خبر و نظر
پرواز رحمانی
ماو وادی پارٹی کی پریشانی
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماوسٹ) نے اپنے ایک قدیم اور سرکردہ ممبر کوباڈ چانڈی کو پارٹی سے نکال کر ان کی ممبر شپ منسوخ کردی ہے۔ پارٹی کے نزدیک چانڈی کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ دس بارہ سالوں سے پارٹی میں دلچسپی لینا بند کر دی ہے۔ پارٹی کے بنیادی نظریات سے انحراف کرتے ہیں۔ اس کے برعکس دھارمک اور آدھیاتمک کاموں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ پارٹی کے ایک پریس نوٹ کے مطابق چانڈی کو پارٹی کی سرگرمیوں کی وجہ سے 2009ء میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ان کے اندر یہ تبدیلی آئی ہے۔ وہ حکمراں گروہ کے ساتھ قریبی ربط وضبط رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پارٹی میں اخلاق واقدار کی کمی ہے۔ اس لیے ماوسٹ پارٹی سے اب ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ (انڈین ایکسپریس دو دسمبر) ماوسٹ کمیونسٹ پارٹی کوئی آزاد پارٹی نہیں ہے۔ اس پر حکومت ہند نے پابندی لگا رکھی ہے۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے کام اس طرح انجام دیتی ہے گویا آزاد ہو۔ 1030 کی دہائی میں ہندوستان میں کمیونزم ادب اور لٹریچر کے ذریعے آیا۔ اس میں زیادہ حصہ اردو ادب کا تھا۔ 1964ء تک متحدہ کمیونسٹ پارٹی ایک ہی تھی۔ اس کے بعد اس کے کئی حصے ہو گئے۔ ملک میں اس وقت کئی کمیونسٹ حلقے کام کر رہے ہیں۔
اخراج کی وجہ
دو سوا دو سو سال قبل جب جرمنی کے یہودی النسل ملحد کارل مارکس نے اشتراکی نظریہ معیشت کی بنیاد رکھی تو اس کے پورے فلسفے سے خدا اور مذہب کو یکسر خارج کر دیا۔ مارکس اور اس کے ساتھی کہا کرتے تھے کہ ’’خدا کا کوئی وجود نہیں، مذہب ایک افیون ہے‘‘۔ کارل مارکس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی یہی تھی جس نے اسے فلسفہ حیات کے حقیقی ادراک سے دور رکھا۔ دنیا میں ایسے کچھ اور فلسفی اور اہل علم گزرے ہیں جنہوں نے فلسفہ حیات سمجھنے کی کوشش میں پوری پوری زندگی لگادی لیکن کتاب زندگی یعنی قرآن تک نہ پہنچ سکے اور یوں زندگی رائیگاں کر دی۔ اس برصغیر میں مارکسی فلسفے میں ویسے تو کئی تبدیلیاں کی گئیں لیکن کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوئی۔ کمیونسٹ حلقے آج بھی اسی بے خدا زندگی پر گامزن ہیں۔ ویسے بعض بے خدا حلقوں میں یہ بے خدائی بھی نام کی رہ گئی ہے۔ ان کی نجی زندگیوں میں خاص طور سے غیر مسلم زندگیوں میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جو عام زندگی میں ہوتا ہے۔ ماوسٹ پارٹی کے برطرف لیڈر کوباڈ چانڈی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ وہ برسر اقتدار گروہ کی ادھیاتمکتا میں الجھ گئے ہوں گے اور مارکسی ماوسٹ اسے اپنے فلسفے سے بہت بڑی دور سمجھ رہے ہیں۔ ہاں ان دلچسپیوں سے مارکسی کاموں میں تھوڑا بہت خلل پڑتا ہے۔
یہ تجربہ بھی کیجیے
لیکن یہ خلل مارکسی فلسفے کو ہلاکر نہیں رکھ دیتا، جس طرح ہندتوا میں نچلی جاتیوں کی زندگی میں بودھ دھرم قبول کرلینے سے ان کے ہندو دھرم یا جاتیوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کوباڈ چانڈی کے تبدیلی خیالات پر ماوسٹ لیڈروں کا واویلا فضول ہے۔ پوری دنیا میں اور خود اس برصغیر میں اہل توحید نے کمیونسٹ حلقوں کو بتانے کی اپنی سی بہت کوشش کی کہ وہ اس دین کو سمجھنے کی کوشش کریں جو حقیقی مساوات اور مالی وسائل کی منصفانہ تقسیم کا دین ہے۔ کارل مارکس لینن اور ان کے ساتھی اس دین کے صرف فلسفہ زکوٰۃ کو سمجھ لیتے تو پوری بات سمجھ میں آجاتی اور انسان کی معاشی مساوات کا مسئلہ حل ہو جاتا۔ اس طریقے کو آزمانے سے نظام وقت پر یقیناً فرق پڑتا لیکن یہ فرق مثبت ہوتا۔ دو نمبر کی دولت جمع کرنے والے تو اسے پسند نہیں کرتے لیکن یہ محنت کشوں اور عام آبادیوں کے لیے بہت بڑی نعمت ثابت ہوتی۔ کمیونسٹ پارٹیاں آج بھی اپنے پرانے طریقے پر چل رہی ہیں۔ ہندوستان میں صرف مغربی بنگال اور تری پورہ میں ریاستی سرکاریں قائم بھی ہوئیں، چلیں بھی مگر اب نہیں ہیں۔ ایک ریاست پر مرکزی حکمراں پارٹی نے قبضہ کرلیا۔ مغربی بنگال پر قبضے کے لیے بے چین ہے۔ مغربی بنگال پر کانگریس بھی حاکم رہی۔ مارکسی کمیونسٹ پارٹی نے طویل عرصہ تک حکومت کی۔ اب وہاں ایک اور آزاد خیال خاتون حکمراں ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ممتا بنرجی کو ان ہی کے مسلم ساتھی زکوٰۃ کا تجربہ کرنے کا مشورہ دیں۔ پہلے مرحلے میں صرف مسلمانوں میں ہی سہی۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 تا 18 دسمبر 2021