خبر و نظر

پرواز رحمانی

لوک سبھا کا سیمی فائنل
اتر پردیش الیکشن تو ریاستی اسمبلی کے لیے ہو رہا ہے لیکن وہاں شور و غوغا بالکل لوک سبھا کی طرح ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کے لیڈروں نے ریاست پر دھاوا بول رکھا ہے۔ سب سے بڑی دعویدار بی جے پی ہے جو اپنا اقتدار بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سمیت اس کے تمام بڑے لیڈر یو پی کے دورے کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سماج وادی پارٹی اپنے حلیف راشٹریہ لوک دل کے ساتھ بی جے پی کا مقابلہ پوری قوت کے ساتھ کر رہی ہے۔ ویسے کانگریس اور بہوجن سماج پارٹی بھی میدان میں ہیں۔ بی جے پی نے اپنی پوری قوت اس لیے جھونک رکھی ہے کہ اسے اپنی شکست کا اندازہ خود اپنے ذرائع سے ہوچکا ہے۔ حالانکہ اس کا اپنا میڈیا سیل اور اپنے پیڈ ٹی وی چینل یہی پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ بی جے پی بھاری اکثریت سے جیت رہی ہے لیکن مخالف پارٹیوں کا حمایتی سوشل میڈیا اور غیر جانبدار مبصرین سماج وادی پارٹی کی کامیابی کی خبر دے رہے ہیں۔ اس لیے پارٹی نے وہ خاص حربہ بھی استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جسے وہ ایسے ہی مواقع پر استعمال کرتی ہے۔ یعنی ’’شور کسی کا بھی ہو جیتے گی بی جے پی ہی‘‘۔ حتی کہ ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا پر بھی پارٹی کے حمایتی مخالف ہوا کا اعتراف تو کرتے ہیں لیکن اپنا یہ مستقل جملہ بھی ضرور دہرا دیتے ہیں کہ کامیاب تو بھارتیہ جنتا پارٹی ہی ہوگی۔

ایک ہتھکنڈا یہ بھی ہے
ہاں الیکشن جیتنے کے لیے بی جے پی کے درجنوں ہتھکنڈوں میں سے ایک ہتھکنڈا یہ بھی ہے کہ جب کبھی اسے اپنی ہار کا پورا یقین ہو جاتا ہے تو اس کے لیڈر، کارکن اور بہی خواہ یہ جملہ استعمال کر کے ووٹروں کو بہکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک بات یہ بھی کہتے ہیں اور اس بار بھی کہہ رہے ہیں ’’مودی اور امیت شاہ انتخابی میدان میں ہیں، وہ کچھ نہ کچھ کر کے رہیں گے‘‘۔ پارٹی کے حامیوں کو بھی یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ بی جے پی کو ہرانا اتنا آسان نہیں۔ پولنگ سے پہلے وہ کوئی نہ کوئی کھیل ضرور کھیلے گی۔ ان کی اس بات پر بہت سے لوگوں کا ذہن جھگڑے فساد اور سرجیکل اسٹرائک کی طرف جاتا ہے۔ ویسے انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ نے ایک مذہبی فرقے کے خلاف دوسرے مذہبی فرقے کو مشتعل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے اور ان کی یہ بد زبانی بدستور جاری ہے۔ یو پی میں چناو کے سات مرحلے ہیں۔ دو مراحل گزر چکے ہیں اور اب کسی جھگڑے وفساد کا اندیشہ ہے، جیسا کہ سوشل میڈیا پر مبصرین بتارے ہیں۔ ہندو ووٹروں کی صف بند کرنے میں مودی، شاہ اور یوگی مستقل لگے ہوئے ہیں۔ ان کا ہر ایک بیان اور ہر ایک ریمارک فساد کی آگ بھڑکانے کے لیے کافی ہوتا ہے لیکن آفرین ہے ووٹروں کے تحمل پر کہ انہوں نے کہیں بھی غلط ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ بی جے پی کے اب صرف دو سہارے باقی بچے ہیں، زمینی تیاری اور فساد۔

یہ حقیقت بھی سامنے رہے
ان انتخابات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ آر ایس ایس اپنے قیام کے پورے 90 سال بعد برسر اقتدار آئی ہے، مرکزی اقتدار پر قبضہ تو اس نے کر لیا لیکن اس کا اصل ایجنڈا ابھی باقی ہے۔ وہ اپنی مرضی کا ہندو راشٹرا بنانا چاہتی ہے۔ یو پی کا یہ الیکشن جیتنا اس کے لیے اس لیے ضروری ہے کہ دو سال بعد 2024 میں لوک سبھا کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ اگر یو پی کا الیکشن بی جے پی ہار گئی تو لوک سبھا کے انتخابات پر اس کا اثر لازماً پڑے گا۔ انتخابات یو پی کے علاوہ پنجاب، اتراکھنڈ، گوا اور منی پور میں بھی ہو رہے ہیں۔ سب سے زیادہ نازک معاملہ یو پی کا ہے۔ بی جے پی نے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا رکھا ہے۔ خود پارٹی کے کارڈ ہولڈر لیڈرں کے مطابق مکمل ہندو راشٹر کے قیام کے لیے سنگھ کو اور پچاس سال مطلوب ہیں تاکہ ورن آشرم (کاسٹ سسٹم) کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے اور اس سے باہر کی آبادیوں کو ان کی اوقات میں رکھا جائے۔ بھارت عملاً ہندو راشٹر ہے لیکن یہ گاندھی جی پٹیل اور اندرا گاندھی کے تصور کا ہندو راشٹرا ہے جبکہ سنگھ اسے منوسمرتی کے تصور میں ڈھالنا چاہتی ہے۔ اگر بی جے پی اتر پردیش کا یہ الیکشن ہار گئی تو 2024 کا لوک سبھا الیکشن جیتنا اس کے لیے مشکل تر ہو جائے گا۔ اسی لیے وہ سارا زور یو پی میں صرف کر رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ای وی ایم یعنی ووٹنگ مشینوں میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی لیکن برسر اقتدار گروہ کے لیے سب کچھ ممکن ہو جاتا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  27 فروری تا 05مارچ  2022