خبر و نظر: کوہِ صفا کے بعد
پرواز رحمانی
پیغمبرِ اسلام ﷺنے جب کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر اپنا تاریخی خطاب مکمل کر کے سکوت اختیار فرمایا اور وادی صفا میں مجتمع جم غفیر پر سکتہ طاری ہوگیا، لوگ ایک دوسرے کی طرف معنی خیز انداز میں دیکھنے لگے تب محسوس ہوتا تھا کہ ابھی لوگ تائید میں بول پڑیں گے۔ سردارانِ قریش بھی، جو اُس وقت وہاں حاضر تھے اس ’’خطرے‘‘ کو تاڑ رہے تھے۔ قبل اس کے کہ مجمع میں سے کوئی کچھ بولتا ابو لہب جو آپ ﷺ کا چچا بھی تھا آگے بڑھا اور چلّایا ’’بس بس اے بھتیجے! ہم نے تیری باتیں سن لی ہیں، کیا تو نے یہی سب بتانے کے لیے ہم لوگوں کو یہاں بلایا تھا؟ ہمیں تیری دعوت قبول نہیں‘‘۔ دوسرے سردار بھی ابو لہب کی تائید میں بولنے لگے۔ پھر انہوں نے لوگوں کو یہاں سے واپس چلنے کا اشارہ کیا۔ لوگ اپنے اپنے سرداروں کے ساتھ رخصت تو ہو رہے تھے مگر ان میں بہت سوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ یہ لوگ محمد بن عبداللہ کی اس قدر مخالفت آخر کیوں کر رہے ہیں انہوں نے ان کا کیا بگاڑا ہے؟ وہ اللہ کے اکیلے معبود ہونے کی تو بات کر رہے ہیں۔ لوگوں کو برے کاموں سے باز رہنے، غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرنے، کمزوروں پر ظلم نہ کرنے کی بات کوئی بری بات تو نہیں ہے۔ عورتوں کو معاشرے میں عزت واحترام کے ساتھ رکھنے کا حکم دینا کیا غلط کام ہے۔ ایک اللہ کو چھوڑ کر سیکڑوں خانہ ساز بتوں کی پرستش کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟
مخالفت کا اصل سبب
لیکن اصل بات جس سے سردارانِ قریش سب سے زیادہ خوف زدہ تھے وہ تھی انسانی مساوات۔ وہ خوب سمجھ گئے تھے کہ محمد بن عبداللہ کی دعوت قبول کرنے کا مطلب ہے ہماری سرداریوں کا خاتمہ۔ ہم عام لوگوں کے برابر ہو جائیں گے اور عام لوگ ہمارے برابر۔ غلام و آقا سب ایک ہوں گے انسانوں میں کوئی اونچ نیچ باقی نہیں رہے گی۔ بڑائی و برتری کا معیار صرف اللہ کا تقویٰ ہوگا۔
اور عین یہی تصور اسلام اور امت مسلمہ کے تعلق سے یہاں بھارت ورش میں بھی پایا جاتا ہے۔ یوں تو یہاں بھی اسلام اور امتِ مسلمہ سے نفرت اور دشمنی کے مختلف طریقے غیر مسلم آبادیوں کو سکھلا دیے گئے ہیں لیکن اسلام سے کدورت کا اصل سبب وہی طبقہ جانتا ہے جس نے بھارت ورش کی آبادی کو مختلف خانوں میں مختلف ذاتوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور خود کو ان کی سرداری کے مقام پر بٹھا رکھا ہے۔ اسلام سے دشمنی کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہ دین پوری بنی نوعِ انسانی کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔ سب کو برابر سمجھتا ہے۔ رنگ، نسل، زبان، علاقہ اور جنس میں کوئی بھید بھاؤ نہیں کرتا۔ غلاموں، آقاوں، مزدوروں اور سرمایہ داروں سبھی کو اللہ کی بندگی کی دعوت دیتا ہے اور اسی معیار پر ان کے اعمال کو پرکھتا ہے انسانوں میں نسلی یا علاقائی لحاظ سے کسی کو برتر اور کسی کو کم تر نہیں سمجھتا سب کو ایک مانباپ کی اولاد قرار دیتا ہے۔
اعلیٰ طبقے کا رول
کوئی شک نہیں کہ برہمن جاتی صلاحیتوں کو پہچاننے اور عقل فہم سے کام لینے میں دیگر جاتیوں سے آگے ہے چنانچہ بھارتی علوم وفنون پر اُسی کی اجارہ داری ہے۔ اس لحاظ سے اِس سر زمین پر اسلام کو اس کے صحیح سیاق وسباق میں سمجھنے کا پہلا حق اِسی کا تھا۔ ان کو چاہیے تھا کہ یہ خالی الذہن ہو کر دیانتداری سے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتے کہ وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے پھر اس کی روشنی میں اپنا طرزِ عمل طے کرتے۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ اس کے برعکس اسلام اور مسلمانوں کو اِس سر زمین کا دشمن نمبر ایک قرار دے دیا گیا۔ درست ہے کہ یہ سوچ صرف آر ایس ایس کے چند لوگوں کی ہے دیگر برہمن ایسا نہیں سوچتے لیکن یہ بھی درست ہے کہ برہمنوں کے کسی اور حلقے نے بھی سنگھ کے اِس نظریے کو چیلنج نہیں کیا ہے اور یہ جو وقتاً فوقتاً اور بات بات پر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی شرارتیں کی جاتی ہیں اس کے خلاف بھی کسی برہمن حلقے نے آواز نہیں اُٹھائی ہے۔ انفرادی طور پر کسی نے کچھ کہا ہو تو اور بات ہے لیکن بحیثیتِ مجموعی سارا برہمن طبقہ اس باب میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے….. لہٰذا اب ہندوستانی مسلمانوں کے لیے یہی ایک چارہ کار باقی رہ گیا ہے کہ ان کے علماء اور دانشور اٹھیں اور اعلیٰ ذات کے طبقات سے ربط ضبط قائم کرکے ان کے سامنے دینِ اسلام کی دعوت پیش کریں اور انہیں اسلام کو صحیح تناظر میں سمجھنے کی اپیل کریں۔ کچھ لوگ صرف نچلے طبقات میں اسلام کے تعارف کی بات کرتے ہیں گو کہ وہ بھی ضروری ہے لیکن ان طبقات کی نفسیات مختلف ہے۔ اس کے برعکس اعلیٰ طبقے کا کوئی ایک فرد دینِ حق کو سمجھ لے تو امید ہے کہ وہ کبھی اور کسی حالت میں بھی اپنی رائے سے نہیں پھرے گا۔