خاندانی زندگی کے لیے اسوہ ابراہیمی سے ایک سبق

اقربین کی نجات کے لیے فکرمند ہونا محبت کا اولین تقاضہ

جاویدہ بیگم ورنگلی

 

امام الانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم اپنی ذات میں ایک پوری امت تھا (النحل:۱۲) یعنی ایک فرد واحد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وہ کام انجام دیا جسے ایک پوری امت کو انجام دینا تھا۔ آپ کی زندگی جہد مسلسل کی ایک داستان اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ آپ کی زندگی جہاں تلاش حق کی دعوت دیتی ہے تو وہیں قبول حق پر آمادہ کرتی ہے اور حق کے لیے ہر قربانی دینے کا جذبہ دل میں پیدا کرتی ہے۔ اللہ سے محبت کی شمع دل میں روشن کرتی ہے جو اگر روشن ہو جائے تو پھر انسان اپنے رب کے سامنے مجسم اطاعت بن جاتا ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر گوشہ اور ہر دور رہروِ منزل کو نشان منزل کا پتہ دیتا ہے۔ آپ کی زندگی وہ مینارہ نور ہے جس سے روشنی حاصل کر کے انسان اپنی زندگی میں چھائی ہوئی تاریکی اور مایوسی وگھٹن کو دور کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قد کانت لکم اسوہ حنسۃ فی ابراہیم (الممتحنہ:۴)
آج خاندانی نظام کا استحکام سب سے زیادہ توجہ طلب مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اسلام کا خاندانی نظام وہ مضبوط قلعہ ہے جو دشمنوں کی طرف سے کی جانے والی کوششوں اور حملوں کو ناکام بناتا ہے۔ آج دشمنوں کی کوششیں اسلامی خاندانی نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے میں لگی ہوئی ہیں تاکہ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار بن جائے اور افراد خانہ ایک دوسرے سے کٹ کر بے تعلق ہو کر رہ جائیں جبکہ:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ میں سب سے پہلے جو بنیادی چیز نظر آتی ہے وہ ہے تلاش حق۔ جو دوسری چیز ہے وہ ہے اپنوں سے بے پناہ وبے لوث محبت۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب حق کو پا جاتے ہیں کہ ایک ہی واحد ہستی اللہ تعالیٰ ہے جو عبادت کے لائق ہے تو سب سے پہلے اپنے باپ یاد آتے ہیں جو بہت سے بتوں کو اپنا خدا بنائے ہوئے اپنا سر نیاز اس کے آگے جھکائے نظر آتا ہے تو اس کا انجام سوچ کر وہ تڑپ جاتے ہیں۔ اپنے باپ کے پاس جاتے ہیں اور اسے مخاطب کر کے کہتے ہیں ’’ابا جان! آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ آپ کا کوئی کام بنا سکتی ہیں؟ ابا جان! میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا ہے۔ آپ میرے پیچھے چلیں میں آپ کو سیدھا راستہ بتاوں گا۔ ابا جان! آپ شیطان کی بندگی نہ کریں۔ شیطان تو رحمٰن کا نا فرمان ہے۔ ابا جان! مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمٰن کے عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر رہیں (مریم:۴۲تا۴۵) ان الفاظ میں ایک محبت کرنے والے بیٹے کی دلی تڑپ نظر آتی ہے جو باپ کے انجام بد کے بارے میں سوچ کر بے قرار تھا اور اس کی کوشش تھی کہ جس طرح بھی ہو وہ اپنے باپ کو دردناک انجام سے بچائے۔ اپنی برتری کا کوئی احساس نہ کوئی عملی غرور، ایک منصب بلند پر فائز ہو کر بھی عاجزی وانکساری کا ایک نمونہ سامنے آتا ہے۔ اگر یہ نمونہ سامنے ہو تو ماں باپ اور اولاد کے تعلق میں بگاڑ پیدا نہیں ہو سکتا۔ یہ بگاڑ ہی ہے جو خاندان میں رخنہ ڈالتا ہے۔ باپ بات ماننے پر آمادہ نہیں سنگسار کردینے کی دھمکی دیتا ہے اور ایک صالح بیٹے کا کردار کا نمونہ سامنے آتا ہے ’’ابراہیم نے کہا سلام ہے آپ کو میں اپنے رب سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کردے۔ میرا رب مجھ پر بڑا مہربان ہے (مریم:۲۷) جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے از خود دعائے مغفرت کا وعدہ کیا تھا لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بات بھی واضح کردی ’’میں آپ کے لیے دعا ضرور کروں گا لیکن میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے کہ آپ کو اللہ کے پکڑ سے بچا سکوں‘‘۔ اولاد کو سنجیدگی سے بڑوں کی اصلاح کا کام آخر دم تک کرتے رہنا چاہیے پیشانی پر ناگواری کے بل لائے بغیر۔ یہ ہے ابراہیمی اسوہ۔
ہجرت کے موقع پر آپ کے بھتیجے لوط کا آپ کا ساتھ دینا معمولی بات نہیں ہے۔ محبت کا تعلق ایسا ہوتا ہے جو انسان کو ہر مشکل برداشت کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ محبت کا جذبہ ہوتا ہے جس کی وجہ انسان ہر حال میں ہر حالت میں دوسرے کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ محبت ہے جو انسان کو ایک دوسرے سے وابستہ رکھتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں محبت کے جو جذبے نظر آتے ہیں وہ بتا دیتے ہیں کہ خاندان کا استحکام محبت سے ہوتا ہے۔ ہجرت کے موقع پر آپ کے ساتھ ایک نرم ونازک خاتون کا ساتھ ہونا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ جب شوہر اور بیوی میں محبت ہو تو بیوی ہر حال میں اپنے شوہر کا ساتھ دیتی ہے۔ حالات کی سنگینی کے احساس سے وہ اپنے شوہر کر رفاقت سے کنارہ کش نہیں ہوتی۔ ایک خاتون کا اپنے عزیز واقارب، ماں باپ اور وطن عزیز کو چھوڑنا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی، یہ محبت کا جذبہ ایسا قوی ہوتا ہے کہ حالات کی سختی اس میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہی کرتی ہے۔ یہی اپنے شوہر پر بے پناہ اعتماد اور بھروسہ ہے کہ ایک عورت اپنے شیر خوار بچے کو گود میں لیے ریگستان عرب میں تنہا نظر آتی ہے لیکن زبان پر کوئی حرف شکایت نہیں ہوتا۔ میاں بیوی میں خلوص محبت ہو دونوں کا نقطہ نظر ایک ہوتا ہے دونوں کی سوچ آخرت کے بارے میں ایک ہو تو اس کے نتیجے میں اولاد کا جو کردار سامنے آتا ہے وہ ایسا ہے کہ وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک روز ابراہیم علیہ السلام نے اس سے کہا ’’بیٹا! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے؟ اس نے کہا کہ ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے اسے کر ڈالیے آپ انشا اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے (الصافات:۱۰۲) ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے مطالعہ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ خاندان کو جوڑے رکھنے والا نسخہ محبت ہے۔ یہ محبت ہی ہے جو انسان کو جوڑے رکھتی ہے۔ ہر غرض سے پاک بے لوث محبت۔ خاندانی زندگی کے لیے اس نسخہ سے بڑھ کر کوئی نسخہ نہیں ہو سکتا۔
***

ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے مطالعہ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ خاندان کو جوڑے رکھنے والا نسخہ محبت ہے۔ یہ محبت ہی ہے جو انسان کو جوڑے رکھتی ہے۔ ہر غرض سے پاک بے لوث محبت۔ خاندانی زندگی کے لیے اس نسخہ سے بڑھ کر کوئی نسخہ نہیں ہو سکتا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021