پڑا ہوتا تو امید کی جاسکتی تھی کہ وبا کا زور کم ہو رہا ہے اور آنے والے دن اچھے ہوں گے۔
تدابیر سے انکار نہیں
احتیاطی تدابیر سے انکار نہیں۔ حکومت نے جو کچھ کیا ضروری تھا۔ دوسرے ممالک بھی یہی کررہے ہیں۔ مگر ہمارے یہاں زیادہ زور سماجی دوری پر دیا گیا ٹیسٹنگ اور دواوں پر توجہ نہیں دی گئی۔ جو سماجی مسائل پیدا ہوگئے ہیں ان کا ذکر محض رسماً کیا گیا عملاً ان پر توجہ نہیں دی گئی۔ شہروں میں موجود دیہات اور قصبات کی آبادیوں کی منتقلی کا تو نام بھی نہیں لیا گیا۔ ان کی بے روزگاری اور اس سے پیدا ہونے والی بھوک پیاس، گاوں میں ان کے متعلقین کے مصائب کا نہ تو مرکزی حکومت کو احساس ہے نہ ریاستی حکومتوں کو۔ کچھ ریاستی حکومتیں ہیں جو اپنے طور پر کچھ نہ کچھ کر رہی ہیں۔ حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ عوام نے اس کے احکامات پر عمل نہیں کیا جو اُس نے وائرس کی روک تھام کے لیے کیے ہیں۔ سب سے زیادہ عمل مسلم کمیونٹی نے کیا۔ ملک کی تاریخ میں یہ شاید پہلا موقع ہے کہ مسلمانوں نے مساجد میں نماز با جماعت کا اہتمام روک دیا۔ نماز جمعہ پر اصرار نہیں کیا جو غیر معمولی ایثار ہے۔ مسلم آبادیوں میں لاک ڈاون کے ضوابط پر پورا پورا عمل کیا۔غرباء ومساکین اور ضرورت مندوں کا بلا لحاظ مذہب وملت خیال رکھ کر مسلمانوں نے اپنے دینی فریضے کو ادا کیا لیکن اِس کے عوض میں نقلی دیش بھکتوں نے انہیں کیا دیا، تبلیغی جماعت پر وائرس پھیلانے کا الزام؟
سخت وقت آنے والا ہے
چینی وائرس ہمارے ملک میں ایسے وقت آیا جب کہ ملکی معیشت شدید بحران کا شکار تھی۔ حکم راں پارٹی نے پرائیویٹ سیکٹر، میڈیا اور ٹیکنیکل ماہرین کی امداد سے عام انتخابات تو جیت لیے لیکن اب ان کے معاوضے کی ادائیگی کا مسئلہ تھا اور خزانہ بالکل خالی تھا اِس صورت میں حکومت پر وائرس کی دہری مار پڑگئی۔ حکومت کے شرارتی دماغوں نے وائرس کا جال مسلمانوں کی طرف پھینک کر آرام کی نیند سونا چاہا مگر بات پوری طرح نہیں بنی۔ اب حکومت وائرس سے نمٹنے کے لیے کچھ چھوٹے بڑے اقدامات کر رہی ہے۔ کسانوں اور مزدوروں کا اسے خیال بھی آیا، شہروں میں پھنسے محنت کشوں کو ان کے مقامات پر بھیجنے کے انتظامات بھی کر رہی ہے۔ ان کی مالی امداد بھی کی جارہی ہے۔ بعض شرائط کے ساتھ دوکانیں کھولنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے لیکن یہ کام عملی سطح پر کہاں تک ہو رہا ہے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ آثار تو یہ بتا رہے ہیں کہ لاک ڈاون مکمل طور پر ختم ہوجانے کے بعد بھی معیشت کو معمول پر آنے میں بہت وقت لگے گا۔ حقیقی مسائل سے ذہن ہٹانے کے لیے حکومت اِدھر اُدھر کے غیر حقیقی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ عوام الناس کو بہت چوکنا رہنا ہوگا۔ اِن حالات میں اپوزیشن پارٹیوں کا رول بہت اہم ہو جاتا ہے۔
احتیاطی تدابیر سے انکار نہیں۔ حکومت نے جو کچھ کیا ضروری تھا۔ دوسرے ممالک بھی یہی کررہے ہیں۔ مگر ہمارے یہاں زیادہ زور سماجی دوری پر دیا گیا ٹیسٹنگ اور دواوں پر توجہ نہیں دی گئی۔ جو سماجی مسائل پیدا ہوگئے ہیں ان کا ذکر محض رسماً کیا گیا عملاً ان پر توجہ نہیں دی گئی۔ شہروں میں موجود دیہات اور قصبات کی آبادیوں کی منتقلی کا تو نام بھی نہیں لیا گیا۔ ان کی بے روزگاری اور اس سے پیدا ہونے والی بھوک پیاس، گاوں میں ان کے متعلقین کے مصائب کا نہ تو مرکزی حکومت کو احساس ہے نہ ریاستی حکومتوں کو۔