خبرو نظر

پرواز رحمانی

 

ایک قانون پر عدالت کی برہمی
سیڈیشن یعنی ملک کے ساتھ غداری یا بے وفائی کے قانون کا بے جا استعمال اس ملک میں ایک عرصے سے جاری ہے۔ یوں تو ہر مرکزی حکومت اور تمام ریاستی حکومتیں اس ظالمانہ قانون کا استعمال اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کسی نہ کسی درجے میں کرتی رہی ہیں لیکن موجودہ مرکزی حکومت اور اس کی کچھ ریاستی حکومتوں نے حد ہی ختم کر دی ہے۔ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اظہار خیال کی آزادی کو پامال کر رہی ہیں لوگوں کو اپنے جائز مطالبات پیش کرنے سے روک رہی ہیں اور بی جے پی کی کچھ ریاستی حکومتیں تو اسے فرقہ وارانہ رنگ دے کر کچھ مخصوص مذہبی اکائیوں کے خلاف نہایت بے شرمی کے ساتھ استعمال کر رہی ہیں۔ آئین ہند کی دفعہ 124اے کا یہ قانون دراصل انگریزی حکومت نے تحریک آزادی کو کچلنے کے لیے وضع کیا تھا۔ انگریزی حکومت اس دفعہ کے تحت کسی بھی فرد یا گروپ کے خلاف کارروائی کرتی تھی۔ 1947 میں آزادی مل گئی اور غیر ملکی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئے آزاد ملک کے آئین میں یہ دفعہ شامل ہی نہ کی جاتی مگر دفعہ من وعن برقرار رکھی گئی۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی آئین ساز کمیٹی نے اس کا کچھ خیال نہ کیا کہ آزاد ہند کی حکومتیں بھی اس کا بے جا استعمال کر سکتی ہیں۔ نئے حکم راں اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

عدالت کا سوال
اس آئینی دفعہ کے بے جا استعمال کے خلاف احتجاج بھی ہوتا رہا ہے لیکن ذمہ دارانِ حکومت کان دھرنے کو تیار نہ ہوئے۔ اب سول سوسائٹی کے دو اہم افراد آگے بڑھتے ہیں، ایک ہیں سابق میجر جنرل ایس جی ووم بٹ کیرے اور دوسرے ہیں ممتاز صحافی اور سیاسی دانشور ارون شوری۔ میجر جنرل ووم بٹ کیرے نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کر کے کہا ہے کہ آئین میں اس قانون کی اب کوئی ضرورت نہیں، اسے فی الفور منسوخ کیا جانا چاہیے۔ ارون شوری نے بھی اپنی درخواست میں یہی بات کہی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس پٹیشن کا خاطر خواہ نوٹس لیا اور حکومت کو نوٹس جاری کر کے پوچھا ہے کہ آزادی کے ہچھتر سال بعد بھی انگریزی حکومت کے اس ظالمانہ قانون کو کیوں باقی رکھا گیا ہے؟ چیف جسٹس ایم وی رمنا کی بینچ نے کہا کہ انگریزوں نے یہ قانون تحریک آزادی کو دبانے کے لیے بڑے بڑے ملکی لیڈروں کے خلاف استعمال کیا تھا، اب ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آزادی کے بعد حکومت کو کس سے خطرہ ہے اور حکومت اسے کیوں برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ بینچ نے اس قانون 124اے کو اداروں اور ان کی سرگرمیوں کے لیے خطرہ قرار دیا۔ بہرحال قانون کے بے جا استعمال پر عدالت عظمیٰ کی برہمی واضح طور پر دیکھی گئی۔

مسلمان محتاط رہیں
سپریم کورٹ کے اس رویے کے بعد امید ہے کہ حکومت بھی کچھ لچک دکھائے گی اور سول رائٹس اور حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی سرگرم ہوجائیں گی۔ ریاستوں میں اس قانون کا زیادہ غلط استعمال اتر پردیش کی حکومت نے کیا ہے۔ اس ریاست کا وزیر اعلیٰ مرکزی لیڈروں کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں آگیا ہے اسی لیے مرکزی حکومت نے آئندہ ریاستی انتخابات میں وزیر اعلیٰ کو تبدیل کرنے کا خیال ترک کر دیا ہے۔ اس سے وزیر اعلیٰ کے حوصلے مزید بڑھ گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے دراصل مرکزی لیڈروں کے اسی ہتھیار سے انہیں زیر کیا ہے جس کا استعمال کرکے وہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بنے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے غداری وطن کے قانون کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا اور ایک مخصوص مذہبی اقلیت کو اس کی زد میں رکھا۔ چنانچہ یو پی میں معمولی معمولی بلکہ مفروضہ جرم پر 124اے لگائی جاتی ہے اور یہ کام مرکزی لیڈروں کی منشاء کے مطابق ہے۔ دفعہ 124اے کے خلاف میجر جنرل ووم بٹ کیرے اور ارون شوری نے جو آواز اٹھائی ہے، مسلمانوں کو اس کا ساتھ عمومی انداز ہی میں دینا چاہیے۔ بی جے پی کی کوشش ہو گی کہ مسلمان اسے اپنے مخصوص طریقے سے اٹھا کر اس کا فرقہ وارانہ رنگ زیادہ گہرا کر دیں لہٰذا مسلم لیڈر شپ کو اس سلسلہ میں زیادہ محتاط رہنا ہو گا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021