حجاب پر ہندوتوا کی یلغار
صدائے اللہ اکبر: ایمان اور دینی شناختپر سمجھوتہ نہ کرنے کا اعلان
پروفیسر ایاز احمد اصلاحی، لکھنو
حکومت وعدلیہ کا مشکوک رویہ‘ ملک و ملت کے لیے بیداری کا پیغام
بھارت میں میڈیا کی آزادی، سول سوسائٹی اور اختلاف کے لیے فضا تنگ۔ سویڈن کے ادارے کی رپورٹ
سویڈن کے وی- ڈم انسٹیٹوٹ (The Swedish V-Dem Institutes) نے 2020 میں اپنی روداد جمہوریت ( Democracy Report) میں دنیا میں جمہوریت کی ڈوبتی امیدوں پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے جو کچھ ہندوستان کے بارے میں لکھا ہے وہ ایک بہت زیادہ چونکانے والی رپورٹ یے۔ یہ رپورٹ ہمیں متنبہ کرتے ہوئے ہندوستان کے بارے میں کہتی ہے’’ انڈیا ان ممالک میں نمایاں ہے جو اپنا جمہوری مقام کھوتے جارہے ہیں اور یہ محض اس وجہ سے ہے کہ یہاں میڈیا کی آزادی، سول سوسائٹی اور اختلاف کے لیے فضا تنگ ہوتی جارہی ہے‘‘۔
اس تجزیہ میں ہندوستان کے آئینی و جمہوری ڈھانچے کے متزلزل ہونے کے ثبوت میں جن چیزوں کو پیش کیا گیا ہے وہ تو محض ظاہری علامتیں ہیں، میں چاہتا ہوں ان سطور میں اس بات کی نشاندہی کی جائے کہ ہندوستان کے نادان حکمرانوں کے ہاتھوں یہ ملک کہاں کھڑا ہے اور وہ کون سی حقیقی بنیادیں ہیں جن کے کمزور ہونے یا ڈھے جانے کے سبب ہمارا سماج ہی نہیں بلکہ پورا ملک غیر مستحکم ہوتا جارہا ہے۔
یاد رہے دنیا کا کوئی ملک صرف دو بڑی بنیادوں پر قائم و باقی رہتا ہے، ایک تو ایسی انفرادی آزادی، جو اجتماعیت اور اجتماعی ازادی کے اصول نیز بنیادی انسانی حقوق سے متصادم نہ ہو، اس میں مذہبی و تہذیبی ازادی بھی شامل ہے، بلکہ اس آزادی کو بوجوہ ترجیح حاصل ہے اس لیے کہ اس کا انسان کے مذہبی جذبات سے انتہائی گہرا تعلق ہوتا ہے۔ دوسرے حق مساوات ہے، یعنی قانون مساوات کا ایسا نفاذ جو ملک کے تمام شہریوں کو بحیثیت شہری مساوی حقوق فراہم کرے، اس میں تمام سماجی حقوق شامل ہیں۔ مجموعی طور سے ہمارے باہمی سماجی تعاون (سوشل کنٹریکٹ) اور اجتماعی مفاہمت کی اساس انہیں دو ستونوں پر قائم ہے اور انسان اس زمین پر ایک سماجی حیوان کے طور سے اسی کے سہارے زندہ ہے، اسی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمارے ملک کے دستور میں ان دونوں اساسی حقوق کے تحفظ کی بھر پور ضمانت دی گئی ہے۔ جس ملک میں ان دو بنیادوں کو حکومتی یا غیر حکومتی سطح پر کمزور کرنے کی کوشش ہوتی ہے وہاں کے قومی و اجتماعی ڈھانچہ کے منتشر یا منہدم ہونے سے بچانا بہت مشکل ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قومی و ملکی اتحاد کے یہ دونوں ایسے ستون ہیں جو کسی ملک کی بقاء و سلامتی ہی نہیں اس کی معاشی و تمدنی ترقی و خوش حالی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں اور جب یہ منہدم ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں اضطراب، بے چینی، انتشار، جبر و استکبار، فساد و بد امنی، طبقاتی کشمکش اور بالآخر ایک مہیب خانہ جنگی جیسی چیزیں اس ملک کے عوام کی تقدیر بن جاتی ہیں۔ اس حالت میں نہ تو اسے قوم پرستی کے کھوکھلے نعرے بچا سکتے ہیں اور نہ قدیم تہذیب و ثقافت کے حوالے۔ اس سے بچنے کا صرف دو ہی طریقہ ہے ایک تو ان دونوں ستونوں کی ہر حال میں حفاظت کی جائے اور دوسرے انہیں نقصان پہنچانے والی طاقتوں کو، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حکومت سے باہر، کسی بھی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے، بلکہ آگے بڑھ کر انہیں ہر سطح پر شکست سے دوچار کیا جائے۔
بدقسمتی سے ان دنوں ہندوستان میں جمہوریت اور بنیادی حقوق کی ضمانت بننے والی ان دونوں بنیادوں پر شر پسند عناصر سب سے زیادہ تیشہ چلا رہے ہیں، جو لوگ حالات سے باخبر ہیں وہ یہ کہنے میں کسی تردد سے کام نہیں لیں گے کہ نتائج سے بے پروا جارح و فسطائی ہندوتو کے حامل جو گروہ اس تخریبی کام میں سب سے زیادہ پیش پیش ہیں وہ سب کم و بیش آر ایس ایس اسکول کے پروردہ ہیں جو ہندوستان کو ایک ہندو استعمار میں تبدیل کرنے کے لیے ستر سالوں سے مستقل طور سے سرگرم ہے اور اس وقت اسی کے ایک سیاسی گروپ، بی جے پی، کے ہاتھوں میں ملکی اقتدار کی باگ ڈور ہے۔ موجودہ حکومت سرکاری سطح پر یہ کام لو جہاد پالیسی، شہریت قانون اور تبدیلی مذہب قانون اور حجاب اور دیگر اقلیتوں کے مذہبی شعار کے خلاف صادر کیے جانے والے حکم ناموں کی شکل میں بخوبی کر رہی ہے۔ جب کہ دوسری طرف ہندوتوا کے نام سے اپنا سیاسی وسماجی الو سیدھا کرنے والے مختلف سنگھی گروہ ہیں جو مسلم دشمنی میں ملک کے بنیادی ڈھانچے کو کمزور کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ ان کے رہنما اپنی اپنی قوت اور بساط بھر خود کو دولت و اقتدار کی چھوٹی یا بڑی کرسی تک پہنچانے کے لیے مسلم دشمنی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ آسام سے لیکر یوپی تک سنگھ پریوار کے وزرائے اعلی اور اس کے ہر سیاسی اور مذہبی لیڈر کی کارکردگی کا خلاصہ (پرفارمنس ایپریزل) اس بات پر منحصر ہے کہ مسلمانوں سے نفرت و عداوت پھیلانے میں وہ کس حد تک کامیاب ہوا ہے۔ اس طرح وہ یہ ’فریضہ‘ عوامی سطح پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم ، ہجومی دہشتگردی اور فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں ایک مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ برابر ادا کر رہے ہیں اور حقیقت سے ناآشنا نوجوان ہندو طبقہ "ہندو قومیت” اور ہندوپاک رسہ کشی کے نام پر خاص طور سے سنگھ پریوار کا آلہ کار بنتا جارہا ہے اور انہیں معلوم نہیں ہے کہ وہ کس بھیانک کھائی کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔
بھارت میں سیکولر اور معتدل سوچ رکھنے والےانصاف پسند سیاسی اور سماجی حلقے، خصوصا یہاں کی اقلیتیں ملک کے مستقبل کو لیکر سخت تشویش میں مبتلا ہیں، ان کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں جوکچھ ہورہا ہے، اگر اس پر قدغن نہیں لگائی گئی تو ملک کو ان خطرناک نتائج سے کوئی نہیں بچا سکتا جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے اور بے شک ان نتائج میں سماجی بد امنی اور خانہ جنگی کی شمولیت کے امکان سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا اور جسے تصورمیں بھی کوئی پسند نہیں کرے گا۔ لیکن بہرحال یہ ایک ایسا سچ ہے جسے قصدا نظر انداز کرنے کا مشورہ بھی کوئی بھی عقلمند انسان نہیں دینا چاہے گا۔ ان نتائج کے ظاہر ہونے سے روکنے کے لیے اس سچائی کا وقت سے پہلے ادراک ہی نہیں تدارک بھی ضروری ہے، یہ وہی سچائی ہے جس کی طرف دوسروں کے علاوہ ملک کے معروف ادا کار نصیر الدین شاہ نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں واضح طور سے اشارہ کیا تھا کہ جو لوگ جبر و ظلم کے سہارے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں وہ یہ جان لیں کہ ایسا ہونا تو کبھی ممکن نہیں ہوگا البتہ یہ ملک ایک ایسی خانہ جنگی کی لپیٹ میں ضرور آجائے گا جس میں یہاں کا مسلمان اپنے وجود کی بقا کے لیے ہر داؤ کھیلنا پسند کرے گا۔
اس سال فروری کے دوسرے ہفتے میں ریاست کرناٹک کے بعض شہروں میں حجاب کے خلاف بی جے پی حکومت، وہاں کی بعض کالج انتظامیہ اور بھگوا دھاری نوجوانوں کے ذریعہ جو ایک منصوبہ بند اور نفرت انگیز مہم چھیڑی گئی اور جس طرح سالوں سے حجاب پہن کر کالج جانے والی لڑکیوں کو کالج انتظامیہ کے ذریعہ حجاب کے ساتھ کلاس روم میں داخل ہونے سے اچانک روک دیا گیا وہ اس بات کی طرف ایک واضح اشارہ ہے کہ ہندوستان کی آئینی بنیادیں تیزی سے کمزور ہورہی ہیں اور وہ آر ایس ایس کے ایجنڈے کے مطابق حکومت کرنے والے حکمرانوں کے ہاتھوں بالکل محفوظ نہیں رہ گیا ہے۔ اس وقت حال یہ ہے کہ بی جے پی کی قیادت میں مسلم دشمن قوتیں حجاب کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، کرناٹک کی بی جے پی/ آر ایس ایس حکومت کے ایک تازہ حکم نامہ کی بنیاد پر نوجوان مسلم طالبات کا حجاب انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے ان کے کالجوں کے باہر جبرا اتارا جارہا ہے، حجاب نہ اتارنے والی طالبات کو توہین آمیز سلوک کے ساتھ گھر واپس جانے کا حکم دیا جاتا ہے، اس کے علاوہ سڑکوں اور گلیوں میں ان انتہا پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے نوجوان ’’جے شری رام‘‘ کے نعروں کے ساتھ انہیں جگہ جگہ ہراساں کر رہے ہیں۔ اس پر مستزاد کرناٹک ہائی کورٹ کا رویہ ہے جس نے وکلاء کے تمام مطالبات اور دلائل کی ان سنی کرتے ہوئےپہلے سے حجاب پہن کر کالج آنے والی طالبات کو کوئی راحت دینے سے انکار کردیا اور یہ کہ دیا ہے کہ انہیں عدالت کے آخری حکم تک حکومت اور کالج انتظامیہ کے احکام کی ہر حال میں پیروی کرنی پڑے گی، اس طرح گویا عدالت نے بغیر کسی معقول دلیل کے مسلم طالبات کا حجاب اتروانے میں کم سے کم اس وقت تک بی جے پی حکومت و انتظامیہ کا ساتھ دیا ہے اور ان کے منشا کی تکمیل میں ان کی مدد کی ہے، اس نے اپنے عبوری فیصلے ہی نہیں اپنے ریمارکس سے بھی آئین ہند میں موجود مذہبی آزادی کی دفعات کو کلیتا نظر انداز کرکے بالواسطہ طور سے ان زعفرانی فسادیوں کا ہاتھ مضبوط کیا ہے جنہوں نے بھگوا رومال لہرا کر کالج اور کالج کے باہر حجاب پوش مسلم طالبات کو کھلے عام ہراساں کیا اور پورے معاملے کو بڑی مکاری سے اپنے آقائوں کے اشارے پر فرقہ وارانہ رنگ دے دیا ہے تاکہ امن و قانون (پبلک آرڈر) کے نام پر حجاب پر پابندی کی راہ آسانی سے ہموار کی جاسکے اور مسلمانوں کو ہندوتوا کے رنگ اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے ۔ یہ تحریر لکھے جانے تک عدالت میں سنوائی جاری ہے اور پٹشنر (مسلم طالبات) کے مطالبے کے حق میں دلائل کے انبار لگادیے گئے ہیں اور کہنے والے، خصوصا قانون کے ماہرین تو یہ بھی کہ رہے ہیں کہ دستیاب دلائل اور نظائر کے ہوتے ہوئے حجاب کے خلاف فیصلہ دینا کرناٹک ہائی کورٹ کے لیے آسان نہیں ہے، لیکن اس کا موجودہ انداز اس توقع کے بالکل بر عکس ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ حالیہ دنوں میں ہندوستانی عدلیہ کا عمومی رویہ بھی، جن پر اقلیتوں کی اخری امیدیں ٹکی ہوتی تھیں، اب یہاں کی سب سے بڑی اقلیت کے لیے مایوس کن ہوتا جارہا ہے۔ حجاب تنازعہ کی سماعت کے دوسرے دن جب وکیل استغاثہ نے یہ کہا کہ عورتوں کا باحجاب رہنا قرآن مقدس کے حکم کے اتباع میں ہے، یہ کوئی فیشن یا بلاوجہ کی ضد نہیں ہے تو تین میں سے ایک جج نے فوراً پوچھا کہ ’’کیا قرآن کی ہر بات واجب العمل "Essential” ہے، گو کہ وکیل نے یہ کہہ کر اس سوال کو نظر انداز کردیا کہ اس وسیع تناظر میں قرآنی ہدایات کا جائزہ اس کے دائرہ بحث سے باہر ہے، لیکن جج کے اس سوال میں، مستقبل کے تئیں مسلمانوں کی تشویش کے گونا گوں پہلو اور بی جے پی آر ایس ایس کے دور حکومت میں ان کے لیے بہت سے تشویشناک سوالات کا عندیہ مضمر ہے اس لیے کہ یہ سوال اس طویل کہانی کا جز محسوس ہوتا ہے جو ہندوستان میں مسلم پرسنل لاء کے خلاف ایک مدت سے رچی جارہی ہے اور اس کا سر عنوان ہے بھارت میں تہذیبی تصادم کا ایک نیا دنگل اور جس کا مقصد ہے مسلمانوں کے دینی و تہذیبی تشخص کا ہندوتو کی تہذیبی جارحیت کی بھینٹ چڑھانا ۔ اس خاص ماحول میں سرسری طور سے بھی غور کرنے والا سمجھ سکتا ہے کہ تین طلاق کے مسئلہ سے حجاب تنازعہ تک یہاں یونی فارم سول کوڈ کی راہ ہموار کرنے کے لیے اسلامی شریعت کی سرکاری اور من مانی تدوین کا جو توہین آمیز سلسلہ چل رہا ہے وہ اتفاقی واقعات کی کڑی نہیں بلکہ ایک مذموم اور منصوبہ بند پروجیکٹ کا حصہ ہے جس کا نام ہے ’’خالص ہندو نسل‘‘ کے ارتقا کے لیے مسلمانوں کا ’’نسلی صفایا‘‘ اور جس کی تفصیل کہیں اور نہیں بلکہ آر ایس ایس کے اصل معماروں ساورکر اور گولوالکر کی کتابوں میں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ہے ہندوستان کا حال جو اگر تبدیل نہ ہوا تو مستقبل میں ہماری عدلیہ کا بچا کھچا انصاف بھی مسلمانوں کے لیے ماضی کی داستان بن جائے گا اور وہ بھی ہندوتوا کے اس پروجیکٹ کی ایک معاون بن کر رہ جائے گی۔
ان حالات میں ہمیں سب سے زیادہ افسوس ہے عدالت کے ناقابل فہم بلکہ نا معقول رویے پر، جس نے اتنے حساس مسئلے پر فیصلہ دیتے ہوئے مختلف حیلوں حوالوں سے مسلم طالبات کو کالج کے یونیفارم کوڈ پر عمل کرنے کی ہدایت دینی تو ضروری سمجھی لیکن اس کے ججوں نے نہ تو مسکان خان جیسی طالبات کو بھاجپائی غنڈوں سے حفاظت کے تعلق سے دو لفظ کہنے کی ضرورت محسوس کی، نہ ہی مسلم لڑکیوں کی تعلیم اور تمام شہریوں کے مساوی حقوق کے تعلق سے صوبائی حکومت کو کوئی ہدایت دینی ضروری سمجھی اور نہ ہی سڑکوں پر نعرے لگاتے اور دندناتے پھر رہے ان بزدل بھگوا غنڈوں پر لگام کسنے کے تعلق سے کچھ کہا جو ان شہروں میں کالج جانے والی لڑکیوں کی عزت و ناموس کے لیے مستقل خطرہ بنے یوئے ہیں۔ حالانکہ ان غنڈوں کا دہشت گردانہ انداز اور حکومت و انتظامیہ کی کھلی جانبداریوں نے اس ملک کا سر پوری دنیا کے سامنے ایک بار پھر شرم سے جھکا دیا ہے اور امریکہ سے عرب امارات تک ہر طرف ان کے رویے کی مذمت کی جارہی اور بھگوا دھاری نوجوانوں کے نعروں اور تقریروں کو انتہائی اشتعال انگیز اور تشویشناک قرار دیا جا رہا ہے، صوبائی حکومت سے جڑے رہنمائوں کے بیانات میں مبینہ طور پر مسلمانوں کو ایک بار پھر ’’پاکستان جانے‘‘ کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔ یہ ٹھیک ویسے ہی جس طرح گزشتہ سال دسمبر کے دوسرے ہفتے میں ہریدوار میں سادھووں کی ایک دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف کھلے عام ہتھیار اٹھانے اور ان کی نسلی’صفائی‘ کی اپیل کی گئی تھی، لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہاں انصاف کا دوہرا معیار بڑھتا جارہا ہے، ایک ہی قسم کے معاملات میں سادھوی پرگیہ جیسے دہشت گردی کے کھلے مجرم رہا ہو کر پارلیمنٹ کی ممبری کا حلف اٹھاتے ہیں اور دوسری طرف محض اشتعال انگیز تقریروں یا بیانات کی وجہ سے گرفتار مسلم نوجوانوں کو ضمانت دینے سے بار بار منع کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ انہیں غیر ثابت شدہ الزامات میں ججوں کی طرف سے پھانسی کی سزا اتنی آسانی سے سنا دی جاتی ہے جیسے وہ محلے کے کسی چور پر ہرجانہ بھرنے کی سزا سنا رہے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی ملک کی حکومت پر جب فسطائیت کا رنگ چڑھتا ہے تو جمہوری ادارے کچھ اسی طرح جانب دار اور بے رحم بن جاتے ہیں ۔ کیا یہ جائے ماتم نہیں ہے کہ ہماری عدالتیں سب کچھ جاننے سمجھنے کے باوجود ان حالات سےچشم پوشی کرکے ایسے فیصلے دے رہی ہیں جو اس ملک کی بنیادوں کو کمزور کرنے والی فسطائی طاقتوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہے ہیں اور وہ حکومت اور عدلیہ دونوں کی گرفت سے بالکل بے خوف ہوکر ملک میں انتشار و فساد کا سبب بن رہے ہیں؟
اس صورت حال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے حکومت تو 2014 سے مسلسل اپنے فسطائی ایجنڈوں کی تکمیل میں لگی ہی ہے لیکن اب اس ملک کی عدالتیں بھی دن بدن سی بی آئی اور الکشن کمیشن کی طرح آرایس ایس- بی جے پی کے مزاج اور ہدف سے خود کو ہم آہنگ کرتی جارہی ہے ۔ عدلیہ کی آزادی اور اس آزادی کو در پیش خطرات کی بات ہم اکثر کہتے اور سنتے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ ہمارے سماج اور جمہوریت کو جمہوری تماشہ سے منتخب ہوکر آنے والے لیڈروں سے ہی سب سے زیادہ خطرہ ہے جو وہاں بیٹھ کر دستور سے زیادہ اپنے خفیہ مذہبی و فرقہ پرستانہ ایجنڈے کا تقاضا پورا کرنے میں مصروف ہیں ، فوجی جنرل اور خارجی عناصر نہیں بلکہ ” یہ منتخب رہنما ہی ہیں جو جمہوری اداروں کو سب سے زیادہ کمزور اور خستہ حال کرتے ہیں” ۔ ایسے حکمرانوں کے تعلق سے Steven Levitsky and Daniel Ziblatt نے اپنی کتاب How Democracies Die میں اس پہلو پر بڑے مدلل انداز سے بحث کی ہے اور اس کے خطرات سے بھی ہمیں آگاہ کیا ہے۔ آج کل ہندوستان کے سکڑتے عدالتی نظام کے تعلق سے بھی یہی بات کہی جا سکتی ہے۔ بے شک ہندوستان کی موجودہ عدالتی نظام کو کمزور کرنے، اسے عوام کی نظروں میں غیر معتبر بنانے اور اس کی آزادی کو ختم کرنے کا سبب کوئی اور نہیں بلکہ عدلیہ کے اعلی حضرات ہی بن رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سابق جج، جسٹس یشونت وشنو چندر چوڑ (12 July 1920۔ 14 July 2008) نے1985میں ایک جج کی حیثیت میں اس ناقابل قبول تبدیلی سے متعلق اپنے مشاہدات و تجربات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ عدلیہ کی خودمختارانہ حیثیت کو باہر کے مقابلے میں اس کے اندر سے زیادہ خطرہ ہے‘‘۔ افسوس کہ عدلیہ کے حالیہ فیصلوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس خطرے کا حجم بجائے گھٹنے کے روزبروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
میں حجاب کے موجودہ تنازعہ کو اسی تناظر میں دیکھتا ہوں، یہ نہ تو محض ووٹ کی سیاست کا مسئلہ ہے اور نہ ہی اس کا سرا محض رد عمل کے جال میں مسلم قوم کو الجھانے جیسی کسی چال تک محدود ہے، بلکہ یہ سب ہندوتو کے طویل المیعاد منصوبے کا حصہ ہے اور لگتا یہی ہے کہ ہندوتو نامی فسطائیت ملک کے بنیادی جمہوری اداروں، الیکشن کمیشن، عدلیہ اور پولیس و انتظامیہ وغیرہ، کی مدد سے اب اس مرحلے میں داخل ہوگئی ہے جہاں اس منصوبے کی تکمیل کے عملی اقدامات کو عیاں رکھنے میں بھی اسے کسی مشکل کا سامنا نہیں ہے۔ در اصل کسی ملک میں فسطائیت کے پیٹ سے جنم لینے والی انارکی کا یہی وہ سب سے خطرناک مرحلہ ہوتا ہے جب مظلوم و مقہور طبقات بالکل حاشیے سے لگ جاتے ہیں اور دوسری طرف ان حالات کی وجہ سے داخلی بد امنی و خانہ جنگی کی صورت میں وہ نتائج بھی تیزی سے ظاہر ہونے لگتے ہیں جو ملک میں مذہبی آزادی اور انصاف کی بنیادوں کے تیزی سے منہدم ہونے کے سبب پیدا ہوتے ہیں اور ان کی زد ملکی یکجہتی و سالمیت پر براہ راست پڑتی ہے۔
جہاں تک کرناٹک کی مسلم طلبہ و طالبات کا معاملہ ہے انہوں نے اور پورے ملک کے مسلمانوں نے اب تک اپنے ہر طرز عمل سے صبر اور شائستگی کا ہی مظاہرہ کیا ہے، ملک کی تاریخ ان مسلم طالبات کا جری و بیباک کردار کبھی فراموش نہیں کر سکتی جو ہندوتوا کے پروردہ ان غنڈوں کے سامنے پوری ثابت قدمی سے ڈٹی رہیں جو حکومت و انتظامیہ کی شہ پر ہر جگہ غراتے پھر رہے ہیں، انہوں نے اپنی مومنانہ ہمت و بے خوفی سے یہ ثابت کردیا ہے کہ جب سوال اپنے حق اور اپنے دینی وجود کو بچانے کا ہوگا تو وہ بھی خاموش نہیں بیٹھیں گی بلکہ مردوں کے شانہ بشانہ ہر دختر اسلام اپنے وجود کو باطل کے خلاف سراپا مورچہ بنا سکتی ہے اور فرض کی پکار پر ان کی خاموش غیرت موج تند بن کر نہنگوں کا نشیمن تہ و بالا کر سکتی ہے۔ ان بہادر بہنوں کو زعفرانی اندھیاں کسی مرحلے میں بھی متزلزل یا خاموش نہیں کرسکیں لیکن داد دیجیے ان کی سنجیدگی و شائستہ مزاجی کو کہ کہیں بھی نہ تو انہوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی اور نہ ہی غیر شریفانہ انداز اختیار کرکے زعفرانی دہشت گردوں کو انہیں کے انداز میں جواب دینے کی ضرورت محسوس کی۔ ملک کے دو گروہوں کے رویے میں اس واضح فرق کی وجہ اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ انہیں اب بھی یہ امید ہے کہ شاید حکومت و انتظامیہ کے لوگ جانب داری کا راستہ ترک کرکے ملک کی بہو بیٹیوں کی حفاظت میں اپنا دستوری فرض ادا کرنے کے لیے آگے آئیں۔ امید باقی رہے، ہم بھی اس کے حق میں ہیں لیکن اس امید میں نہ تو جدوجہد ترک کرنا مناسب ہے اور نہ ہی مظلوم طالبات کے لیے خاموش بیٹھنا صحیح تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ خاموش نہیں بیٹھیں بلکہ اپنے حق کے لیے سر سے کفن باندھ کر سراپا احتجاج بن گئیں اور ان کے حوصلے دیکھ کر دنیا کو ایک بار پھر یہ معلوم ہوگیا کہ جس نقاب کو عقل باختہ لوگوں کے ذریعہ فرسودگی و رجعت پسندی کی علامت بنا کر پیش کیا جاتا ہے وہی نقاب ایک سماجی انقلاب کی دستک بھی بن سکتا ہے اور جس ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا مسجدوں سے نمازیوں کو بلانے کے لیے پانچ وقت بلند ہوتی ہے وہی ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا باطل کی چیخ و پکار کا گلا بھی دبا سکتی ہے اور وقت آنے پر وہی "اللہ اکبر” کا نعرہ فسطائی طاقتوں کے وجود کو بارود بن کر خش و خاشاک کی طرح پھونک بھی سکتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ملک کے موجودہ حکمراں ہوش کے ناخن لیں اور نہ ہی مسلم طالبات کے چہروں سے حجاب اتروانے کے بارے میں سوچیں اور نہ ہی ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا کو دبانے کے لیے شازشیں کریں۔
آگے کیا حالات بنتے ہیں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے، البتہ شاہین باغ کے تاریخی احتجاج کی مانند، حجاب کی حمایت میں کرناٹک کی مسلم طالبات کا جرات مندانہ احتجاج پورے ملک کو یہ دوٹوک پیغام پہنچانے میں ضرور کامیاب ہوا ہے کہ جس طرح نقاب پہننا ان کے مذہب کا حکم اور ان کا بنیادی دستوری حق ہے اسی طرح اس حق پر کسی قسم کی دست درازی یا کسی اسلامی تہذیبی شعار پر ہندوتوا کی یلغار کا مقابلہ کرنا اور اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا بھی ان کا بنیادی حق ہے اور بی جے پی کا کوئی ایم ایل اے یا سیاسی رہنما یہ کہہ کر اس حق کو چھین نہیں سکتا اور نہ اس کے لیے کھڑے ہونے والوں کا حوصلہ توڑ سکتا ہے کہ جنہیں اپنی تہذیب و ثقافت عزیز ہے ’’وہ پاکستان جائیں‘‘۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ آج یا کل ایسے مسلم نوجوان جنہیں ہندوتوا نامی فسطائی عناصر بات بات پر پاکستان جانے کا مشورہ دیتے ہیں انہیں یہ پیغام دینے میں ضرور کامیاب ہوں گے: ’اب کے جو فیصلہ ہونا ہے یہیں پر ہوگا‘ اور یہ بھی کہ ’کروگے تنگ تو پھر جنگ لازماً ہوگی‘۔
نوشتہ دیوار کبھی بدلتا نہیں، اور آج کا نوشتہ دیوار یہ ہے کہ اس ملک کی موجودہ حکومت و انتظامیہ کے دلوں میں مسلمانوں کے تعلق سے بغض و عناد کی جڑیں کتنی ہی گہری ہوں، لیکن اگر حجاب کے حق میں اٹھی مسلم طالبات کی طاقتور آواز اور اس کے پیغام، نیز آر ایس ایس اسکول کی پیدا کردہ تہذیبی کشمکش سے ابھرے حالات کے اس بدلتے تیور کو انہوں نے قصدا نظر انداز کیا تو اس کا خمیازہ صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ ارباب اقتدار سمیت پورے ملک کو بھگتنا پڑے گا۔ اس لیے عدالتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت و انتظامیہ کا آلہ کار بننے کی بجائے وقت رہتے سب سے پہلے ہندوتوا کی شراب سے بی جے پی کے مد ہوش حکمرانوں کو ہوش میں لانے کا کام کریں اور ملک کی آئینی بنیادوں کی حفاظت میں اپنا بنیادی رول ادا کرنے میں کسی تساہلی یا عصبیت سے کام نہ لیں، اس لیے کہ اگر ان کی نظر میں کسی فرقے کی ’’آستھا‘‘ اتنی اہم ہے کہ وہ یہاں کی عدالت عظمی کے فیصلے اور انصاف کے تقاضے پر بھی پر غالب آ سکتی ہے تو انہیں جاننا چاہیے کہ اقلیتوں کا تہذیب و عقیدہ بھی اتنا ہی اہم و خاص ہے ، یہ نہ تو ایسی چراگاہ ہے جس پر حکومت و انتظامیہ جب چاہے منہ مارتی پھرے اور نہ وہ پیمائش زمین کے کاغذات اور چک بندی کے ایسے نقشہ کی طرح ہے جس میں گاؤں کے لوک پال کی طرح عدالتیں جب چاہیں اپنی پسند کی لکیریں کھینچتی رہیں۔ اس وقت یہ باتیں اس لیے کہنی پڑ رپی ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت، طلاق کے مسئلے میں مودی حکومت کی اسلامی شریعت میں مداخلت اور بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے یک طرفہ اور صریح جانب دارانہ فیصلے کی طرح حجاب کے اس مسئلے نے بھی ہمارے سامنے بہت سے نئے سوالات کھڑے کیے ہیں۔ جب حجاب کا معاملہ عدالت میں پیش ہوا تو حجاب کی حمایت میں درخواست دینے والےفریق کی جانب سے مقدمہ لڑنے والے سپریم کورٹ کے سنئیر وکیل دیودت کامت نے عدالت کوحجاب کے متعلق ضروری اسلامی معلومات فراہم کرتے ہوئے اس کے سامنے اس بات کی وضاحت کی کہ حجاب پہننا مسلم خواتین کی چوائس (اختیاری آزادی) نہیں بلکہ ان کا ایک مذہبی فریضہ ہے، اور یہ ہر مسلم عورت کا بنیادی اور مذہبی حق ہے جس میں مداخلت کرنے کا حکومت یا عدلیہ یا کسی دوسرے ادارے کو کوئی حق نہیں پہنچتا، یہ وہی بات ہے جسے نہ صرف اس ملک کا مسلمان بلکہ ہر انصاف پسند شہری ارباب اقتدار سے کہنا چاہے گا۔ حجاب کی حمایت میں کھڑے فریق سے عدالت نے بار بار پوچھا ہے کہ ’’کیا حجاب پہننا قرآن کا حکم ہے‘‘؟ اس کے جواب میں عدالت میں بار بار پوری وضاحت سے یہ کہا گیا اور عدالت سے باہر بھی پوری شدت سے یہ کہنا ضروری ہے کہ جی ہاں پردے کی پابندی ایک اسلامی قرآنی حکم ہے اور اسلامی تہذیب کا رکن خاص ہے، اور کرناٹک کی مسلم طالبات یا کسی دوسرے صوبے کی طالبات اور حکومت کا حکم نامہ یا عدالت کا فیصلہ جو بھی ہو مسلم عورتیں کسی بھی صورت میں اس حکم کے تقاضے سے جانتے بوجھتے دست بردار نہیں ہوسکتیں۔ مسلمانوں کو اپنے تمام ہم وطنوں کو ببانگ دہل یہ بتانے کا وقت بھی آگیا ہے کہ حجاب پر مسلمانوں یا مسلم طالبات کے اصرار کی وجہ بھگوا دھاری نوجوانوں کی طرح ان کے اندر پلنے والی کوئی فرقہ پرست سوچ نہیں بلکہ اسلامی شریعت کے ایک حکم کی پیروی کے سوا کچھ نہیں ہے اس لیے اس حکم میں مداخلت کا حق حکومت، عدلیہ یا کسی بھی ادارے کو مسلمان کبھی نہیں دے سکتے۔ اس کے علاوہ دنیا کویہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مسلم قوم کا اپنے مذہبی تشخص پر عمل کرنا کسی بھی طور سے امن و قانون کے لیے خطرہ نہیں ہے کہ حکومتیں بلاوجہ ان کے تہذیبی شعار پر پابندی کا فیصلہ کرنے لگیں بلکہ وہ بھی بس دیگر قوموں کی طرح اپنی پسند سے اپنے مکمل تہذیبی وجود کے ساتھ اس ملک میں جینا چاہتی ہے۔ ان حالات میں حکومت و عدلیہ کو خود انہیں تشویش میں ڈالنے کی بجائے اپنی توجہ ہندوتوا کے ایسے انتہاپسند گروہوں کو قابو میں رکھنے پر صرف کرنی چاہیے جو اسلاموفوبیا (مسلمانوں سے نفرت کی بیماری) میں گرفتار ہیں اور اپنی مذہبی منافرت سے ہر دن امن و قانون کے لیے خطرہ بنتے ہیں ۔
جب کرناٹک ہائی کورٹ کا عبوری فیصلہ آیا تو اندازہ ہوا کہ ججوں پر نہ شرعی احکام کے تقاضوں نے کوئی اثر ڈالا اور نہ ان کے فیصلے میں مذہبی حقوق کی ضامن آئینی دفعات کی کوئی رعایت دکھائی دی، پھر آخر ان کے فیصلوں میں کن چیزوں کی رعایت ہوتی ہے، ’’آستھا‘‘کی یا حکومتوں کی خواہش کی؟ موجودہ صورت حال میں اس سوال کا صحیح جواب ہمیں شاید ہی مل سکے لیکن ان حالات میں حکومتی حکمناموں اور عدالتی فیصلوں کے علی الرغم اپنے دینی و تہذیبی وجود کی بقا کے لیے مورچہ بند ہونا مسلمانوں کے لیے ایک ’’ جذباتی‘‘ مسئلہ نہیں بلکہ ادائے فرض ہے اور مسئلہ صرف مسجد و محراب اور حجاب و جلباب کا نہیں ہے بلکہ یہ ان کے دینی و تہذیبی وجود کے بقاء و تحفظ کا سوال ہے، اور انہیں یہ حق ہے کہ وہ پورے ملک پر یہ واضح کردیں کہ تہذیبی وجود کے مسئلے میں ایک حد کے بعد ان کے لیے کوئی سمجھوتا کرنا یا ناانصافیاں برداشت کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ ایک ایسی تہذیبی کشمکش ہے جس میں ایک طاغوتی و حیوانی تہذیب انسانی تہذیب کو نگل جانا چاہتی ہے اور سخت جان اسلامی تہذیب اس کے راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے یہ صرف مسلمانوں پر ہی نہیں اہل ملک پر بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنی فرقہ پرستانہ وابستگیوں کو خیرباد کہ کر اس انسانی تہذیب کے تحفظ اور اس کی حمایت میں متحد ہوکر سامنے آئیں اور حکومت کو ہندوتوا کے ایجنڈے کی تکمیل کی غرض سے اپنی من مانیاں کرنے اور ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے سے باز رکھیں۔
سپریم کورٹ آئندہ کیا فیصلہ دیتی ہے معلوم نہیں، اس سلسلے میں مستقبل کے لائحہ عمل سے جڑا ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہر بار سب کچھ عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر بیٹھ سکتے ہیں؟ میرا خیال ہے موجودہ حالات میں اس سوال کا مثبت جواب نہیں دیا جاسکتا، جو عدالتیں ’’آستھا‘‘کے نام پر ملکی تاریخ کا سب سے شرمناک فیصلہ دے سکتی ہیں، تمام آداب و اقدار کے احترام کے باوجود، ان پر عملاً یہ آشکارا کرنا ضروری ہے کہ دیگر قوموں کی طرح مسلم قوم کا بھی اپنا ایک دین و عقیدہ ہے جس کے حدود سے باہر جانا ان کے لیے نہ تو کل ممکن تھا اور نہ آئندہ کبھی ممکن ہوگا اس لیے ملک کے تمام دستوری اداروں کے لیے ان کے تہذیبی و اعتقادی حدود و قیود کی رعایت رکھنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا وہ دوسروں کے معالات میں کرتے ہیں اور ان کے لیے سمجھنا بھی ضروری ہے کہ تقریباً تیس کروڑ آبادی والا یہ طبقہ نہ تو ہربار اپنے تہذیبی وجود اور دینی حق پر لگنے والی خراشیں برداشت کرسکتا ہے اور نہ ہی ہندوستان میں اپنے مستقبل سے جڑے سوالات سے سمجھوتا کر سکتا ہے۔
میرے نزدیک حالات کے نتیجے میں عیاں ہوتی یہ حقیقت اپنے اپ میں ایک ایسا انتباہ (آواز جرس) ہے جس کے ساتھ ہمیں مسلم اور غیر مسلم دونوں کے پاس جانا چاہیے۔ ہمیں اس انتباہ یا الارمنگ لمحات کی مدد سے ایک جانب مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی غفلت دور کرنے کا کام لینا چاہیے جب کہ اس کے ذریعہ ہم عام اہل ملک کو ملک کی سالمیت و یکجتی کو خطرے میں ڈالنے والوں کے خلاف متحد و بیدار بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن یاد رہے رہے نازک وقت میں جو لوگ حقیقتوں کو برہنہ شکل میں پیش کرنے کا حوصلہ دکھاتے ہیں انہیں کو لوگ سنتے اور مانتے ہیں اور انہیں کی حال آگاہی پر بھروسہ کرکے خود کو اور اپنے ملک کو بدلنے کا فیصلہ لیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اپنی مبہم فکر اور پست ہمتی کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکتے ضروری نہیں ہے کہ ’’رد عمل‘‘ کے فرسودہ مفروضے کی رو سے ہر واقعے کا ناقص تجزیہ کریں ہر مسئلے میں اپنے قلم کا غبار جھاڑ کر فضا کو مزید آلودہ کرنے کا سبب بنیں، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ لوگوں کو حال و مستقبل کی واضح تصویر اور مسئلے کے حقیقی حل سے آگاہ کرنے کی بجائے ایسے لفظوں سے کھیلنے میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتے ہیں جن کا موقع و محل سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا اور جن سے ڈرائنگ رام میں بیٹھ کر بیت بازی تو کھیلی جاسکتی ہے لیکن قوموں کے مستقبل اور مسئلوں کے ادراک اور ان کے حل میں ان سے ادنی کام بھی نہیں لیا جا سکتا۔ آخر میں اس حقیقت کو ایک بار پھر یاد دلانا چاہوں گا کہ جن لوگوں پر حال و مستقبل کی تصویر واضح نہ ہو یا جو انہیں واضح کرنے سے عاجز ہوں وہ کسی قوم کو خطرات کے گرداب سے کبھی نہیں نکال سکتے اور نہ ہی نازک حالات میں مسائل کا حل فراہم کر سکتے ہیں۔ مستقبل شںاسی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کسی قوم کی دینی و تہذیبی بقا کا پہلا زینہ ہے۔ ضرورت ہے کہ ہندوستانی مسلمان اجتماعی و ملی سطح پر اس طور سے بھی سوچنا اور اور اس پر ایک نتیجہ خیز لائحہ عمل کے تحت عمل کرنا شروع کردیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
***
قومی و ملکی اتحاد کے یہ دونوں ایسے ستون ہیں جو کسی ملک کی بقاء و سلامتی ہی نہیں اس کی معاشی و تمدنی ترقی و خوش حالی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں اور جب یہ منہدم ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں اضطراب، بے چینی، انتشار، جبر و استکبار، فساد و بد امنی، طبقاتی کشمکش اور خانہ جنگی جیسی چیزیں اس ملک کے عوام کی تقدیر بن جاتی ہیں۔ اس حالت میں نہ تو اسے قوم پرستی کے کھوکھلے نعرے بچا سکتے ہیں اور نہ قدیم تہذیب و ثقافت کے حوالے۔ اس سے بچنے کے صرف دو ہی طریقے ہیں ایک تو ان دونوں ستونوں کی ہر حال میں حفاظت کی جائے اور دوسرے انہیں نقصان پہنچانے والی طاقتوں کو، چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حکومت سے باہر، کسی بھی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے، بلکہ آگے بڑھ کر انھیں ہر سطح پر شکست سے دوچار کیا جائے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 فروری تا 05مارچ 2022