خبر و نظر
پرواز رحمانی
عرب دنیا اسرائیل پر فدا
دو سال قبل جب عرب حکمرانوں کے دلوں میں صہیونی اسرائیل کی محبت جاگزیں ہوئی تو سبھی چھوٹی بڑی مسلم عرب مملکتوں نے اسرائیل سے قریب ہونے کے لیے اپنی اپنی حکمت عملی بنانی شروع کر دی۔ حکمت عملی تو خیر یہ مملکتیں کیا خاک بناتیں ان کا واحد مقصد صرف اپنے ذاتی اور خاندانی اقتدار کو مضبوط و مستحکم بنانا اور اسی ذیل میں صہیونیت کے شر سے خود کو محفوظ رکھنا تھا۔ تحریک میں زور سب سے بڑی اور مالدار شہنشاہیت کے آگے آنے سے پیدا ہوا۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کر لیا ہے اب کچھ اور مملکتیں بھی پر تول رہی ہیں۔ سب سے بڑی بادشاہت ابھی کسی اقدام سے شرما رہی ہے، کہا جا رہا ہے کہ اسے ابھی امت مسلمہ کے سواد اعظم کا پاس و لحاظ ہے۔ لیکن یہ تکلف بھی جلد ہی دور ہو جائے گا۔ سوڈان نے بھی صہیونیت کو گزشتہ سال ہی تسلیم کر لیا تھا مگر اس کے سامنے وہ فیصلہ تھا جو اس نے ۱۹۵۸ میں اسرائیل کے مکمل بائیکاٹ سے متعلق کیا تھا۔ اس نے گزشتہ سال اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عوض بھاری رقم کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن وہ معاملہ بہرحال کسی نہ کسی طرح حل ہو گیا۔ اب ۲۰ اپریل کو صدر سوڈان عبداللہ حمدوک نے بائیکاٹ کا قانون منسوخ کر دیا۔ اس طرح اب دونوں ملکوں کے درمیان گہرے سفارتی (اور قلبی) تعلقات کے قیام میں کوئی رکاوٹ نہیں رہی۔
اور زوال شروع ہوگیا
اقوام عرب میں سب سے بڑی برادری قریش کی تھی۔ پیغمبر اسلام نے اس قوم کو انتہائی پستی سے نکال کر انتہائی بلندی تک پہنچا دیا تھا جب وہ اقوام عالم کی امامت و قیادت کے منصب پر آگئی تھی لیکن واقعہ کربلا کے بعد (جو اسلام مخالف گہری سازش کا نتیجہ تھا) خلافت، ملوکیت میں تبدیل ہو گئی اور زوال شروع ہو گیا۔ بیسویں صدی میں اللہ نے اس قوم کو قدرتی وسائل کی دولت سے نوازا تھا مگر اس نے اس دولت کی قدر نہیں کی۔ جدید یونیورسٹیوں اور ادارے قائم کرنے کی بجائے اس دولت کو ذاتی اور خاندانی عیاشیوں پر صرف کیا۔ سادہ لوح امت مسلمہ کو اس فریب میں مبتلا کر دیا کہ ’’ہم حرمین شریفین کے خادم ہیں‘‘۔ ایک مخصوص مسلک پر عامل ان کے وفا داروں کے طرز عمل سے امت میں انتشار اور اختلاف کی صورت پیدا ہو گئی لیکن مال خوروں کو اس کی کوئی پروا نہیں۔ اب صہیونیت کے ساتھ علانیہ دوستی کے بعد اس لعنت کا رنگ مزید نکھرے گا۔ پھر امت کی بھی کوئی پروا نہیں رہے گی۔ احکام الٰہی کی پروا تو پہلے ہی سے نہیں ہے۔ سوڈان نے کہا ہے کہ ان تعلقات سے ہمارے قضیہ فلسطین سے متعلق موقف میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی جبکہ ادھر قلعہ خیبر کو صہیونیوں کے حوالے کرنے کی تیاریاں جاری ہیں۔
اب کیا ہوگا
رسول اللہ ﷺ کے دور میں جب بعض صحابہ اس امر پر خوشی کا اظہار کرتے کہ ’’ہم لوگ کس قدر خوش نصیب ہیں کہ ہمیں اللہ کے رسول کا ساتھ نصیب ہوا ہم نے حضور کو دیکھا اور آپ سے براہ راست تعلیم و تربیت پائی، یہ سن کر حضورؐ فرمایا کرتے کہ زیادہ خوش نصیب وہ ایمان والے ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے۔ بعد میں آنے والوں کی خوش نصیبی کا یہ سلسلہ ہنوز جا ری ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ سینکڑوں صدیوں بعد اور ہزاروں میل دور ہم حضورؐ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن آج کے دور کو دیکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاکھ دولت و قوت اور تعداد کے باوجود اللہ اور رسولؐ کی ہدایات پامال کرنے میں ہم یہود و نصاریٰ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ رسولؐ کے بجائے ان کی پیروی کر رہے ہیں۔ سرزمین عرب کی یہ پامالی اللہ نے ہم بدنصیب مسلم عوام کو ہی دکھانی تھی۔ اگر کہیں کچھ آثار امت کی حمیت و غیرت کے دکھائی دیتے ہیں تو وہ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، ترکی اور ایران میں ہیں ورنہ ساری مسلم دنیا صہیونیت کے دائرے میں گھر چکی ہے۔ عرب دنیا تو اپنے ایمان و عقیدے سے دستبردار ہو چکی ہے۔ بس اللہ سے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ ہمیں مزید تکلیف دہ دن اور ہوش ربا حالات دکھانے سے محفوظ رکھے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 2 مئی تا 8 مئی 2021