جماعت نے نظر ثانی کی درخواست کی حمایت کی، کہا کہ بابری مسجد فیصلہ انصاف کا مذاق ہے

نئی دہلی، دسمبر 3: جماعت اسلامی ہند نے بابری مسجد معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست داخل کرنے ولی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل) پشت پناہی کی ہے۔ منگل کے روز جماعت اسلامی ہند نے کہا  کہ بابری مسجد کے مقام کو ہندو دعویداروں کے حوالے کرنا کوئی انصاف نہیں تھا جب خود سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ مسجد کسی بھی مندر کو مسمار کرنے کے بعد نہیں بنائی گئی تھی او 1949 میں مسجد میں بتوں کی تنصیب اور 6 دسمبر 1992 کو اس کا انہدام "غیر قانونی” تھا۔

جماعت کے صدر دفتر میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے کہا کہ 9 نومبر کو عدالت عظمیٰ کا فیصلہ بہت پریشان کن تھا۔ جب خود سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ اعتراف کیا تھا کہ مسجد کسی بھی مندر کی تباہی کے بعد نہیں بنائی گئی تھی اور 1949 میں مسجد میں بت کی تنصیب اور 6 دسمبر 1992 کو مسجد کو منہدم کرنا غیر قانونی اقدام تھا، تو پھر کیوں مسجد کی اراضی کو ہندو دعویداروں کو دینے کا حکم دیا گیا؟ جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ "کیا یہ انصاف ہے؟” اس معاملے میں تمام شواہد مسلم قانونی دعویداروں کے حق میں ہیں جب کہ ہندو قانونی دعویداروں نے محض اپنی "آستھا” (عقیدے) کی بنیاد پر اس کا دعویٰ کیا۔

پانچ ایکڑ متبادل اراضی کو کریں مسترد

جماعت کے نائب صدر محمد سلیم انجینیر نے کہا "جماعت کو لگتا ہے کہ بابری مسجد کو مسمار کرنے والوں کو زمین دے کر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے ہیں۔”

انجینیر سلیم نے ایودھیا میں دوسری جگہ مسجد کی تعمیر کے لیے پیش کی گئی پانچ ایکڑ اراضی کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ مسلمان انصاف کے لیے لڑ رہے ہیں زمین کے کسی دوسرے ٹکڑے کے لیے نہیں۔

انصاف کا مذاق

یہ کہتے ہوئے کہ انھوں نے ججوں کے ارادے پر سوال نہیں اٹھائے، جماعت کے ملک معتصم نے کہا کہ یہ فیصلہ انصاف کا مذاق ہے کیوں کہ یہ فیصلہ اس پارٹی کے حق میں گیا جو اس زمین پر ملکیت ثابت کرنے میں ناکام رہی اور اس سے وہ مسلم دعویدار محروم ہوگئے جنھوں نے تمام دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ اپنے دعوے کو پیش کیا۔

انہوں نے مزید کہا "تاہم، ہم سپریم کورٹ کا احترام کرتے ہیں لیکن ہم انتہائی مایوس، بری طرح سے مجروح اور اس کیس کے فیصلے سے غیر مطمئن ہیں۔”

جماعت نے حیدر آباد کی نوجوان مظلومہ کے مجرموں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا

کچھ دن قبل حیدرآباد میں ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ ہونے والی وحشیانہ زیادتی اور قتل کی مذمت کرتے ہوئے جماعت کے رہنماؤں نے مجرموں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ سلیم انجینیر نے کہا: ’’ہم ایسے گھناؤنے مقدمات میں سزائے موت سمیت سخت سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عدالتوں سے یہ پیغام نہیں جارہا ہے کہ ایسے مجرموں کو سزا مل رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نظام متاثرین کی بجائے مجرموں کی حمایت کر رہا ہے۔‘‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس طرح کے جرائم کے مجرموں کو عدالت عظمی کے ذریعہ سرعام سزا دی جانی چاہیے؟ سلیم انجینیر نے کہا: "ایسے گھناؤنے جرائم کی سزا عوام کے درمیان دی جانی چاہیے تاکہ یہ لوگوں کے لیے عبرت کا باعث ہو۔”

جماعت حیدرآباد کی خواتین ونگ کی سکریٹری عطیہ صدیقہ نے حیدرآباد کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: ’’ہم جلد از جلد سخت سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔ دہلی میں اجتماعی زیادتی کے واقعے کے بعد وضع کردہ قانون کے باوجود خواتین کے خلاف جرائم ہوتے رہتے ہیں۔ حکومت کو اپنے ’’ بیٹی بچاؤ ‘‘ کے نعرے کو عملی طور پر نافذ کرنا چاہیے۔‘‘

اسی شعبے کی شریک سکریٹری رحمت النسا نے میڈیا، معاشرے اور عدلیہ سے کہا کہ وہ خواتین کے خلاف عصمت دری اور جرائم کی لعنت کو روکنے کے لیے فعال کردار ادا کریں۔