حجر اسود:جنت سے آيا ہوا پتھر، تاريخ بيک نظر
(دعوت نيوز ڈيسک)
گزشتہ دنوں حجر اسود کي صفائي کا کام مکمل ہوا ہے۔ سوشل ميڈيا ميں يہ تصاوير کافي وائرل بھي ہوئيں۔ حجر اسود کي صفائي سالانہ تين سے چار بار کي جاتي ہے۔ يہاں کے ايک خاندان کو پچھلے سو سال سے حجر اسود کي صفائي کا اعزاز حاصل ہے۔ حجر اسود کا ذکر چل پڑا ہے تو ہم قارئين کے ليے اس سلسلے ميں مزيد کچھ معلومات پيشکرتے ہيں۔
حجر اسود عربي زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ حجر عربي ميں پتھر کو کہتے ہيں اور اسود سياہ اور کالے رنگ کے ليے بولا جاتا ہے۔ حجر اسود وہ سياہ پتھر ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقي ديوار ميں نصب ہے۔ اس وقت يہ تين بڑے اور مختلف شکلوں کے کئي چھوٹے ٹکڑوں پر مشتمل ہے۔ يہ ٹکڑے اندازاً ڈھائي فٹ قطر کے دائرے ميں جڑے ہوئے ہيں جن کے گرد چاندي کا خول بنا ہوا ہے۔ جو مسلمان حج يا عمرے کے ليے جاتے ہيں ان کے ليے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجر اسود کو بوسہ ديں۔ اگر ہجوم زيادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھي بوسہ ديا جا سکتا ہے۔ اسلامي روايات کے مطابق جب حضرت ابراہيم عليہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعيل عليہ السلام خانہ کعبہ کي تعمير کر رہے تھے۔ تو حضرت جبرئيل عليہ السلام نے يہ پتھر جنت سے لا کر ديا جسے حضرت ابراہيم عليہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے ديوار کعبہ ميں نصب کيا۔ 606ء ميں جب رسول اللہ ﷺ کي عمر 35 سال تھي سيلاب نے کعبے کي عمارت کو سخت نقصان پہنچايا اور قريش نے اس کي دوبارہ تعمير کي ليکن جب حجر اسود رکھنے کا موقع آيا تو قبائل ميں جھگڑا ہوگيا۔ ہر قبيلے کي يہ خواہش تھي کہ يہ سعادت اسے ہي نصيب ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے اس جھگڑے کو طے کرنے کے ليے يہ طريقہ اختيار کيا کہ حجر اسود کو ايک چادر ميں رکھا اور تمام سرداران قبائل سے کہا کہ وہ چادر کے کونے پکڑ کر اٹھائيں۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھايا اور جب چادر اس مقام پر پہنچي جہاں اس کو رکھا جانا تھا تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو ديوار کعبہ ميں نصب کر ديا۔ دور جاہليت ميں ايک بار کعبے کو خوشبو کي دھوني دي گئي تو غلاف کعبہ کو آگ لگ گئي جس سے حجر اسود بھي جھلس گيا۔ 64ھ ميں حضرت عبداللہ بن زبير اور اموي فوج کے درميان لڑائي ميں ايک بار پھر خوفناک آگ سے حجر اسود کے تين ٹکڑے ہوگئے۔ عبداللہ بن زبير نے چاندي کے موٹے خول ميں ان ٹکڑوں کو محفوظ کر کے خانہ کعبہ کي ديوار ميں نصب کر ديا۔ 180ھ ميں خليفہ ہارون الرشيد نے حجر اسود کے ان ٹکڑوں ميں سوراخ کروا کر چاندي سے مربوط کر ديا۔ 317 ھ ميں مکہ پر قرامطہ قابض ہوگئے انہوں نے حرم ميں خون بہايا بہت سے حجاج شہيد ہوئے۔ ان کا مقصد ميزاب رحمت [سونے کا پرنالہ] مقام ابراہيم اور حجر اسود کو چوري کرنا تھا۔ ابو طاہر کے حکم سے جعفر بن معمار نے 14 ذي الحج 317 ھ کو کدال مار کر حجراسود کو اکھاڑ ليا اور بحرين لے گيا۔ تقريباً 22 سال تک رکن اسود پر جگہ خالي رہي اور حجاج صرف خالي جگہ کو ہاتھ لگا کر بوسہ کرتے تھے۔ بالآخر 10 ذي الحج 339ھ کو بحرين سے سبز بن قرامطي حجراسود کو واپس لايا اور دوبارہ خانہ کعبہ کي زينت بنايا۔ 368ھ ميں ايک رومي نے حجر اسود کو چرانے کي کوشش کي ليکن پکڑا گيا۔ 414ھ ميں ايک عجمي نے کدال سے حجر اسود پر حملہ کر ديا۔ 1315ھ ميں ايک افغاني نے حجر اسود کا کچھ حصہ توڑ ليا۔ ايک مرتبہ حضرت عمر رضي اللہ تعالٰي عنہ حجر اسود کے پاس تشريف لائے اور اسے بوسہ دے کر کہنے لگے: مجھے يہ علم ہے کہ تو ايک پتھر ہے نہ تو نفع دے سکتا اور نہ ہي نقصان پہنچا سکتا ہے، اگر ميں نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ ديکھا ہوتا تو ميں بھي تجھے نہ چومتا۔ ابن عمر رضي اللہ عنہما بيان کرتے ہيں کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اس کا چھونا گناہوں کا کفارہ ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو حج اور عمرہ کرنے کي توفيق عطا فرمائے اس مقدس پتھر کا بوسہ لينا اور چومنا نصيب فرمائے آمين۔