خاموش! سوال و فکرو دانش کی سزا ہے اب نظر بندی
اے رحمان
تمام سیاسی نصاب اور خود آئینِ ہند اعلان کرتا ہے کہ جمہوریت میں جمہور یعنی عوام طاقت و اختیارات کا سر چشمہ ہیں۔ عوام حاکم ہیں، عوام نگراں ہیں، عوام محتسب ہیں، عوام منصف ہیں، عوام ملک کے مالک ہیں اور ان کے ذریعے منتخب کیے گئے جملہ اربابِ حلّ و عقد اپنی کار کردگی اور کار گزاری کے لیے اُن سے یعنی عوام سے پابندِ عہد ہیں اور اپنے ہر قول و فعل کے لیے عوام کو جواب دہ ہیں۔ امریکی آئین کے آرٹیکل ۲ کی دفعہ ۳ کے ذیلی فقرہ (۱) کے تحت صدرِ امریکہ پر لازم ہے کہ وہ ہر سال کے آغاز میں، جنوری فروری کے درمیان کانگریس ( امریکی پارلیمنٹ) اور سینیٹ ( کابینہ) کے مشترکہ اجلاس کو خطاب کر کے قومی سلامتی، معیشت، دفاع اور معاشرتی معاملات کی ’’موجودہ صورتِ حال‘‘ سے آگاہ کرے، نیز حکومت کی ترجیحات، بجٹ سے متعلّق تجاویز اور قانون سازی سے متعلّق ایجنڈا بھی ایوان کے سامنے پیش کرے۔ اس خطاب کو وہاں State of the Union Address کہا جاتا ہے اور اس جواب دہی میں صدر ِ امریکہ اصلاً عوام سے مخاطب ہوتا ہے۔ یعنی حکومت (یہ بھی اہم بات ہے کہ وہاں حکومت کو صدر کی ’انتظامیہ‘ سے موسوم کیا جاتا ہے) اپنے ہر قول و عمل اور معمولی سے معمولی فیصلے کے لیے بھی عوام کو جواب دہ ہے۔ ہمارے آئین کی تشکیل و تالیف کے وقت بھی مجلسِ آئین ساز میں عوام کے منتخب کردہ نمائندوں اور عاملہ کے باہمی رشتے کے سوال کو غایت درجہ اہمیت دیتے ہوئے اس پر طول طویل مباحث ہوئے اور آخرِ کار اس موضوع پرامریکی آئین میں شامل اصول کو ہی اپناتے ہوئے حکومت کی جواب دہی مقرّر کر دی گئی۔ یہاں بھی صدرِ جمہوریہ ہی دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کو مخاطب کر کے اپنی حکومت کی حصولیابیاں بیان کرتے ہیں اور عوام کی جانب سے سوال کرنے کا حق بھی ہر نمائندے کو حاصل ہے۔ علاوہ ازیں پارلیمنٹ کے ذریعے تشکیل کردہ خصوصی کمیٹیاں بھی حکومت کی کارکردگی اور فیصلوں کا جائزہ لے کر رپورٹ مرتّب کرنے پر مامور ہوتی ہیں اور وہ رپورٹیں عوام کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم ہے آئین میں مذکور و مضمون عوام کی آزادیِ تحریر و تقریر جس کے تحت کوئی بھی شہری ذرائع ابلاغ کے ذریعے یا کسی بھی عوامی پلیٹ فارم سے حکومت سے کسی بھی سیاسی، معاشی اور معاشرت مسئلے پر کسی بھی قسم کا سوال کر سکتا ہے اور حکومت اس کا جواب دینے کی پابند ہے۔ یہی نہیں، حکومت کے کسی بھی عمل یا فیصلے کے خلاف احتجاج کرنا عوام کا بنیادی آئینی حق ہے۔ لیکن موجودہ حکومت نے ہر قسم کے جائز احتجاج یا حکومت کے کسی فعل و فیصلے پر اٹھائے گئے سوال کو گویا جرم قرار دے دیا ہے اور خالص فاشسٹی انداز میں کسی بھی ناقد، سائل بلکہ فریادی تک کو الٹا سیدھا کوئی بھی الزام لگا کر جیل رسید کر دیا جانا ایک معمول بن گیا ہے۔ اس غیر آئینی اور مجرمانہ رویّے کی بد ترین مثالیں سامنے آئیں فروری میں ہوئے مسلم کُش فسادات میں، جو ایک منصوبہ بند طریقے سے کرائے گئے اور جن کے اچانک پھوٹ پڑنے میں کپل مشرا اور اس قبیل کے بعض دیگر سیاسی حیوانوں کی شر انگیز اور اشتعال انگیز تقاریر نے اہم کردار ادا کیا۔ اس کے باوجود اربابِ اقتدار کا نزلہ پُر امن احتجاج کناں طلبا، حقوقِ انسانی کے محافظ رضاکاران اور خالص انسانی بنیادوں پر مصروفِ کار غیر سیاسی شخصیات پر گرا۔ انتہا یہ ہے کہ نہ صرف کپل مشرا یا فرقہ وارانہ نفرت پر مبنی فساد انگیز تقاریر کرنے والے کسی بھی بی جے پی کارکن یا رہنما کو گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ فسادات کے معاملات میں دائر شدہ فرد ہائے جرم میں ہرش مندر جیسے ان لوگوں کو بھی ملوّث کر لیا گیا ہے جنھوں نے عوامی سطح پر لوگوں سے پُر امن رہنے کی اپیل کی تھی۔ اب تک جتنی بھی چارج شیٹیں داخلِ عدالت کی گئی ہیں ان کو غیر قانونی طور پر تیّار کیے ہوئے جھوٹ کے پُلندوں کے علاوہ کُچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایسی صورتِ حال میں عدالتوں کا کردار نہایت اہم ہو جاتا ہے، کیوں کہ عدالت کا فرض نہ صرف انصاف کرنا ہے بلکہ نا انصافی کا سدّ ِ باب کرنا بھی ہے اور یہ کام انصاف کرنے سے بھی زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ عدالتیں بھی اپنا یہ فرض ادا کرنے سے قاصر نظر آئی ہیں، یہاں تک کہ صفورہ زرگر کو دلّی ہائی کورٹ سے ضمانت بھی اس کے حاملہ ہونے کے سبب ’’انسانی ہمدردی‘‘ کی بنیاد پر دی گئی، جب کہ عدالت کے سامنے اسے مستقل زیرِ حراست رکھنے کا ایک بھی قانونی جواز پیش نہیں کیا گیا۔
یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ موجودہ بی جے پی حکومت ہر محاذ پر قطعی ناکام ثابت ہوئی ہے، تاہم اس کا سب سے بڑا گناہ یا جرم ہے قومی معیشت اور سلامتی کے معاملات میں کی گئی اپنی لغزشوں کی پردہ پوشی کرنے کے واسطے عوام سے جھوٹ بول کر انہیں گمراہ کرنا ہے۔ کورونا کی وبا کے سلسلے میں مرکزی حکومت کی جو مجرمانہ بے عملی رہی اور جس طور وہ وزیرِ اعظم کے ذریعے کی گئی ’آتم نربھر‘ ہو جانے کی تلقین پر منتج ہوئی اس کے بارے میں تو اب کچھ کہنا بے سود ہے لیکن چین سے جھڑپیں ہونے کے واقعات اور نتائج کو جس بے شرمی سے گمراہ کن بیانات دے کر عوام سے چھپایا گیا اس کی نظیر ملنا دشوار ہے۔ اس عوام سے جو چین سے جھگڑے کی خبریں آتے ہی جذبۂ حب الوطنی سے سرشار ہو کر تن من دھن سے ملک کی حفاظت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔اور اب جبکہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور خود بی جے پی کے بعض رہنماؤں کے اقبالی بیانات سے حقائق اظہر من الشمس ہو چکے ہیںوزیرِ اعظم اور دیگر وزرا کے ہر جھوٹ پر لیپا پوتی کی بچکانہ اور چھچھوری کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایک افسوسناک بلکہ شرمناک حقیقت یہ ہے کہ لدّاخ میں شہید ہوئے فوجی جوانوں کے بارے میں وزیرِ اعظم نے ایک ٹویٹ تک نہیں کیا اور نہ ہی چینی افواج کے ذریعے گرفتار اور بعد کو رہا کردہ ہندوستانی فوجی افسران کی کوئی تفصیل عوام کے سامنے لائی گئی۔ اب ہم جانتے ہیں کہ چین ساٹھ کلو میٹر تک ہندوستانی علاقے میں نہ صرف گھس آیا ہے بلکہ کئی جگہ اس نے مستقل قسم کی مضبوط چوکیاں قائم کر لی ہیں اور یہ تصدیق حکومت کے اس بیان کے بعد ہوئی ہے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ مذاکرات کامیاب ہوئے اور چین نے اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لی ہیں۔ایک جھوٹ کے لئے ستّر جھوٹ بولنے کی یہ بد ترین مثال ہے۔ لیکن آپ کسی بھی معاملے پر نہ تو تنقید کر سکتے ہیں نہ ہی حکومت سے جواب طلبی۔ عمومی طور سے حکومت سے ہر قسم کی جواب طلبی کا کام حزبِ اختلاف یعنی اپوزیشن کرتی ہے مگر یہاں تو بقول مدیر انقلاب شکیل شمسی ’اپوزیشن کا انتقالِ پُر ملال ہو چکا ہے‘ لہذٰا کوئی کہنے سننے والا نہیں ہے۔ رہے عوام تو ان کے سوال پوچھنے یا سوال اٹھانے کے حق کو قید و بند کا ہوّا دکھا کر تلف کر دیا گیا ہے۔ عوام نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ عدالتوں کی تو اب محض مہر ہے۔ فیصلے کہیں اور ہی کئے جارہے ہیں۔ اور جب انصاف کی امّید ختم ہو جائے تو احتجاج کا ارادہ بھی لاحاصل ہوتا ہے۔ جمہوریت کا مکمّل قتل کر کے یک جماعتی حکومت اور ہندو راشٹڑ کا قیام شروع سے ہی آر ایس ایس کا ایجنڈا رہا ہے اور حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ ملک بڑی تیزی سے اس ایجنڈے کے نفاذ کی جانب گامزن ہے۔ بر سرِ اقتدار جماعت نے وا شگاف الفاظ میں یہ پیغام نشر کر دیا ہے کہ مزاحمت کی ہر کوشش اور احتجاج کی ہر آواز کی آخری منزل قید و زنداں ہے۔ اور پھر داد نہ فریاد۔ بقول پاکستانی شاعر تبسم نواز وڑائچ
حاکمِ شہر کو ہے زعم کہ وہ جو بھی کہے
بس وہ سُنّت ہے،وہی شرعِ خداوندی ہے
اس پابندی اور زباں بندی کو جمہوریت کی عادی یہ قوم کہاں تک اور کب تک برداشت کرے گی یہ تو وقت بتائے گا۔
مضمون نگار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ موصوف مختلف سماجی اور ادبی کازوں سے وابستہ ہیں۔ آپ موقر ادارے عالمی اردو ٹرسٹ کے چیئرمین بھی ہیں۔