خبر و نظر

خیال جو غلط ثابت ہوا

پرواز رحمانی

 

جب فرانس کے صدر میکروں نے اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں کچھ نازیبا اور دل آزار کلمات کہے جس کے نتیجے میں فرانس میں تشدد کے کچھ واقعات رونما ہوئے اور دنیا کے غیرت مند مسلمانوں اور انصاف پسند افراد نے میکروں پر تنقید کی توخیال تھا کہ حکومت ہند جو ایک ورلڈ پاور بننے کی دعویدار ہے اور عالمی امور میں اپنا رول ادا کرنا چاہتی ہے میکروں کے غیر ذمہ دارانہ رویہ کا نوٹس لے گی اور انہیں بہی خواہانہ مشورہ دے گی کہ وہ کسی مذہب اور کمیونٹی کے بارے میں ایسی بے تکی باتیں نہ کریں کیوں کہ وہ ایک اہم ملک کے سربراہ ہیں۔ لیکن یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ ہماری حکومت نے الٹا ان لوگوں کو ہدف تنقید بنایا جو میکروں کی غیر ذمہ دارانہ باتوں پر معقول اظہار خیال کر رہے ہیں۔ 28؍اکتوبر کو وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرکے حکومت ہند کی جانب سے فرانس کے صدر کی پر زور حمایت کی اور کہا کہ ’’میکروں کا بیان اظہار خیال کی آزادی کی حمایت میں تھا لوگ ان پر نامعقول زبان میں بلاوجہ ذاتی حملے کر رہے ہیں۔ ہم ان حملوں پر سختی کے ساتھ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔‘یہ طرز عمل ہمارے لیے ناقابل قبول ہے (دی ہندو)۔بیان میں عرب دنیا اور بعض دوسرے مسلم ملکوں کے نام بھی لیے گئے ہیں۔
بیان دلچسپ ہے
وزارت خارجہ کا بیان دلچسپ ہے۔ اس نے میکروں کے صرف اُس بیان کا حوالہ دیا جو پیرس میں ایک اسکول ٹیچر کے قتل کے بعد نے دیا گیا تھا۔اُس بیان کا ذکر نہیں کیا جو انہوں نے چند روز قبل بلا وجہ اور بے موقع اسلام کے بارے میں جاری کیا تھا کہ دنیا میں اسلام کی حالت غیر ہے، یہ خطرات پیدا کر رہا ہے، مسلمان دنیا میں مسائل پیدا کررہے ہیں‘‘ اس بیان کی کوئی تُک نہ تھی۔بیٹھے بیٹھے میکروں کی ذہنی رو بہک گئی ہوگی۔لیکن ہماری وزارت خارجہ نے یہ بیان نوٹ ہی نہیں کیا ہوگا کیونکہ یہ بیان فضول اور بے مطلب تھا۔اس پر میکروں کی حمایت نہیں کی جاسکتی تھی۔ ہماری وزارت خارجہ کو اپنے ملک کے عالمی طاقت ہونے کا احساس میکروں کے دوسرے بیان کے بعد ہوا۔ ادھر خارجہ سکریٹری ہرش شرنگلا نے بھی اپنے دورہ جرمنی کے موقع پر یہ معاملہ اٹھایا۔ کچھ اور لوگوں نے بھی انگلش اور ہندی اخباروں میں میکروں کی حمایت کی ہے، لیکن ان لوگوں کے بیانات پر غور نہیں کیا جو میکروں کی باتوں کی مذمت کر رہے ہیں۔ علمائے اسلام کے علاوہ مسلم دانشور اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی میکروں کی مذمت کی ہے مثلاً، فلمی دنیا کے جاوید اختر اور نصیر الدین شاہ، معروف شاعر منور رانا وغیرہ۔منور رانا پر لکھنو میں ایف آئی آر بھی درج کرلی گئی ہے۔
ِیہ غیر متوقع نہیں ہے
ویسے وزارت خارجہ کا یہ بیان حیرت انگیز یا غیر متوقع نہیں ہے۔ حکومت ہند اور حکمراں پارٹی کے ذہن و فکر کے عین مطابق ہے۔ یہاں بھی سوشل میڈیا میں ویڈیوز کی باڑھ آئی ہوئی ہے۔ کچھ لوگ ہیں جو علانیہ اسلام اور مسلمانوں پر تنقید کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف تشدد کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ یہ سب سوشل میڈیا میں محفوظ ہیں۔گائے کے نام پر یہاں جو کچھ ہوتا رہا سب جانتے ہیں۔ وزارت عظمیٰ یا وزارت داخلہ نے کسی شر پسند کو کبھی نہیں ٹوکا۔ تین سال قبل وزیر اعظم نے شر پسندوں کے خلاف ایک دو بیان ضرور دیے تھے لیکن ان بیانوں کی حقیقت شر پسند جانتے تھے اس لیے وہ اپنے طرز عمل سے باز نہیں آئے۔ آج کے حالات میں حکومت کی یہ ضرورت بھی ہے۔ لیکن سیموئل میکروں کو اس کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ فرانس میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں جن کا زیادہ تر تعلق شمالی افریقہ سے ہے۔ ماضی میں شمالی افریقہ کے بڑے حصے پر فرانس کی فرماں روائی رہی ہے۔ ماضی میں فرانس کے صدور میں سے کسی نے اسلام کے خلاف ایسی واہیات باتیں نہیں کہیں۔ آج تو اسرائیل کا دور ہے جو عرب حکمرانوں کے دل اور دماغوں پر قابض ہے۔ ان کی جانب سے فرانس کی مذمت بھی مشکوک ہے۔ اب ترکی ایران اور ملائشیا جیسے چند مسلم ممالک ہی غریب امت مسلمہ کی دلجوئی کر سکتے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020