خبر و نظر

پرواز رحمانی

 

طالبان کی آمد آمد
افغانستان سے امریکہ اور ناٹو کی فوجیں تقریباً جاچکی ہیں اور جس انداز سے گئی ہیں وہ امریکہ کی فوجی ناکامیوں کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ان فوجوں کے انخلا کے بعد ترک فوج نے کابل ہوائی اڈے کا نظم ونسق سنبھال لیا ہے۔ اس دوران ترک صدر رجب طیب اردگان نے طالبان سے یہ عجیب اپیل کی ہے کہ طالبان اپنے بھائیوں کی سرزمین (افغانستان) سے اپنا قبضہ ختم کردیں۔ بیس جولائی کو شمالی قبرص میں نماز عیدالاضحیٰ کے بعد عوام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں قیام امن کاعمل جاری ہے، طالبان اسے نقصان نہ پہنچائیں۔ ترک صدر کے اس بیان کو طالبان نے پسند نہیں کیا۔ وہ ترکی سے پہلے ہی خفا ہیں اس بات پر کہ اس نے افغانستان کے بحران میں امریکہ کا ساتھ دیا اب جب کہ افغانستان میں طالبان کی آمد آمد ہے، مسلم دنیا میں ہر سُو اس کا خیرمقدم ہورہا ہے، ترکی کو اپنے طرز عمل کی وضاحت کرنی ہوگی۔ افغانستان کو امریکہ چھوڑ تو رہا ہے لیکن وہاں خانہ جنگی کی آگ لگا کر جارہا ہے۔ غیر ملکی افواج اور نمائندوں کے انخلا کا عمل پورا ہوتے ہی افغانستان خانہ جنگی کا میدان بن جائے گا۔ یہ خانہ جنگی مختلف قبائل اور نسلی گروپوں کے مابین ہوگی۔
اس بار نظم وضبط بہتر ہے
افغانستان میں حریف قبائل کی باہم لڑائی بہت مشہور ہوئی مگر اہل اسلام کے لیے باعث تکلیف ہے تمام دشمنوں اور ماضی کے حکمرانوں نے اس صورت حال سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اب بھی امریکہ اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ لیکن امید ہے کہ اس بار امریکہ اور دوسری مخالف قوتیں اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گی۔ اس بار طالبان پوری تیاری کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ بیس سال پہلے کی جنگ میں انہیں کسی بات کا تجربہ نہیں تھا۔ سفارتکاری کے لفظ سے وہ ناواقف تھے۔ ان کے پاس اسلحہ ضرور تھا لیکن وہ منظم نہ تھے۔ اس بار طالبان سفارتی حکمت عملی کا بھی ثبوت دے رہے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ تمام قریبی ملکوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم کریں گے۔ ان کا رابطہ بھارت سے بھی ہے جسے یقین دلایا ہے کہ ’’ہم سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں، ہم اس کے جائز مفادات کی حفاظت کریں گے‘‘ (واضح رہے کہ انڈیا نے انفراسٹرکچر کی صورت میں افغانستان میں بہت بڑا جال پھیلایا ہوا ہے) طالبان کی ایک بڑی کامیابی چین کے ساتھ بہتر تعلقات کے قیام کی کوشش ہے۔ چین کو سب سے بڑا اندیشہ سنکیانگ کے سلسلے میں تھا کہ اگر طالبان افغانستان میں مضبوط ہوگئے تو سنکیانگ کے اسلامی عسکری گروپ مزید مضبوط اور بے باک ہوجائیں گے۔
طالبان سے بغض کی وجہ
چین کے ساتھ افغانستان کی آٹھ سو کلو میٹر سرحد ملتی ہے یہ پورا علاقہ سنکیانگ کا ہے۔ اسی لیے چینی حکومت کے اندیشے بے جا نہیں تھے لیکن طالبان نے واضح کردیا کہ چین ’’ہمارا بہترین دوست ہے ہم اس کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے نہ کسی کو کرنے دیں گے‘‘۔ افغانستان میں طالبان کی آمد آمد کی خبروں سے بعض مسلم حلقے بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ وہی حلقے ہیں جنہیں دین اسلام اور نظام اسلامی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے یا پھر وہ لوگ بعض مسلم سلطنتوں کے زیر اثر ہیں جو اسلام اور امت مسلمہ سے بغض وعناد رکھتے ہیں لیکن دنیا کا مسلم سواد اعظم اسلام کے حوالے سے طالبان سے بہرحال دلچسپی رکھتا ہے۔ باخبر مسلمان طالبان کی سابق حکومت اور اس کے کارناموں سے بھی واقف ہیں۔ طالبان نے پہلا بڑا کام یہ کیا تھا کہ وہ تمام کھیت تباہ کردیے جہاں منشیات (پوست) کی باقاعدہ کاشت ہوتی تھی جس سے دشمن ممالک اربوں ڈالر کماتے تھے۔ تمام غلط کاموں کےاڈے اور مراکز بند کردیے تھے۔ اب اگر انہیں موقع ملا تو یہ تمام کام بڑے پیمانہ پر اور سلیقے کے ساتھ ہوں گے انشا اللہ۔ ہمیں نیک اور غیور طالبان کی کامیابی کے لیے دعا کرنی چاہیے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم اگست تا 7 اگست 2021