خبر و نظر
پرواز رحمانی
سکھ برادری کا یہ اقدام
سکھوں کی سب سے موقر، منظم اور جاندار تنظیم شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی نے چندی گڑھ میں اپنے اجلاس عام میں ایک غیر معمولی قرارداد منظور کی ہے۔ یہ قرارداد آر ایس اس کی مذمت میں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ آر ایس ایس اقلیتی فرقوں کے معاملات میں مداخلت کر کے انہیں خوف زدہ کر رہی ہے اور انہیں مختلف طریقوں سے دھمکا رہی ہے۔ یہ ملک میں ہندو راشٹرا قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے لیے سبھی مذہبی اور سماجی طبقوں کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ آر ایس ایس، بی جے پی اور ان کے زیر اثر افراد اقلیتوں کے خلاف متواتر اشتعال انگیز بھاشن دے رہے ہیں۔ گوردوارہ کمیٹی نے خبردار کیا ہے کہ ان بے لگام عناصر کو فی الفور روکا جائے ورنہ اس کا سخت منفی رد عمل ظاہر ہو گا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بڑی مذہبی اکائی نے فسطائی ہندو سنگھٹن کے خلاف جرات مندانہ اقدام کیا ہے۔ یہ قرارداد ایسے وقت منظور کی گئی ہے جب شمالی ہند میں نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی زور دار مہم جاری ہے۔ پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کے کسان اس میں خاص طور سے شامل ہیں۔ ان میں تینوں ریاستوں کے سکھ بڑی تعداد میں سرگرم ہیں اور حکومت انہیں بدنام اور کمزور کرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ایک پروپگنڈہ حکومت کا یہ تھا کہ کسان آندولن کے پیچھے خالصتانی عناصر کام کر رہے ہیں۔
ایجنڈا قدیم ہے
یہ بات کہ آر ایس ایس اقلیتوں کے معاملات میں مداخلت کر کے انہیں خوف زدہ کر رہی ہے بے بنیاد نہیں ہے۔ سنگھ کا یہ قدیم اور با ہدف ایجنڈا ہے۔ یہ کام وہ اس زمانے سے کر رہا ہے جب ملک میں کانگریس کی مضبوط حکومت ہوا کرتی تھی لیکن وہ سنگھ کی مخالف نہیں بلکہ معاون تھی اور اس سے اس طرح سیاسی فائدہ اٹھاتی تھی کہ مذہبی اقلیتوں کو سنگھ سے خوف زدہ کر کے ان کے ووٹ حاصل کیا کرتی تھی۔ سنگھ کو ہر طرح کی چھوٹ اور آزادی تھی۔ اس آزادی سے فائدہ اٹھا کر سنگھ نے ملک میں خوب فرقہ وارانہ انتشار پیدا کیا، فرقہ واریت پھیلائی اور اقلیتوں کو ہمیشہ خوف اور غیر یقینی کی حالت میں رکھنا چاہا اور آج تو ملک میں اس کی حکومت ہے لہٰذا وہ بہت بے شرمی اور دیدہ دلیری کے ساتھ اپنا ایجنڈا نافذ کر رہا ہے حالانکہ ہندو راشٹرا عملاً کانگریس کے دور ہی میں نافذ ہو چکا ہے۔ اس زمانے میں بھی جمہوریت کے نام پر وہ سب کچھ ہوتا رہا جو اکثریت چاہتی تھی۔ جمہوریت کہتے ہی اکثریت کی آمریت کو ہیں۔ البتہ کانگریس یہ کام پوشیدہ طریقے سے اور بالواسطہ کرتی تھی۔ جبکہ آج کی حکومت کو اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہے وہ یہ کام آزادانہ اور بلا واسطہ کررہی ہے اور اس کام کا سب سے آسان اور موثر طریقہ (آر ایس ایس کے نزدیک) یہ ہے کہ مذہبی اقلیتوں، پسماندہ طبقوں اور دلتوں کو دبایا جائے۔ ان طبقوں کی آزادی اور بے خوفی کے ساتھ یہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔
وہ اک بہادر قوم ہے
سکھ ایک بہادر قوم ہے۔1984کے فسادات کے کچھ ہی عرصے پہلے اپنے طرز عمل سے اس نے مخالفوں کو اس طرح سیدھا کر دیا تھا کہ سب خاموش ہو گئے تھے۔ ناموں کے رد عمل سے بچنے کے لیے مخالفوں کو ایک نیا (مسلم مخالف) محاذ کھولنا پڑا۔ اس کے بعد بہت کچھ ہوا۔ اب جو یہ کسان آندولن زور پکڑ رہا ہے تو یہ سکھوں کی سرگرم شرکت ہی کی دین ہے۔ اسی لیے حکومت خالصتان کا مسئلہ اٹھا رہی ہے لیکن امید ہے کہ دور اندیش سکھ برادری اس مسئلے کو زندہ نہیں ہونے دے گی اور صرف اپنے کام سے کام رکھے گی۔ البتہ حکومت کو اس وارننگ پر ضرور توجہ دینی چاہیے جو شرومنی گرودروارہ پربندھک کمیٹی نے اپنے اجلاس عام میں دی ہے کہ اشتعال انگیزی کرنے والے شر پسند عناصر کو لگام دینا چاہیے۔ معاملہ صرف سکھوں کا نہیں بلکہ دیگر مذہبی اقلیتوں اور پسماندہ سماج کا بھی ہے۔ اقلیتوں اور پسماندہ طبقوں کو ڈرانے کا کام سنگھ عرصہ دراز سے کر رہا ہے۔ اب اقتدار پر قبضے کے بعد اس کے حوصلے مزید بڑھ گئے ہیں۔ اس کے چھوٹے بڑے کارندے بے خوف ہو کر اشتعال انگیزی کر رہے ہیں، درست ہے کہ آج حکومت میں اعلیٰ سطح پر کوئی دور اندیش اور سمجھ دار نہیں ہے لیکن اس کے نچلے سطح کے سمجھ دار کارکنوں اور سیاسی حلیفوں کو اس طرف توجہ دینا ہو گا۔ ویسے 2023 کے عام انتخابات کے آثار حکمراں طبقے کے حق میں نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اگر وہ صرف کارپوریٹ طبقہ پر تکیہ کر رہے ہیں تو یہ
ان کی نادانی ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 11 اپریل تا 17 اپریل 2021