جماعت اسلامی نے ہندوستان کے گہرے ہوتے معاشی بحران پر اپنی سنگین تشویش کا اظہار کیا
نئی دہلی، اگست 29: ہندوستان کی سب سے بڑی مسلم سماجی و ثقافتی تنظیم جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) نے رواں سال مارچ سے کوویڈ 19 وبائی بیماری کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن کے سبب ملک کے بڑھتے ہوئے معاشی بحران پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ملک کو درپیش معاشی بحران کے بارے میں تشویش کا اظہار اس ہفتے جماعت اسلامی کے شوریٰ یعنی سینٹرل ایڈوائزری کونسل کے اجلاس میں منظور کی گئی ایک قرارداد کے ذریعے کیا گیا۔
جے آئی ایچ کے نائب امیر انجینئر محمد سلیم نے آج ایک ورچوئل پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اچانک لاک ڈاؤن نے لوگوں کو تیاری کے لیے کوئی وقت نہیں دیا۔ نہ صرف کروڑوں افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ شہروں سے گاؤں کی غیرمعمولی الٹی ہجرت اور خوراک سے محرومی کے نتیجے میں ملک بھر میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔
انھوں نے کہا مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد شہروں سے اپنے دیہات کی طرف ہجرت کر گئے، جس کے نتیجے میں دیہی علاقوں میں بھی بڑی تعداد میں لوگ کوویڈ کا شکار ہوگئے۔ حکومت کے اس اقدام کے نتیجے میں ملک کی جی ڈی پی بالکل نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے اور ملک میں مزید بے روزگاری پیدا ہوئی ہے۔
انجینئر محمد سلیم نے مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوں اور شہریوں کی طرف سے کوویڈ سے پیدا ہونے والے بحران سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ صورتِ حال کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت اپنی ناکامیوں پر مختلف طریقوں سے پردہ ڈالنے کے بجائے ملک کی صورتِ حال کو بہتر بنانے پر توجہ دے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کو نعروں کی بجائے معیشت کو بحال کرنے کے لیے بلا امتیاز ہر طبقے اور برادری کے لوگوں کو اعتماد میں لے کر ٹھوس کارروائی کا آغاز کرنا چاہیے۔
اس کی نشان دہی کرتے ہوئے کہ بدعنوانی اور عوام دشمن معاشی پالیسیوں نے وبائی بیماری اور اس کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے میں ملک کے معاشی اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو بہت متاثر کیا ہے، جماعت کے رہنما نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنے کے لیے مخلصانہ اقدامات کرے اور معاشی پالیسیوں کا جائزہ لے۔
انھوں نے مزید کہا کہ صحت اورتعلیم کے شعبوں کو کاروباری بنانے سے دور رکھیں اور عوامی فلاح و بہبود اور روزگار کے لیے مناسب فنڈز مختص کریں۔
انھوں نے یہ کہتے ہوئے کہ اتنی سنگین صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے صرف حکومت پر انحصار کرنا کافی نہیں ہے، شہریوں کو بھی آگے آکر ذمہ داری نبھانے کے لیے کہا۔ لوگوں سے اپنے اختلافات کو فراموش کرنے کی اپیل کرتے ہوئے، ان سے قومی بحران کی اس گھڑی میں بھائی چارے اور باہمی تعاون کی فضا کو فروغ دینے کے لیے کہا۔
ملک کو سیاسی انتشار سے نجات دلائیں
حکمران جماعت کی پالیسیوں پر سختی سے تنقید کرتے ہوئے انجینئر محمد سلیم نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی اور اختلاف رائے کی آزادی کو دبانے کی وجہ سے ملک میں جمہوری اداروں کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
انھوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ ملک میں جمہوری ماحول کو اختلاف رائے کے حق کی اجازت دے کر تحفظ دیں جو ہر جمہوریت کا بنیادی اصول ہے۔
جماعت اسلامی کے رہنما نے میڈیا کے کردار بھی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا ایک طبقہ اپنی بے بنیاد خبروں، مضامین اور نشریات کے ذریعے ملک میں معاشرتی ماحول کو زہرآلود کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میڈیا اور سوشل میڈیا میں نفرت انگیز پیغامات اور خاص طور پر اس پر حکومت کی خاموشی اور بعض اوقات اس کی سرپرستی سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف اکثریتی برادری کے ممبروں میں نفرت کا ماحول پیدا ہوا ہے۔
جماعت نے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والے افراد گرفتاریوں کی بھی مذمت کی۔
مسلم دنیا کا خطرناک منظر
مسلم دنیا میں برسوں سے جاری سیاسی پیش رفت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے مشاہدہ کیا کہ مسلم دنیا کے مختلف حصوں خصوصاً یمن، شام، لبنان اور لیبیا میں برسوں سے جاری خانہ جنگی تشویش ناک ہے۔
بنیادی طور پر عالمی طاقتوں کو اس کے لیے ذمہ دار قرار دیتے ہوئے انجیر سلیم نے کہا کہ اس صورتِ حال پر قابو پانے اور اسے بہتر بنانے کی بنیادی ذمہ داری خود مسلمانوں کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے۔
یہ بیان کرتے ہوئے کہ بہت سے مسلم ممالک میں آزادی اظہار پر پابندیاں عائد ہیں اور ہزاروں افراد کو اس مسئلے کو اٹھانے پر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ بعض مسلمان ممالک میں سیاسی حالات اور انسانی حقوق کے حالات خوفناک ہیں۔ انھوں نے تجویز پیش کی کہ ایک طویل اور مسلسل جدوجہد، تشدد سے گریز، ان ممالک میں صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے۔
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے حالیہ معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ مناسب نہیں ہے کہ کسی بھی ملک کی حکومت فلسطینی عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ انھوں نے کہا کہ ہندوستان نے ہمیشہ فلسطین کے مقصد کی حمایت کی ہے اور انھوں نے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ وہ آزاد فلسطین کے بارے میں فلسطینیوں کی حمایت کرنے کی اپنی پرانی پالیسی کو جاری رکھے۔
ہندوستانی مسلمانوں کو جوش و خروش کے ساتھ اپنا فرض نبھانے دیں
انھوں نے یہ کہتے ہوئے کہ ملک میں مسلمانوں کے خلاف فاشسٹ عناصر کا نفرت انگیز اور گمراہ کن پروپیگنڈا کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے،انھوں نے کہا کہ مسلمان انسانیت کی خدمت کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ اس وبا کے دوران جماعت اسلامی ہند سمیت متعدد مسلم این جی اوز نے پورے ملک میں ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی ان کے مذہب اور عقیدے سے قطع نظر مدد کی ہے۔
انھوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ ملکی قوانین کی تمام ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانیت کی خدمت کرتے رہیں اور صبر و تحمل، جوش و جذبے اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔
نئی تعلیمی پالیسی کی کمزوریوں پر تنقید کرتے ہوئے جماعت نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے نظریات اور معاشی ترقی کے لیے نئے آئیڈیاز اور سوچ کے ساتھ منصوبے بنائیں اور نئی تعلیمی پالیسی میں موجود امکانات کا اچھا استعمال کریں۔