جموں و کشمیر میں معمول کی صورت حال سے متعلق بی جے پی کے دعوے بے نقاب، گذشتہ 15 دنوں میں34 افراد ہلاک
سرینگر، اکتوبر 18: انڈیا ٹومورو کی رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں اس مہینے کے پہلے 15 دنوں میں سیکورٹی فورسز کے 9 جوانوں سمیت 34 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس مہینے میں اب تک اوسطاً روزانہ دو سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جس سے دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد عسکریت پسندی کو کچلنے کے حکومتی دعوے بے نقاب ہوئے ہیں۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جموں و کشمیر میں پہلے 15 دنوں میں 14 عسکریت پسند اور 10 شہری مارے گئے۔ تازہ ترین مہلوکین میں کشمیر میں کام کرنے والے دو غیر مقامی مزدور ہیں۔
دونوں مقامی مزدور، بانکا، بہار کے اروند کمار شاہ اور اتر پردیش کے صغیر احمد، بالترتیب سرینگر کی عیدگاہ اور ضلع پلوامہ کے لٹر میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں مارے گئے۔
تازہ ہلاکتیں انسپکٹر جنرل آف پولیس وجے کمار کے یہ کہنے کے کچھ گھنٹوں بعد سامنے آئیں کہ پولیس ان تمام عسکریت پسندوں کو پکڑنے کے لیے پرعزم ہے جو عوام میں خوف پیدا کرنے اور وادی میں فساد اور ہنگامہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
وجے کمار نے کہا ’’سرینگر میں حالیہ شہری ہلاکتوں کے بعد عسکریت پنسد شاہد خورشید، شاہد بشیر کے ساتھ ضلع پلوامہ منتقل ہوگیا ہے، جب کہ ان کا ساتھی مختار شاہ شوپیاں منتقل ہوگیا۔ تینوں اسٹینڈ ختم ہو گئے۔ کمار نے کہا کہ اب تک نو مختلف کارروائیوں میں 13 عسکریت پسندوں کا خاتمہ کیا گیا ہے۔‘‘
مرکزی خطے میں ان ہلاکتوں نے دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کے بعد مرکز کے خطے میں معمول کی صورت حال اور امن کی واپسی کے دعووں کو بے نقاب کر دیا ہے۔
تشدد میں اس اضافے نے سیاسی جماعتوں کو کشمیر میں مودی کی قیادت والی حکومت کی ناکامیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے تازہ مواقع دیے ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے پوچھا ’’ایک معصوم شہری اپنی بیوی اور بچوں کے گھر جا رہا تھا، ایک غیر مقامی گلی فروش پونچھ میں کچھ بیچ رہا تھا، ان میں سے کسی کے لیے موت نہیں تھی۔ حیرت ہوتی ہے کہ حکومتِ ہند کو یہ سمجھنے کے لیے کس بات کی ضرورت ہے کہ جموں و کشمیر میں اس کی پالیسیاں یادگار ناکامیاں رہی ہیں اور کس قیمت پر؟‘‘
محبوبہ مفتی نے مزید کہا کہ جے اینڈ کے انتظامیہ کے پاس اقلیتوں پر حملوں کے بارے میں پہلے سے معلومات تھیں، پھر بھی انھوں نے ان معلومات کو نظر انداز کرنے کا انتخاب کیا۔ اس کے بجائے وہ ان مرکزی وزراء کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں مصروف تھے جنھیں کشمیر لایا گیا تھا تاکہ وہ بی جے پی کی جعلی داستان اور جموں و کشمیر میں نام نہاد معمول کی صورت حال کے پروپیگنڈے کو بڑھایا جا سکے۔
دریں اثنا عسکریت پسندوں کا سراغ لگانے اور لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے سینکڑوں مشتبہ افراد کو کشمیر بھر میں حراست میں لیا گیا ہے۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ذمہ داری نہ لینا اور 700 شہریوں کو گرفتار کرنا الزامات کو تبدیل کرنے اور اپنے آپ کو بری کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے۔ اجتماعی سزا اور پوری آبادی کی تذلیل ایک ایسا طریقہ بن گیا جو حکومت ہند کی تعزیراتی پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے میں ہرجگہ یکساں ہے۔
معلوم ہو کہ عسکریت پسندوں نے ایک ایسے وقت میں اپنی موجودگی ظاہر کی ہے جب حکومت مہاجر کشمیری پنڈتوں کو وادی میں واپس لانے کی پالیسی بنانے کے لیے سخت محنت کر رہی تھی۔ دراصل حکومت نے کشمیری تارکین وطن کے لیے ایک پورٹل لانچ کیا تھا تاکہ وادی میں ان کی غیر منقولہ جائیدادوں کے بارے میں شکایات درج کی جا سکیں۔
جس چیز نے حکومت کو پریشان کیا ہے وہ یہ ہے کہ کنٹرول لائن پر دراندازی کی نئی کوششیں ہو رہی ہیں۔ اڑی سیکٹر میں بڑے پیمانے پر دراندازی کی کوشش ناکام بنا دی گئی اور کئی دنوں تک وہاں لڑائی جاری رہی۔ جموں کے پونچھ سیکٹر میں کنٹرول لائن کے قریب ایک اور لڑائی جاری ہے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ لگتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے قبضے نے عسکریت پسندوں کے حوصلے بلند کیے ہیں جنھوں نے جموں و کشمیر میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔
ایک ہفتہ قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل ایم ایم نروانے نے افغانستان میں حالات مستحکم ہونے کے بعد افغان نژاد غیر ملکی دہشت گردوں کے جموں و کشمیر میں گھسنے کی کوشش کے امکان کو رد نہیں کیا تھا۔
انڈیا ٹوڈے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ہندوستانی مسلح افواج کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں کیوں کہ ہمارے پاس ایک بہت مضبوط انسداد دراندازی گرڈ ہے اور ساتھ ہی جموں و کشمیر کے اندرونی علاقوں میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کو چیک کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔