جموں وکشمیر: سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو ان کی رہائش گاہ منتقل کردیا گیا، لیکن حراست ابھی بھی جاری
سرینگر، اپریل 7: جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی کو، جو اگست میں ریاست کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے بعد سے حراست میں ہیں، آج ان کی رہائش گاہ منتقل کردیا گیا۔ تاہم انھیں ابھی بھی پبلک سیکیورٹی ایکٹ کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔
مفتی اور کچھ دیگر کشمیری سیاستدانوں پر 6 فروری سے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت الزام عائد کیا گیا تھا۔ یہ رہنما اب چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے نظربند ہیں، جب اس خطے کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے لیے مرکز نے 5 اگست کو آئین کے آرٹیکل 370 کو کالعدم قرار دیا تھا اور اس کو دو مرکزی علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا تھا۔ سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبد اللہ اور عمر عبداللہ کو، جن کو بھی ساتھ ہی حراست میں لیا گیا تھا، مارچ میں رہا کیا گیا تھا۔
اپنی رہائی کے بعد عمر عبداللہ نے مفتی سمیت دیگر کشمیری سیاستدانوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا تھا، جو تاحال نظربند ہیں۔ عمر عبد اللہ کی رہائی کی خبر کے بعد پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’’خوشی ہے کہ ان [عمر عبداللہ] کو رہا کیا جائے گا۔‘‘
اپنی والدہ کے ٹویٹر ہینڈل سے التجا نے مزید ٹویٹ کیا تھا کہ ’’خواتین طاقت اور خواتین کی نجات کے بارے میں ان کی ساری بات صرف کہنے کے لیے ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس حکومت کو خواتین سے سب سے زیادہ خوف آتا ہے۔‘‘
انتظامیہ نے عمر عبد اللہ کے والد کو 13 مارچ کو رہا کیا تھا۔ فاروق عبداللہ کو سرینگر کے گوپکر روڈ میں واقع ان کی رہائش گاہ پر حراست میں رکھا گیا تھا۔ حزب اختلاف کے متعدد رہنماؤں نے اس سخت قانون کے تحت سیاستدانوں پر الزام عائد کرنے کے حکومت کے اقدام پر سوال اٹھائے ہیں۔