خاندانی صحت سروے سے ’آبادی دھماکہ‘ کی اصل حقیقت آشکار
بھارت کی مجموعی شرح زرخیزی 2.2 سےگھٹ کر 2 ہو گئی۔سماجی اور تعلیمی ترقی کے لیے سروے سے سبق لیا جا سکتا ہے
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
خاندان کی صحت پر حالیہ سروے (NFHS-5)سے واضح ہوتا ہے کہ ملک ’’آبادی دھماکہ‘‘ (Population Explosion) سے چین کے مقابلہ میں بہتر طریقے سے قابو پانے میں کامیاب رہا ہے۔ بھارت کی شرح زرخیزی (فرٹیلٹی ریٹ) یا اوسطاً فی خاتون بچوں کی شرح پیدائش میں نمایاں کمی درج کی گئی ہے۔ عالمی تنظیم صحت کے مطابق 2019-20 میں کیے گئے سروے NFHS-5میں ملک کی آبادی کی کل شرح زرخیزی (TFR) 2.1 سے گھٹ کر 2 پر پہنچ گئی ہے۔ 201516 کے NFHS-5 اور 2017 کے سیمپل رجسٹریشن سٹسم (SRS) سروے میں اسے 2.2 درج کیا گیا تھا۔ ٹی ایف آر میں کمی کے اسباب میں ریاست در ریاست تعلیم نسواں کا موقف، ان کی شادی کی اوسط عمر، مانع حمل ذرائع کا استعمال اور بچوں کے تحفظ میں اضافہ شامل ہیں۔ NFHS-5 اور NFHS-4 کے تقابل سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہت سارے شعبوں میں بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں مثلاً تعلیمی، ادارتی ڈیلیوری، ٹیکہ کاری اور اموات اطفال میں کمی وغیرہ۔ اس میں مزید بہتری اور اصلاح کے مواقع بھی ہیں۔ ہمیں موجودہ بہتری کی ستائش ضرور کرنی چاہیے۔ خصوصاً کورونا قہر کے دوران ہمارے صحت کے بنیادی ڈھانچہ کی عدم دستیابی نے بہت ہی تباہی مچائی کیونکہ ہم لوگ شعبہ تعلیم اور صحت پر جی ڈی پی کا سب سے کم حصہ خرچ کرتے ہیں۔ ان حالات میں بہتری بہت ہی امید افزا ہے۔ NFHS-5 کا سب سے اہم مثبت پہلو ہے کل شرح زرخیزی (TFR) کا صحیح صحیح اندازہ۔ بھارتی عورتیں اوسطاً پوری عمر میں 2.1 کی شرح سے بھی کم بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔ ہماری آبادی میں اب ٹھیراو آگیا ہے جو تمام ریاستوں کے معاملے میں درست ہے۔ اس لیے اب ہمارے سیاستدانوں کو آبادی کے دھماکے کی پھلجھڑی چھوڑنے کے بجائے ضرورت ہے کہ صحت کے مسئلہ پر توجہ دیں اس کے علاوہ بہار، جھارکھنڈ اور اترپردیش جہاں کی عورتیں سب سے کم تعلیم یافتہ ہیں۔ یہی وہ ریاستیں ہیں جو نیتی آیوگ کے مطابق ہمہ جہتی غربت کے اشاریے (Poverty Index) میں سب سے کم تر ہیں۔ حکومت کا اپنا مطالعہ ہے کہ معیاری تعلیم یافتہ عورتوں میں زرخیزی کی شرح کم ہے بالفاظ دیگر انہیں بچے کم سے کم ہوتے ہیں۔ مطالعہ سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ غریب ترین لوگوں کے یہاں کل شرح زرخیزی 3.2 ہے مگر یہی امیر گھرانوں کی تعلیم یافتہ عورتوں کا ٹی ایف آر 1.5 درج کیا گیا ہے۔ ایک امریکی ماہر حیوانیات پال ارلک نے اپنی کتاب آبادی بم (Population Bomb) میں زیادہ انسانی آبادی کو ایک بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ لوگ قحط کی وجہ سے اس لیے مرتے ہیں کہ سب کو مناسب غذا میسر نہیں ہوتی۔ بھارت میں خاندانی منصوبہ بندی کو بہتر طریقے سے نافذ نہیں کیا جا سکا کیونکہ 1970کی دہائی کے وسط میں زور زبردستی والی نس بندی نے صحت عامہ کے پروگرام پر سے لوگوں کے اعتماد کو بری طرح متزلزل کر دیا تھا۔ NFHS ڈاٹا کے مطابق ملک میں عورتیں 201516 میں 47.8 فیصد مانع حمل آلات استعمال کرتی تھیں جو 2019-21 میں بڑھ کر 56.5 فیصد ہو گیا۔ اس طرح مناسب خاندانی منصوبہ بندی خدمات کے ذریعہ بھارت کو موجودہ شرح زرخیزی کو حاصل کرنے میں کامیابی ملی ہے۔ اب تو 2019-20 میں نو زائدہ بچوں کے شرح اموات (آئی ایم آر) فی ہزار 30 تک پہنچ گئی ہے۔ ابھی بھی ہمارا آئی ایم آر نیپال اور بنگلہ دیش کے 26 کے مقابلے میں بدتر ہے۔
واضح رہے کہ 1950میں بھارت اور چین کا ٹی ایف آر 6 تھا۔ مگر چین کے ایک بچہ کی پالیسی پر عمل آوری نے وہاں کے شرح پیدائش کو خطرناک حد تک کم کر دیا جس کی وجہ سے چین کی آبادی کے تناسب میں بگاڑ آیا۔ وہیں بوڑھوں کی تعداد بے انتہا بڑھ گئی اور نوجوان محنت کش جو صنعتی ترقی کے لیے ضروری تھے وہ کم ہو کر ضعیفوں کی جگہ لینے سے قاصر رہے۔ چین کے علی الرغم بنگلہ دیش، برازیل، بھارت، ملائشیا اور ترکی جیسے ممالک نے اپنے ٹی ایف آر کو 6 کے آس پاس رکھا جو ان کے لیے رحمت ثابت ہوئی۔ خاندانی منصوبہ بندی میں جابرانہ اور ظالمانہ پالیسی کو اپنائے بغیر ان ممالک میں شرح زرخیزی میں کمی کو تعلیم نسواں کے بہتر معیار سے پورا کرلیا گیا۔ بھارت اور چین دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ممالک ہیں جہاں آبادی کے دھماکہ کو بڑا ہی سنگین مسئلہ بتایا جاتا ہے۔ شرح زرخیزی میں بڑی کمی کے باوجود کچھ لوگ آبادی میں اضافہ کا ہوا کھڑا کرکے بڑا واویلا مچاتے ہیں اور جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملک کی تمام خرابیوں کی جڑ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کے نام پر بہت ساری ریاستوں کے چند سزاوں کی تجویز بھی رکھی ہے کہ دو بچوں سے زائد کے والدین الیکشن لڑنے سے قاصر رہیں گے اور انہیں پروموشن سے محروم کردیا جائے گا۔ ایسے حقائق کے باوجود آبادی کے کنٹرول کے لیے محض سزا ہی واحد راستہ نہیں بلکہ تعلیم نسواں اورصحت عامہ کا فروغ زیادہ پسندیدہ اور پائیدار حل ہے۔ مگر سنگھی ذہنیت کے لوگ آبادی کے نام نہاد دھماکہ کو ایک خاص فرقہ کو بدنام اور خوفزدہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
کسی بھی ملک میں صحت اور سماجی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وقتاً فوقتاً انسانی ترقی کا اشاریہ (Human Development Index) عوام کے سامنے آئے۔ حالیہ NFHS-5 کے نتائج سے کچھ شعبہ میں بہتری اور کہیں تنزلی بھی آئی ہے۔ ماوں اور بچوں کو صحت جیسی تناسب اور آبادی کے کنٹرول میں خاطر خواہ امید افزا بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اب میٹرنیٹی ہومس میں بڑی تعداد میں بچوں کی پیدائش ہونے لگی ہے ساتھ ہی 12 تا 23 ماہ کے بچوں کی ٹیکہ کاری بھی بہت ہی ہمت افزا ہے۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے کہ بھارت کی کل شرح زرخیزی 2.2 سے کم ہو کر 2 پر آگئی ہے۔ اس طرح بھارت نے اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے میں کامیابی حاصل کر کے خاندانی منصوبہ بندی کے شعبہ میں اچھا کارنامہ انجام دیا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں ایک ہزار مردوں کے مقابلے خواتین کی تعداد زیادہ ہی درج کی گئی ہے اور بیٹوں کی چاہت میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔ ویسے پیدائش کے وقت جنسی تناسب (sex ratio of birth) 105 لڑکوں کے مقابلے 100 لڑکیوں کا ہے جس سے تقریباً 50-50 کا جنسی تناسب بنتا ہے۔ چند ریاستوں میں SRB کم درج کی گئی ہے تو بعض ریاستوں میں اور بھی کم اور اب دو بچوں پر مشتمل خاندان کا ڈھانچہ بیٹوں کو ترجیحات میں رکھے بغیر پروان چڑھ رہا ہے۔ صحت عامہ کے شعبہ میں خون کی کمی (Anemia) پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں 58.6 فیصد سے بڑھ کر 67 فیصد ہو گئی ہے۔ عورتوں میں 53.1 فیصد سے بڑھ کر 57 فیصد اور مردوں میں 22.7 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد ہو گئی ہے جس سے شہریوں پر مضر اثرات کا پڑنا لازمی ہے۔ اس لیے ورلڈ ہیلتھ آگنائزیشن نے اسے بہت ہی گمبھیر مسئلہ قرار دیا ہے مگر بھارت میں ریاست در ریاست کافی تفاوت ہے۔ مثلاً کیرالا کی کمی کا ڈاٹا 39.4 فیصد ہے تو گجرات میں 79.7 فیصد تک ہے۔ کرونا کی لہروں نے اسے مزید سنگین بنا دیا ہے۔ گلوبل سنگر انڈیکس میں تغذیہ کے فقدان کا جائزہ لیا گیا ہے جس میں سکڑن (عمر کے مقابلے کم طبائی) بربادی (اونچائی کے مقابلے کم وزنی (عمر کی مناسبت سے کم وزنی) یہ سب کے سب تغذیہ کے فقدان کی وجہ سے ہے۔ یہ دراصل غربت، ماووں کی خرابی صحت، تغذیہ کا فقدان، متوازن غذائیت کی کمی، کم عمری میں دیکھ بھال میں غفلت، متعدد بیماریوں سے سابقہ۔ یہ سب وجوہات ہیں جس سے بچوں کے نشو ونما پر بڑا برا اثر پڑتا ہے۔ اس سروے کے چند شعبہ جات میں کچھ بہتری ضرور آئی ہے کیونکہ امسال بڑے پیمانے پر چھ لاکھ سے زیادہ کنبوں سے ڈ یٹا جمع کیا گیا ہے جس میں بچے، مرد وخواتین میں موٹاپے کو بھی ایک مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔ بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر کو NFHS-5 نے پہلی بار طرز زندگی (لائف اسٹائل) کی خرابی قرار دیا ہے۔ حکومت کو اپنے بہترین ذرائع وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے صحت عامہ اور تعلیم کے لیے بہتر پالیسی سازی ضروری کرنی چاہیے۔ اس لیے خواتین میں خود اختیاری اور خود اعتمادی کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی صحت کا زیادہ خیال رکھ سکیں۔ اس کے ساتھ ہی شعبہ تعلیم پر جی ڈی پی کا چھ فیصد اور شعبہ صحت پر جی ڈی پی کا تین فیصد مختص کیا جانا چاہیے۔
***
***
امسال بڑے پیمانے پر چھ لاکھ سے زیادہ کنبوں سے ڈ یٹا جمع کیا گیا ہے جس میں بچے، مرد وخواتین میں موٹاپے کو بھی ایک مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔ بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر کو NFHS-5 نے پہلی بار طرز زندگی (لائف اسٹائل) کی خرابی قرار دیا ہے۔ حکومت کو اپنے بہترین ذرائع وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے صحت عامہ اور تعلیم کے لیے بہتر پالیسی سازی ضروری کرنی چاہیے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 تا 18 دسمبر 2021