جنوبی ہند‘ فسطائیت کے بڑھتے قدم روکنے کا اہل

تمل ناڈومیں سماجی انصاف کے لیے کوششیں تیز

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

وزیراعلیٰ ایم کے اسٹالن بھارتی سیاست کا اہم کرداربن کر ابھر رہے ہیں
ملکی سیاست آج کل ایک عجیب چوراہے پہ کھڑی ہے۔ بڑے بڑے سیاسی پنڈت بھی تذبذب میں مبتلاہیں اور صاف صاف پیشن گوئی کرنے سے قاصر ہیں۔ کچھ لوگ دھڑلے سے کہہ رہے ہیں کہ بھارت کی کثرت میں وحدت کی جو پہچان تھی وہ بہت جلد ختم ہونے والی ہے اور یہ ملک ایک فسطائی نظام میں ڈھلنے والا ہے جس کی شروعات ہو چکی ہے۔بات جو بھی ہو اتنا تو طے ہے کہ بھارت کے موجودہ حالا ت کسی بڑی سیاسی اُتھل پتھل کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔ ملک میں چاروں سمت ایک عجیب قسم کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ ایک لاوا ہے جو اندر ہی اندر اُبل رہا ہے۔ روز روز کے فسادات، آپسی تکرار، نفرت و بغض کے برہنہ نظارے، قتل و غارت گری، ظلم و جبر، خون خرابے سے جہاں ملک کا ایک طبقہ خوش ہے اور اپنے کو پھلتا پھولتا دیکھ رہا ہے وہیں ملک کا ایک بڑا طبقہ سخت وحشت محسوس کر رہا ہے۔ اُسے لگ رہا ہے یہ جو کچھ ہورہا ہے غلط ہورہا ہے اوراسے رُکنا چاہیے لیکن کیسے؟ اس سوال کا اُس کے پاس ابھی کوئی جواب موجود نہیں ہے۔
بالخصوص جنوبی بھارت جو ہمیشہ امن و امان، رواداری اور بھائی چارگی کےلیے ایک اہم مقام رکھتا ہے، بڑھتی ہوئی فسطائیت اور تشدد سے سخت مضطرب ہے۔ یہاں کے عوام کا ایک بڑا طبقہ، علاقائی حکمرانوں اور سیاسی پارٹیوں کی بڑھتی ہوئی فسطائیت اور شدت پسندی کی یلغار سے پریشان ہیں اور اُسے ہر حال میں روکنا چاہتا ہے۔ اس روکنے کے عمل کے پیچھے اس کی جو فکر اور دلائل ہیں انہیں سمجھنے کے لیے یہاں کی تاریخ کامطالعہ ضروری ہے۔ یہاں جو لوگ بستے ہیں انہیں تاریخ میں ڈراوڑین کہا جاتا ہے۔ ان کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے۔ دور جدید کے انگریز مورخوں کے مطابق یہی بھارت کے اصلی باشندے تھے اور پورے بھارت میں انہی کی تہذیب چھائی ہوئی تھی۔ وادی سندھ(انڈس ویلی) کی تہذیب بھی انہیں سے وابستہ ہے۔ چند نا گزیر وجوہات کی بنا پر یہ لوگ شمالی ہندسے بڑی تعداد میں ہجرت کر کے جنوبی بھارت میں آباد ہوگئے اور اسی کو اپنا مستقر بنا لیا۔یہاں کی بولی سے لے کر طرز معاشرت تک کئی اعتبار سے شمالی بھارت کی بولیوں اور طرز معاشرت سے الگ ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہاں کے لوگ آج بھی اپنی قدیم تہذیب سے جڑے ہوئے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ اپنی روایات میں مداخلت بالکل برداشت نہیں کرتے۔
انگریزوں کے دور سے ہی یہاں یعنی جنوبی ہند میں اپنی پہچان الگ رکھنے کی ضد میں اضافہ دیکھا گیا۔ جنوبی بھارت کا یہ علاقہ جو آج تمل ناڈو، کیرلا، کرناٹک، آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں بٹا ہوا ہے اس وقت مدراس پریسیڈنسی کہلاتا تھا۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کی شروعات میں مقامی ڈراوڑ ذاتوں اور برہمنوں میں ذات پات کے تعصبات اور سرکاری ملازمتوں میں برہمنوں کی بڑھتی ہوئی اجارہ داری کے تعلق سے سخت ناراضگی پیدا ہوئی، اور اس کی بنیاد پر غیر برہمن کانفرنسیں اوراجلاس منعقد ہونے لگے اور نتیجے کے طور پر،20 نومبر1916کے دن وکٹوریہ پبلک ہال (چنئی سنٹرل اور رپن بلڈنگ کے درمیان موجود لال رنگ کی قدیم عمارت)میں ڈاکٹر سی نٹیسا مدلیار، ٹی ایم نائر، پی تھیاگریا چٹّی اور المیلو منگائی تھایارامّال،نے مشترکہ طور پر جسٹس پارٹی کی بنیاد رکھی۔ جسٹس پارٹی کے قیام سے غیر برہمنوں کو ایک پلیٹ فارم میں آنے کا موقع ملا، اس کو دراوڑی تحریک کے آغاز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ابتدائی دور میں جسٹس پارٹی برٹش راج سے حکومت کے شعبوں میں غیر برہمنوں کی زیادہ نمائندگی کا مطالبہ کرنے پر اکتفا کرتی رہی لیکن جب انگریز ی حکومت نے 1919 میں مونٹ فورڈ ریفارمز کے تحت محدود خود مختاری کے ساتھ انتخابات کے ذریعے مقامی لوگوں کی حکومت بنانے کا نظم کیا تو جسٹس پارٹی نے 1920میں مدراس پریسیڈنسی کے انتخابات میں راست حصہ لیا اور جیت کر حکومت بنائی۔ اس کے بعد کے سترہ سالوں میں تیرہ سال یہ اقتدار میں رہی اور 1937کے الیکشن میں کانگریس سے ہار کر سیاسی منظر نامے سے غائب ہونے تک یہ مدراس پریسڈنسی میں قومی پارٹی انڈین نیشنل کانگریس کے متبادل کے طور پرمضبوط کردار ادا کر تی رہی۔1931میں جسٹس پارٹی مشہور سماجی مصلح ای وی راما سوامی پریار کی زیر قیادت وجود میں آئی جو1925 میں انڈین نیشنل کانگریس سے علیحدہ ہونے کے بعد سے سماج میں چھوت چھات اور ذات پات کے نظام کے خلاف’’تحریک عزت نفس‘‘ چلا رہے تھے۔ کچھ عرصے بعد 1944 میں پریار نے عزتِ نفس تحریک اور جسٹس پارٹی کو ایک دوسرے میں ضم کرا کے’’ڈراوڑا کژگم‘‘ کی بنیاد ڈالی اور انتخابی سیاست سے اس پارٹی کوعلیحدہ کرتے ہوئے اسے ایک سماجی اصلاحی تحریک میں تبدیل کر دیا۔
برہمن بالا دستی اور ہندی کے سخت ترین مخالف ای وی رام سوامی پریار جنہیں تندئی پریار بھی کہا جاتا ہے جدید ڈراوڑین تحریک کے باوا آدم سمجھے جاتے ہیں۔ سیاہ پس منظر میں ایک سرخ دائرہلیے ہوئے ڈراوڑا کژگم کا پرچم ان کی تحریک کا علامتی ترجمان سمجھا جاتا ہے جو آج تھوڑی تبدیلیوں کے ساتھ تمل ناڈو کی موجودہ حکومت اور حزب اختلاف کا بھی پرچم ہے۔1937میں جنوبی بھارت میں ہندی کو لازمی قرار د یے جانے کے خلاف پریار نے سیاہ پرچم لہر اکر سخت احتجاج کیا، اسی سیاہ پرچم کو ان محرومیوں اور بے عزتیوں کا جن کا سامنا ڈراوڑیوں کو کٹر مذہبی طبقے کے ہاتھوں صدیوں سے جھیلنا پڑ رہا ہے، علامت کے طور پر اور اس میں موجود سرخ دائرہ ڈراوڑسماج میں موجود ضعیف الا عتقادی، جہالت اور اندھی عقیدت کو ختم کرنے کی جدوجہد اور انہیں ذہنی اور مادی استحصال سے نجات دلانے کی کوششوں کی طرف اشارہ ہے۔ پریار کی اس تحریک سے تمل ناڈو کے عوام میں اپنے حقوق کےلیے لڑنے اور استحصال کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہونے کا جذبہ بیدار ہوا اور سماجی مساوات کے حوالے سے رواداری اور بھائی چارگی عام ہوئی۔ معاشرے میں ضعیف الا عتقادی، جہالت اور اندھی عقیدت کے ساتھ مذہبی شدت پرستی میں بھی کمی آئی۔
1949میں تندھئی پریار سے ذاتی اختلافات کے باعث، سی این انا دورائی اور ان کے کچھ ساتھیوں نے ڈراوڑا کژگم سے علیحدگی اختیار کی اور ڈراوڑا منیٹرا کژگم،کی بنیاد ڈالی اور انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔1969میں سی این انا دورائی کے انتقال کے بعد، ڈی ایم کے پارٹی کی قیادت اور وزیر اعلیٰ کی کرسی ایم کروناندھی کے حصے میں آئی اور2018 میں ان کے انتقال تک پارٹی کی صدارت پر وہی فائز رہے۔ اس دوران پانچ مرتبہ وہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے باقی ادوار میں ایم کرونا ندھی سے ذاتی اختلافات کی بنیاد پر الگ ہوکر ایک الگ پارٹی بنانے والے اپنے وقت کے تمل سوپر اسٹار یم جی رامچندرن وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اس تمام عرصے میں کوئی بھی قومی پارٹی اپنے بل پر یہاں انتخابات جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ سماجی انصاف کے اپنے اصول کو آگے بڑھاتے ہوئے وی پی سنگھ کے دور حکومت میں ایم کرونا ندھی نے منڈل کمیشن سفارشات کے تحت پسماندہ اور پچھڑی ذاتوں کو رزیرویشن دینے میں ایک کامیاب کردار ادا کیا۔
2018 میں ایم کروناندھی کے موت کے بعد ڈی ایم کے پارٹی کی قیادت کی ذمہ داری ایم کے اسٹالن کے حصے میں آئی۔ ایم کے اسٹالن نے اپنے نوجوانی کے دور سے ہی پارٹی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا تھا اور 1967کے انتخابات میں، جسے جیت کر ڈی ایم کے نے پہلی بار حکومت بنائی تھی، پارٹی کےلیے انتخابی مہم چلائی تھی،1972 میں جب ملک میں ایمرجنسی نافذ کی گئی، ایمرجنسی کی مخالفت کرنے کے جرم میں میسا کے تحت گرفتار ہوکر پولس تشدد کا سامنا کیا، 1989میں پہلی مرتبہ اسمبلی انتخابات جیت کر اسمبلی میں قدم رکھا، 1992میں چنئی کارپوریشن کے مئیر منتخب ہوئے اور2009 میں نائب وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔
درج بالا تاریخی پس منظر موجودہ ڈی ایم کے حکومت کی فکری اساس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ موجودہ حکومت، ایم کے اسٹالن کی ڈی ایم کے کے زیر قیادت سیکولر پروگرسیو الائنس نے 2021 اسمبلی انتخابات جیت کر بنائی ہے۔234رکنی اسمبلی میں خود ڈی ایم کے، کے پاس132سیٹس اور اتحاد میں شامل حلیفوں کے پاس 27 سیٹیں ہیں۔ ایم کے اسٹا لین نے جب وزیر اعلیٰ کا حلف لیا اس وقت کووڈ کی دوسری لہر ریاست میں پوری شدت سے جاری تھی۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے فورا ًایک’وار روم‘ قائم کیا، تا کہ متاثرین کو ہسپتال میں بستر، بر وقت ایمبولنس اور آکسیجن سلینڈر کی فوری فراہمی کا انتظام ہو سکے۔ مشوروں کے خلاف عمل کرتے ہوئے،پی پی ای سوٹ پہن کر بذات خود ہسپتال پہنچ کر مریضوں کی عیادت کی اور انہیں تسلی دی، ویکسین خود لگوا کر ویکسینائزیشن کےلیے کامیاب مہم شروع کی۔وزیر اعلیٰ کی اس پہل سے عوام میں ان کے تئیں ایک بھروسہ قائم ہوا اور، عالمی وملکی سطح پر بھی اُن کی کوششوں کو سراہا گیا۔
شروعات سے ہی ایم کے اسٹالن نے مرکزی حکومت جسے وہ یونین گورنمنٹ کہہ کر پکارتے ہیں، سے ایک دوری بنائی رکھی، کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے سیاسی حریف انا ڈی ایم کے، کی ہار کی اصلی وجہ بی جے پی کے تئیں اُس کی خود سپردگی، اور اس کے ساتھ انتخابی گٹھ جوڑ ہی تھی۔ریاست کے معاشی حالات میں بہتری لانے کےلیے جانے مانے ماہرین اقتصادیات ایستھر ڈوفلو، رگھو رام راجن(سابق آر بی آئی گورنر)، جین ڈریز، اروند سبرامنیم،ایس نارائن (سابق فینانس سکریٹری) کے ساتھ ایک اقتصادی مشاورتی کونسل قائم کی جس کی مثال بھارت کے دوسری ریاستوں میں ملنی مشکل ہے۔
اسٹالن نے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کے چند ہی گھنٹوں بعد، پانچ اہم فائلوں پر دستخط کر کے حکم نامہ جاری کیاکہ تمل ناڈو میں موجود 2.09 کروڑ راشن کارڈ رکھنے والوں کو لاک ڈاؤن میں جن معاشی مشکلات کا سامنا ہوا اس کے ازالے کے لیے انہیں چار ہزار روپیوں کی فوری ادائیگی، ریاستی حکومت کی آوِن دودھ کے داموں میں ایک لیٹر پر تین روپیہ کی کمی، ریاست کے تمام سٹی اور ٹاؤن بسوں میں عورتوں کو مفت سفر اور ہر اسمبلی حلقہ میں ایک نئے ڈپارٹمنٹ،’’وزیر اعلیٰ آپ کے حلقے میں‘‘ کا قیام، جس کے تحت عوام کی شکایت پر فوری کارروائی ہوگی۔
وزیر اعلیٰ نے اپنی حکومت کے لیے وزراء کی جو ٹیم منتخب کی اس سے بھی ان کی فکری نہج نمایاں ہو کر سامنے آئی۔
با لخصوص پی ٹی تیاگراجن کو معاشیات کا اہم قلمدان سونپ کر سماجی انصاف کے تئیں اپنی سنجیدگی کا اظہار کیا ہے، پی ٹی تیاگراجن، بی جے پی کے کٹر مخالفین میں سے ہیں، ان کے دادا پی ٹی راجن آزادی سے پہلے جسٹس پارٹی کے صدر اور وزیر اعلیٰ رہے تھے۔ حالیہ دنوں میں مذہبی شدت پسندی اور بی جے پی کے خلاف اُن کے ٹویٹس اور تبصرے عوام میں بہت مقبول ہیں۔ مضبوط تعلیمی لیاقت اور اقتصادیات میں مہارت سے ریاست کی معاشی صورتحال کو سنبھالنے میں پی ٹی تیاگراجن ایک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اقتدار سنبھالنے کے دوسرے ہی مہینے یعنی جون2021 کو وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے ایک اعلان جاری کر کے کہا کہ ریاستی وزارت قانون، پچھلی ریاستی حکومت کی طرف سے دائر کئے گئے تمام مقدمات پر نظر ثانی کرے گی۔ ستمبر2021 کو گزشتہ دس سالوں میں سابقہ ریاستی انا ڈی ایم کے حکومت جو بی جے پی کی حلیف پارٹی ہے، کے ذریعے دائر کردہ صحافیوں اور مظاہرین کے خلاف 5570 مقدمات جو مرکزی حکومت کے تین زرعی قوانون، شہریت ترمیمی قانون،کڈانکولم نیو کلیئر پاور پلانٹ،چنئی سیلم ایکسپرس ہائی وے کے خلاف مظاہرہ کرنے کی بنیاد پر دائر کئے گئے تھے،واپس لینے کا حکم نامہ جاری کیا۔ستمبر2021میں بحیثیت وزیر اعلیٰ انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ سے ہمیشہ 17 ستمبرجو تندئی پریار کا یوم پیدائش ہے،سماجی انصاف کے دن کے طور پر منایا جائے گا۔
مرکزی حکومت کے نئے زرعی قوانین اور سی اے اے کے خلاف اور نیٹ سے استثنی کےلیے اسمبلی میں قراردادیں منظور کی گئیں۔ حکومت سنبھالنے کے اول روز سے ہی تمل ناڈو کی ڈی ایم کے حکومت مرکزی حکومت کی ریاستی حکومتوں میں بڑھتی ہوئی مداخلت اور اقتدار کی توسیع کے خلاف سخت تیور اپناتی نظر آرہی ہے۔ سماجی انصاف قائم کرنے کو اپنی اولین ترجیح بتاتے ہوئے وزیر اعلیٰ اور ان کے وزراء نہ صرف حکومت کے ذرائع سے بلکہ سوشل میڈیا میں بھی ایسے پیغامات شیئر کرتے نظر آرہے ہیں جو موجودہ مرکزی حکومت کے سوچ کی نفی کرتی ہے۔ مرکزی حکومت کو مرکز ی حکومت کہنے پر ہی سوال کھڑا کرتے ہوئے اسے سنٹرل گورنمنٹ کے بجائے یونین گورنمنٹ کہنے کوریاستی حکومت کے تمام وزراء بشمول وزیر اعلیٰ نے اپنا شعار بنا لیا ہے۔
یوم جمہوریہ پریڈ کے لیے ریاستی حکومت کی جانب سے بھیجی گئی ٹیبلو کو مرکزی حکومت نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ اس میں موجود شخصیتوں کی شناخت نہیں ہوسکی۔ ریاستی حکومت نے مرکزی حکومت کے اس فیصلے پر سخت رخ اپناتے ہوئے اس ٹبیلو کی جس میں تمل ناڈو کے کئی چوٹی کے مجاہدین آزادی اور سماجی انصاف کے لیے آواز بلند کرنے والوں کے مجسمے لگے تھے چنئی میں یوم جمہوریہ کے دن نمائش کروائی اور پوری ریاست میں اس کو گھمایا۔
فروری2021 میں ملک کے 37سیاسی لیڈروں کے نام خط جاری کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے انہیں اپنے اس مجوزہ فیڈریشن میں شامل ہونے کی درخواست کی ہے۔ اس خط میں تندئی پریار کے سماجی انصاف کی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے اسے پھر سے شروع کرنے کی بات رکھی ہے اور موجودہ حالات میں ملک کےلیے اس کی ضرورت پر گفتگو کرتے ہوئے پر زور درخواست کی ہے کہ ’’آئیے ہم سب مل جل کر ریاستوں کے ایک حقیقی یونین کے طور پر اکٹھے ہوں اور ’سب کچھ سب کے لیے‘ کو یقینی بنائیں۔‘‘ اس اپیل سے وزیر اعلیٰ کی سوچ اور ملک کے موجودہ صورتحال میں ان کی فکر ی نہج کا پتہ چلتا ہے۔
مرکزی اور ریاستی حکومت کے بیچ اہم مسئلوں میں یہ بڑھتی ہوئی خلیج ملک کی ترقی کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ دو متضاد سوچ اور فکر کے حامل طاقت کے ان مراکز کے درمیان تناؤ کی فضا کب اور کیسے ختم ہوگی اس کی پیشن گوئی مشکل ہے۔ کیا وزیر اعلیٰ یم کے اسٹالن اپنے والد ایم کروناندھی کی طرح حزب اختلاف کاایک محاذ تشکیل دینے میں اہم رول اد اکر یں گے اور سماجی انصاف کے نام پر ملک کے تمام سیکولر ذہنیت کے حامل پارٹیوں کو باہم جوڑ کر ملک کی سیاست میں ایک اہم کردار کریں گے اس پر ابھی کچھ کہنا مشکل ہے لیکن اتنا تو طے ہے کہ بحیثیت وزیر اعلیٰ ان کی اُٹھان اور بحیثیت سیاست دان ان کی کارکردگی اس بات کا پتہ دے رہی ہے کہ وہ مستقبل میں بھارتی سیاست کا اہم کردار ضرور بن کر رہیں گے۔

 

***

 حکومت سنبھالنے کے اول روز سے ہی تمل ناڈو کی ڈی ایم کے حکومت مرکزی حکومت کی ریاستی حکومتوں میں بڑھتی ہوئی مداخلت اور اقتدار کی توسیع کے خلاف سخت تیور اپناتی نظر آرہی ہے۔ سماجی انصاف قائم کرنے کو اپنی اولین ترجیح بتاتے ہوئے وزیر اعلیٰ اور ان کے وزراء نہ صرف حکومت کے ذرائع سے بلکہ سوشل میڈیا میں بھی ایسے پیغامات شیئر کرتے نظر آرہے ہیں جو موجودہ مرکزی حکومت کے سوچ کی نفی کرتی ہے۔ مرکزی حکومت کو مرکز ی حکومت کہنے پر ہی سوال کھڑا کرتے ہوئے اسے سنٹرل گورنمنٹ کے بجائے یونین گورنمنٹ کہنے کوریاستی حکومت کے تمام وزراء بشمول وزیر اعلیٰ نے اپنا شعار بنا لیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  27 فروری تا 05مارچ  2022