خبر و نظر
پرواز رحمانی
اتر پردیش انتخابات
اترپردیش میں اسمبلی انتخابات کی مہم میں ہنگامہ مچا ہوا تھا جب حکمراں پارٹی بی جے پی پوری قوت کے ساتھ میدان میں اتری تھی، اس لیے کہ اسے اپنا اقتدار بچانا تھا اور اپوزیشن سماج وادی پارٹی ریاستی حکومت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے تن من دھن سے لگی ہوئی تھی۔ ریاستی حکومت کو بچانے میں مرکزی پارٹی کی بھی خاص دلچسپی تھی اس لیے کہ اسے دو سال بعد یعنی 2024ء میں لوک سبھا کے انتخابات کا سامنا تھا۔ لہذا اس نے اپنی پوری قوت یو پی میں جھونک رکھی تھی۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سمیت پوری مرکزی کابینہ اور پارٹی کے بڑے بڑے لیڈر یو پی میں موجود رہے۔ آر ایس ایس نے پورے ملک سے ستر ہزار کارکن بنیادی کام کے لیے اتر پردیش بھیجے تھے۔ ادھر سماج وادی پارٹی سے صرف اکھلیش یادو واحد نمایاں لیڈر تھے جو پوری ریاست میں جلسے جلوس کر رہے تھے۔ سماج وادی پارٹی کے کارکنوں اور ووٹروں میں بے پناہ جوش وخروش تھا۔ اکھلیش کے بڑے بڑے جلسے ہو رہے تھے جن میں لاکھوں کی پرجوش تعداد ہوتی تھی۔ اکھلیش مہنگائی، بے روزگاری، عام جرائم، آوارہ مویشیوں سے پیدا ہونے والے مسائل اور کسانوں کے مسائل اٹھارہے تھے جن میں عوام کے لیے زبردست کشش تھی۔ بے پناہ جذبہ تھا۔
وہاں مسائل کچھ اور تھے
لیکن بی جے پی نے ان مسائل کا ذکر تک نہیں کیا بلکہ اس نے اپنے قدیم اور آزمودہ ایجنڈے کے مطابق فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ہر غلط کام کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ پاکستان، جناح، قبرستان جیسے الفاظ بار بار استعمال کیے۔ آر ایس ایس نے ہندو-مسلم مسئلہ بڑی کامیابی کے ساتھ اکثریتی فرقے کے دل ودماغ میں اندر تک بٹھا دیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سنگھ کا یہ حربہ کام کر گیا اور ووٹروں نے خاموشی کے ساتھ اسی دھن سے ووٹنگ کی۔ کوئی شبہ نہیں کہ بی جے پی کے لوگوں نے بڑی محنت کی۔ اپنا ایک ایک ووٹ بی جے پی کو ڈلوایا۔ یو پی سے باہر رہنے والوں کو بھی خرچ کر کے بلوایا جبکہ سماج وادی پارٹی کے لوگوں میں ایسی کوئی کوشش نہیں دیکھی گئی۔ وہاں جذباتیت اور نعرے بازی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ دماغوں کو متاثر کرنے کا کوئی کام نہ تھا۔ لیکن مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ان بنیادی کاموں کے علاوہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے پولنگ کے عمل کو ریموٹ کنٹرول سے متاثر کرنے کا کام بھی کیا جیسا کہ وہ ہر الیکشن میں کرتی ہے۔ علاوہ ازیں الیکشن کمیشن بھی پوری طرح مرکزی حکومت کے کنٹرول میں تھا اس لیے لوگ کمیشن کے کام پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر نے بھی، جس پر بی جے پی کا قبضہ ہے خوب کام کیا۔ تجوریوں کے منہ کھلے ہوئے تھے۔
انتخابات کا سبق
یو پی کے علاوہ چار اور ریاستوں میں بھی انتخابات تھے۔ اتر اکھنڈ، پنجاب، گوا اور منی پور۔ پنجاب کے سوا چار ریاستوں میں بھی بی جے پی کی حکومت تھی جنہیں بچانے میں وہ کامیاب رہی۔ پنجاب میں کانگریس برسر اقتدار تھی لیکن وہاں دلی کی عام آدمی پارٹی کا جادو چل گیا۔ ان انتخابات کو لوک سبھا کے انتخابات کا سیمی فائنل کہا جارہا تھا۔ لوک سبھا کے الیکشن دو سال بعد یعنی 2024ء میں ہونے والے ہیں۔ اس لیے بی جے پی کے لیے یہ انتخابات بالخصوص یو پی کا الیکشن زندگی اور موت کا سوال تھا۔ وہ ہر قیمت پر اور ہر حال میں یو پی الیکشن جیتنا چاہتی تھی اور اپنے آزمودہ حربوں سے جیت بھی گئی۔ اب اس کی تمام تر توجہ 2024ء پر ہے، لیکن اس کے ساتھ بی جے پی مرکز اور یو پی میں اپنی حکومتوں کو زیادہ مضبوط بنانے اور اپنی پالیسیوں پر زیادہ ڈھٹائی کے ساتھ عمل کرنے کی کوششش کرے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں اب کیا کرتی ہیں اور مسلم قائدین نے اس تجربے سے کیا سبق لیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر علما اور دانشوروں کی کوئی نمائندہ میٹنگ طلب کر کے اس صورتحال پر غور کیا جائے اور حکومت کے سامنے کچھ تجاویز اور مشورے رکھے جائیں۔ یہ کام بہت جلد ہونا چاہیے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 تا 26 مارچ 2022