حقِ رازداری اور حکومت کی بگ برادر والی نظر
حکومت تلنگانہ کے ’سمگرم‘ پروجیکٹ اور مودی حکومت کی ’سوشل رجسٹری‘ میں مماثلت
زعیم الدین احمد، حیدرآباد
تلنگانہ حکومت نے مرکزی حکومت کو بھارت کے 130 کروڑ باشندوں کی 360 ڈگری نگرانی (surveillance) اور ان کی ہمہ گیر پروفائل پر مبنی نظام بنا کر دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ پیشکش شخصی آزادی کے حوالے سے انتہائی خطرناک ہے۔ اگر اس سے ہمیں کوئی تشویش نہیں ہو رہی ہو تو پھر اس پورے معاملے کو سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
آج کی ڈیجیٹل دنیا میں ذاتی معلومات یا حقِ رازداری (privacy) کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کے تحفظ کے لیے مختلف قوانین وضع کیے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ اپنے باشندوں کی انفرادی یا ذاتی معلومات کو محفوظ رکھا جائے۔ مثلاً یورپی یونین کا جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (GDPR) 2016/679 ایک ایسا مثالی قانون ہے جس سے متاثر ہو کر بہت سے دوسرے ممالک نے بھی اسی قسم کے قوانین وضع کیے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اور عمدہ مثال کیلی فورنیا کنزیومر پرائیویسی ایکٹ (CCPA) ہے۔ یہ امریکہ کی اس ریاست کا قانون ہے جہاں دنیا کی ان تمام بڑی کمپنیوں کا مرکز قائم ہے جن کی کار کردگی کی بنیاد انٹرنیٹ ہے اور جنہیں ڈیجیٹل دنیا کا بادشاہ گر سمجھا جاتا ہے۔
اس کے بر خلاف ہمارے ملک بھارت میں حقِ رازداری کو بنیادی حقوق کے زمرے میں شامل نہیں رکھا گیا۔اسی پس منظر میں بھارتی حکومت نے 2017 میں وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک کے تحت ایک کمیٹی تشکیل دی ہے تاکہ اس ضمن میں سخت قانون بنایا جائے یا موجودہ مجہول قانون میں ترمیم کی جاسکے۔ اس کمیٹی نے 2018 میں مختلف تنظیموں اور اداروں سے مشورے کے بعد "پرسنل پروٹیکشن بل” کے نام سے ایک مسودہ حکومت کو پیش کیا اور 11 دسمبر 2019 کو یہ بل ایوان زیریں (لوک سبھا) میں پیش کیا گیا۔ اس بل کو ایوان زیریں نے پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیج دیا۔ ہمیں امید ہے کہ یہ بل بہت جلد قانونی شکل اختیار کر لے گا۔
یہ بل بنیادی طور پر حکومت، بھارتی کمپنیوں اور غیر ملکی کمپنیوں کو فرد کے ذاتی معلومات کے استعمال پر کچھ پابندیاں عائد کرتا ہے اور اس کے حدود کا تعین بھی کرتا ہے۔ جیسے فرد کی ذاتی شناخت، اس کی مالی حالت، بائیو میٹرک تفصیلات، ذات اور اس کا مذہبی یا سیاسی الحاق وغیرہ۔
آدھار سے متعلق ۲۰۱۷ کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے بھی فرد کی ذاتی معلومات کے استعمال پر یہ کہا کہ حکومت اور کمپنیاں اس کا بے جا استعمال نہیں کرسکتیں، اسی لیے آدھار کے لزوم پر بھی پابندی لگا دی۔ اسی مقدمہ میں سپریم کورٹ نے حق رازداری کو بنیادی حقِ قرار دیا۔
گزشتہ مارچ میں یہ بات سامنے آئی کہ تلنگانہ کے پرنسپل سکریٹری برائے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، الیکٹرانک اور مواصلات، جیش رنجن نے اپنے مرکزی ہم منصب انجینئر اجے پرکاش سہنی کو ۹ اکتوبر ۲۰۱۸ کے روز لکھے گئے خط میں کہا کہ مرکزی حکومت کے متنازعہ پروجیکٹ ’سوشل رجسٹری‘ کی تیاری میں تلنگانہ حکومت مکمل سسٹم فراہم کرے گی۔
سوشل رجسٹری ایک ایسا سسٹم ہے جس کے ذریعہ ملک کے باشندوں پر مکمل نگرانی رکھی جا سکتی ہے۔ یعنی ایک فرد کی نقل و حرکت، اس کی ملازمت، اس کی جائیدادیں اور اس کی خرید و فروخت، بچے کی پیدائش ، شادی بیاہ ، اس کے لین دین کے معاملات، اس کا مذہب، اس کی ذات، اس کی تعلیم ۔ غرض اس کی ایک ایک حرکت پر حکومت بگ برادر کی طرح مستقل ہر زاویہ سے نظر رکھ سکے گی۔جیش رنجن صاحب نے لکھا کہ تلنگانہ میں’سمگرم‘ کے نام سے اسی طرح کا سسٹم پہلے ہی سے نافذ العمل ہے۔ یہ ایک ایسا نظام جس کے ذریعہ سے ریاست کے ۳ کروڑ عوام کی ساری معلومات، ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اسی قسم کے سسٹم کی پیشکش تلنگانہ نے مرکز کو ایسے وقت کی جب کہ سپریم کورٹ نے فرد کی ذاتی معلومات کے سلسلے میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔
تلنگانہ کا ’سمگرم‘ پروجیکٹ مودی حکومت کی ’سوشل رجسٹری‘ کا ایک عملی نمونہ ہے جس کے ذریعے سے ریاست کے باشندوں کی مستقل نگرانی کی جا رہی ہے۔تشکیل تلنگانہ کے فوراً بعد ’انٹیگریٹڈ سروے‘یعنی ہمہ گیر گھریلو سروے کیا گیا۔ اس سروے میں ریاست میں مقیم تمام افراد کا ڈیٹا جمع کیا گیا جس کے لیے ریاستی حکومت نے ایک دن کی عام تعطیل بھی دی تھی۔ اس سروے کا مقصد دراصل عوام کی معاشی حالت کو بہتر بنانے اور غربت کے خاتمے کے لیے بنائی جانے والی اسکیموں کے بہتر نفاذ کے لیے معلومات کی فراہمی تھی۔اسی سروے کے تحت حاصل شدہ ڈیٹا کی بنیاد پر سمگرم پروجیکٹ تیار کیا گیا۔ مزید براں اس ڈیٹا کا استعمال اسمارٹ گورننس کے نام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسے پولیس، انٹیلی جنس ایجنسیوں وغیرہ کو بھی دے دیا گیا ہے۔ یہ ایک انتہائی بد دیانتی کی بات ہے کہ ایک مقصد کے لیے حاصل کیا ہوا ڈیٹا کئی دوسری ضروریات کے لیے باشندوں کی اجازت اور اطلاع کے بغیر استعمال میں لایا جا رہا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس ڈیٹا کا بے جا اور غلط استعمال ہو؟ یقیناً اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس کا بے جا اور غلط استعمال ہوگا اور ایسی اطلاعات ہیں کہ اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔
سمگرم پروجیکٹ کے ایک عہدیدار نے ہف پوسٹ انڈیا کو بتایا کہ یہ پانچ طرح سے کام کرتا ہے اور ان پانچ ذرائع سے اپنا تعلق قائم کرلیتا ہے: والدین، بچے، بہن بھائی، بیوی اور دیگر رشتہ دار۔ اگر ان میں سے کسی ایک پر بھی کلک کریں تو اس کی اور اس سے متعلق افراد کی ساری تفصیلات اسکرین پر نمودار ہوجاتی ہیں جیسے وہ کہاں رہتا ہے وہ کون سی گاڑی استعمال کرتا ہے وہ کن کن سے بات کرتا ہے بینک میں اس کی کتنی رقم جمع ہے، اس کے پاس کتنے زیورات ہیں، اس کی ملکیت میں کتنی جائیدادیں ہیں، وہ کن کن سے ملتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ سابق اقتصادی مشیر مرکزی وزارت برائے دہی ترقی مسٹر منورنجن کمار نے ہف پوسٹ انڈیا سے گفتگو کے دوران اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ مجوزہ سوشل رجسٹری کے ڈیٹا کا بڑے پیمانے پر غلط استعمال ہوگا۔ ہم اس وقت ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں حکومت ہم پر 360 ڈگری نگاہ رکھی ہوئی ہے۔ تلنگانہ کا سمگرم پروجیکٹ اور مرکزی حکومت کا ’سوشل رجسٹری‘ اسی کی مثالیں ہیں۔ بھارت جیسے ملک میں جہاں حقِ رازداری کا مضبوط قانون موجود نہیں ہے، مختلف اداروں سے جمع شدہ انفرادی معلومات پر مشتمل ڈیٹا کا استعمال اور اپنے شہریوں کا 360 ڈگری پروفائل تشکیل دینا کسی صورت میں صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں ملک کے باشعور افراد اور سماجی تنظیموں کو آگے آنا چاہیے اور اس ڈیٹا کے غلط استعمال کے امکانات کو روکنے اور فرد کے حقِ رازداری کے تحفظ کے سلسلے میں مضبوط قانون بنانے کا حکومت سے مطالبہ کرنا چاہیے۔
یہ ایک انتہائی بد دیانتی کی بات ہے کہ ایک مقصد کے لیے حاصل کیا ہوا ڈیٹا کئی دوسری ضروریات کے لیے باشندوں کی اجازت اور اطلاع کے بغیر استعمال میں لایا جا رہا ہے۔