جمعیت علماے ہند شمال مشرقی دہلی فسادات کے معاملات میں پولیس چارج شیٹ کو چیلنج کرے گی: ارشد مدنی
نئی دہلی، جون 22: جمعیت علماے ہند نے کہا ہے کہ وہ شمال مشرقی دہلی فسادات کے معاملات میں پولیس چارج شیٹ کو وکیلوں کے ایک پینل کے ذریعے عدالت میں چیلنج کرے گی۔
جمعیت کے صدر مولانا ارشد مدنی نے الزام لگایا کہ ’’یہ چارج شیٹس یک طرفہ، متعصب اور مخصوص ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں۔‘‘
انھوں نے کہا کہ جمعیت متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے تمام ممکنہ قانونی ذرائع استعمال کرے گی۔ جمعیت کے صدر نے اعلان کیا کہ وکلاء کی ایک ٹیم متاثرہ افراد اور ملزموں کے مقدمات کی نگرانی کرے گی، جنھیں جھوٹے طریقے سے ملوث کیا گیا ہے۔
سی اے اے مخالف کارکنوں کی اندھا دھند گرفتاریوں اور دہلی فسادات میں یک طرفہ کارروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ لاک ڈاؤن کو بھی پولیس اپنے سیاسی آقاؤں کے خفیہ ایجنڈے کو انجام دینے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف۔ کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے جب لوگ گھروں سے باہر بھی نہیں نکل سکتے ہیں، اس وقت بے گناہ اور مظلوم مسلمانوں کو سی اے اے کے خلاف مہم چلانے کے الزام میں گرفتار کیا جارہا ہے۔‘‘
انھوں نے مزید کہا ’’بدقسمتی سے شاہین باغ میں امدادی کچن چلا کر کارکنوں میں کھانا تقسیم کرنے والے سابق بیوروکریٹ ہرش مندر اور ڈی ایس بندرا جیسے انسانی حقوق کے کارکنوں کو بھی پولیس نے غلط طور پر پھنسایا ہے۔‘‘
مولانا مدنی نے کہا کہ تلنگانہ ہائی کورٹ کا حالیہ تبصرہ پورے ملک میں مسلمانوں سے متعلق پولیس کے سلوک کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ تلنگانہ ہائی کورٹ نے ایک عوامی تحریک کی سماعت کے دوران لاک ڈاؤن کے دوران مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ مقدمات درج کرنے کے لیے پولیس کی سختی سے مذمت کی اور حیدرآباد پولیس سے پوچھا کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیوں کے لیے سب سے زیادہ مقدمات صرف مسلمانوں کے خلاف ہی کیوں درج کیے گئے ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی نہیں کی؟
جمعیت کے رہنما نے نشان دہی کی کہ ’’سماعت کے دوران بنچ نے دیکھا کہ لاک ڈاؤن کے دوران پولیس نے مسلم اقلیت کے ساتھ متعصبانہ برتاؤ کیا۔‘‘
مولانا ارشد مدنی نے الزام لگایا کہ ’’دہلی میں پولیس اور دیگر سیکیورٹی ایجنسیاں ان نوجوانوں کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار کررہی ہیں، جو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج میں سرگرم تھے۔ میڈیا بھی میڈیا ٹرائل کرکے ان کے خلاف ماحول پیدا کررہا ہے۔‘‘
مولانا مدنی نے کہا کہ فسادات میں مارے گئے 53 افراد میں سے 38 مسلمان تھے، جنھیں فسادیوں نے بے دردی سے ہلاک کیا تھا، لیکن پولیس نے ان میں سے صرف چند ایک کی تفتیش کی ہے اور باقی لوگوں کو ہلاک کرنے کی ذمہ داری نامعلوم فسادیوں کے سر ڈال دی ہے۔
انھوں نے نشان دہی کی کہ ’’اس کے برعکس آئی بی افسر انکت شرما اور پولیس کانسٹیبل رتن لال کی ہلاکت کے سلسلے میں درجنوں مسلمانوں کا نام لیا گیا ہے اور ان پر الزام عائد کیا گیا ہے۔‘‘
انھوں نے کہا ’’حقیقت یہ ہے کہ فسادات کے مبینہ طور پر ذمہ دار بی جے پی قائدین کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کی نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقاریر اور بیانات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوری ذمہ داری مظاہرین پر عائد کردی گئی ہے۔‘‘