جدید نسائی تحریکات کے تناظر میں نظریہ آزادی

عورت اور مرد کا دائرہ کار ایک دوسرے سے مختلف۔ نسوانیت کو مردانہ پن کی ترجمانی کی ضرورت نہیں

آسیہ تنویر ،حیدرآباد

 

نسائی تحریکات کی ابتدا اور ان کی کارکردگی کے علاقوں کا سرسری جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ نسائی تحریکات نے ان علاقوں میں جنم لیا جہاں اسلامی تعلیمات کے داخلے نے دیر کر دی۔ جدید اور قدیم نسائی تحریکات میں واقع ایک واضح تفریق یہ ہے کہ قدیم نسائی تحریکات دراصل عورت کے بنیادی حقوق اور سماج میں مساوایانہ حیثیت کے حصول اور تحفظات کے مطالبات کے ساتھ ابھرتی ہیں جن کو اسلام نے اپنی آمد کی ابتدا میں ہی بلا تفریقِ جنس تمام حقوق و مراتب یکساں طور پر عطا کیے۔ لیکن جدید نسائی تحریکات اپنے بنیادی مقاصد سے ہٹ کر منکرات میں بھی برابری کی حصہ داری چاہنے لگی ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ غیر فطری برابری کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔
جدید نسائی تحریکات کی طرف بڑھنے سے پہلے نسائی تحریک کی معنوی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ نسائی تحریک دراصل عورت کی حیثیت و اہمیت، مساوی حقوق کے ساتھ ساتھ آزادی اظہار رائے کے حصول اور اسے مکمل انسان تسلیم کرنے کے نقطہ نظر کا احاطہ کرتی ہے۔ احترامِ آدمیت کے مروج قوانین کے تحت ذہنی و فکری آزادی، معاشرتی انصاف، وقعتِ ذات اور خود مختار و مکمل زندگی کی خواہش عورت اور مرد دونوں کو ودیعت کی گئی ہے۔ لیکن گزشتہ ادوار کے مطالعے و مشاہدے اور تاریخی حوالوں سے یہ بات بخوبی عیاں ہے کہ ہر عہد میں بجز اسلام کے عورت پر استحصالی قوتیں مذہبی، ریاستی اور خاندانی سطح پر حاوی رہیں اور اس کے صنفی و ذاتی تشخص اور فردی آزادی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی رہیں۔ خواہ وہ کئی ہزار سال قبل مسیح میں روم کی انتہائی ترقی یافتہ تہذیبیں ہوں یا ہندوستان کی انتہائی قدیم جنوبی ریاستوں کے اندرونی علاقوں کی ترقی یافتہ ہندو ثقَافتیں ہوں، یورپ کے زمانہ جاہلیت سے ہو کہ زمانہ موجود ہوں یا شمالی وجنوبی امریکہ کی نام نہاد ترقی یافتہ اقوام کے شرفاء ہوں، یہاں تک کہ آمد اسلام سے قبل بابل کے باغات سے لے کر مکہ کے صحراؤں تک عورت پر استحصال ریاستی سرپرستی میں جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب برطانوی و فرانسیسی انقلاب کے زیرِ اثر سرمایہ دارانہ تسلط کے غیر جمہوری و غیر اخلاقی معاشرے نے عورت کی ذات، حقوق اور اس کی نسائی حیثیت پر کاری ضرب لگائی تو صدیوں سے جاری امتیازی و استحصالی طرزِ عمل نے سب سے پہلے مغربی عورت کی لب بستگی کو آزادی اور مساوات کے نعروں میں منقلب کیا۔ تاریخ میں نسائی تحریکات کی گونج کی ابتدا میری وول، اسٹون کرافٹ، فلورا ٹریسٹاں اور سیمون ڈی بودا کی انفعالی و انقلابی تحریروں میں عورت کی اہمیت، سماجی و معاشرتی مقام اور فردی آزادی کے ضابطے متعین کر کے تانیثی فکر پر مثبت و دور رس اثرات مرتب کیے۔ اس کے بعد نسائی تحریک کی جدوجہد میں مارکس کے فلسفہ اشتراکیت نے بھی عورت کی صنفی حیثیت اور سماجی و معاشی تشکیل میں اس کی حصہ داری کو تسلیم کرتے ہوئے اٹھارویں صدی کے انقلابِ فرانس اور اس کے بعد کے حالات میں صنفی آزادی اور قانونی و آئینی حقوق کی نشاندہی کی ہے۔نسائی تحریکات کے خود انفعالی و معاشرتی انصاف کے نقطہ نظر نے عورتوں پر رجعت پسندانہ اور غیر منصفانہ طرزِ عمل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے جہاں سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کی شخصی تنزلی، مصائب اور صنفی تفریق نے پُر اثر احتجاج کے آغاز کو رخ عطا کیا وہیں اٹھارویں صدی کے نوآبادیاتی تسلط نے برِ صغیر میں محکومیت اور پسپائی کے احساس کو اجاگر کیا۔ رسم و رواج میں جکڑی بے بس و محکوم ہندوستانی عورت میں مغربی رجحانات کے تحت نسائی شعور کے امکانات کچھ حد تک بیدار ہوتے گئے ۔جہاں عورت کو ذات، جذبات و احساسات اور حقوق پر قدامت پسندی اور مذہبی اصطلاحات کا پردہ ڈال کر عمر بھر کے لیے مقید کر دیا جاتا تھا۔ پھر وہ مردانہ سماج کے غیر انسانی رویوں اور مذہبی جبر کا شکار ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے صدیوں سے محکوم و محروم عورت کی زندگی عارضی، ناپائیدار اور بے وقعت ہوکر رہ جاتی تھی۔
دنیا بھر میں نسائی تحریکات کی ابتدائی سطح ان مقامات سے نمودار ہوتی ہے جہاں کچھ حد تک معاشی استحکام کی رساکشی جاری تھی۔ مغرب میں نسائی تحریک کیسے وجود میں آئی اس کے لیے فرانس اور انقلاب فرانس کے بعد کی کچھ سرگرمیوں کا ذکر ضروری ہے ۔
۱۷۹۱ میں فرانس کی قومی اسمبلی میں چارلس موریس نے صنفی بھید بھاو پر مبنی ایک تعلیمی خاکہ پیش کیا تھا۔ جس میں عام تعلیم کا حق مردوں کے ساتھ مخصوص کیا گیا اور عورتوں کے لیے فقط گھریلو بنیادی تعلیم کی تجویز رکھی گئی۔ اس جواز کی دلیل یہ دی گئی کہ مرد کو دنیا سنبھالنی ہے اس لیے مرد کو اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہے جب کہ عورت گھر گرہستی سنبھالتی ہے لہذا ان کے لیے گھریلو اور بنیادی تعلیم کافی ہے۔ فرانس میں ہیمقیم ایک برطانوی خاتون میری وال اسٹون کرافٹ نے چارلس مورس کی اس رپورٹ کے رد میں ۱۷۹۲ میں ایک پمفلٹ لکھا۔انہوں نے عورتوں کو تعلیم کاحق دیے جانے کی وکالت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عورت اپنے شوہر کی فقط بیوی ہی نہیں بلکہ وہ بھی سماج اور ملک کا لازمی حصہ ہے۔ عورت کو معاشرے کا قیمتی زیور اور شادی میں پیش کیے جانے والے تحفے کے بجائے انسان سمجھنا چاہیے اور بحیثیت انسان عورت کو بھی اس کے بنیادی حقوق ملنے چاہئیں۔
امریکہ میں تحریک نسواں دو اہم وجوہات کی بنا پر سامنے آئی، پہلی غلامی کے خاتمے کی تحریک اور Temperence Movement کی بدولت شراب پر قانونی پابندی کی تحریک ہے۔ جن خواتین نے ان تنظیموں میں شمولیت اختیار کی انہوں نے جلد ہی محسوس کرلیا کہ وہ اپنے مقاصد میں جلد ہی کامیابی حاصل کرلیں گی اور انہوں نے جلد ہی سیاسی طاقت بھی حاصل کرلی۔Seneca Falls Convention 1948 میں منعقد ہوا، جو اس تحریک کے لیے تاریخی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں حقوق نسواں کے علم برداروں نے خواتین کے لیے ایک منشور اور حقوق کا مطالبہ کیا۔ اس میں انہوں نے شوہر کے ساتھ برابری، روزگار میں جنسی امتیازات برتنے کی مخالفت، طلاق کے حقوق اور مساوی تنخواہ کا مطالبہ بھی پیش کیا۔ جس وقت خواتین کی محرومیوں کی یہ تحریک مقبول ہو رہی تھی اُس وقت قدامت پسند حقوقِ نسواں کے حامی اپنی سرگرمی اور مطالبات کو محدود کرلیتے ہیں اور خواتین کی محرومیاں ان کا واحد ہدف ٹھیرتی ہیں۔ دوسری، ۱۹۲۰ میں امریکی آئین میں انیسویں ترمیم کے بعد خواتین کو ووٹ دینے کی منظوری دے دی گئی اور نسائی تحریک کے کارکنان کی اکثریت نے اس ترمیم کے بعد عورتوں کی فلاح و بہبود کا حق حاصل کر لیا۔تاریخی اعتبار سے نسائی تحریکات کی درجہ بندی کے لیے ماہرین نے اسے تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا دور: انیسوی صدی کے وسط سے بیسوی صدی کے اوائل تک (اس دور میں خواتین مردوں کے مساوی حقوق کے لیے بر سر احتجاج رہیں دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس عہد کی تحریک بس نسائی تحریک تھی جس میں قانونی اور سیاسی حقوق کے لیے عورتوں نے مزاحمت کی)
دوسرا دور: ۱۹۶۰ سے ۱۹۷۰ تک (اس دور میں عورتوں نے ملازمت کرنے گھر میں اپنے رول کے تعین اور جنسیت کے علاوہ سیاسی حقوق کی لیے جدوجہد کی)
تیسرا دور: ۱۹۹۰ سے اکیسویں صدی کے اوائل تک اب اکیسویں صدی کے دوسرے دہے میں نسائی حقوق کے لیے جس قدر آگہی عام ہو رہی ہے اور سوشل میڈیا کے علاوہ مختلف سرگرمیوں سے حقوق نسواں کے لیے بیداری پائی جاتی ہے اسے چوتھے دور کا آغاز مانا جا سکتا ہے ۔۱۶ دسمبر۲۰۱۲ کو دلی میں ایک وحشیانہ عصمت دری کے واقعے کے بعد فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام جیسے سوشل میڈیاپلیٹ فارم سے عورتوں کے ساتھ جنسی تشدد اور جنسی استحصال کے خلاف آوازیں بلند کرنے اور حقوق نسواں کی بحالی کی مہم کے دوبارہ آغاز کو نسائی تحریکات کا چوتھا دور کہا جا سکتا ہے۔
آج نسائی تحریکات کے علم بردارکسی بھی ایسے سماجی نظام کے مخالف ہیں جس کی تشکیل میں صنفی امتیاز برتا جائے۔ اس تحریک کے حامی افراد عورتوں اور مردوں کے مابین قطعی برابری پر اصرار کرتے ہیں اور جسمانی فرق پر توجہ نہیں دیتے۔ وہ عورت اور مرد کے جسمانی فرق کو تسلیم نہیں کرتے، وہ بیوی کو گھریلو خاتون اور ماں، شوہر کو نان و نفقہ فراہم کرنے والا اور خاندان کا سربراہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ قانونی شادی کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہیں اور گھر اور خاندان کو عورت کی مکمل جنسی آزادی کی راہ میں حائل مانتے ہیں۔ ان کے مطابق بچوں کی تربیت اور پرورش کی ذمہ داری عوام پر ہونی چاہیے۔ ان کا اصرار ہے کہ تمام عورتوں کو اسقاطِ حمل پر مکمل اختیار دیا جانا چاہیے۔ اسقاطِ حمل کے تمام قوانین کو ختم کیے جانے پر مصر ہیں وہ چاہتے ہیں کہ عورتوں کو اس بات کا قانونی اختیار حاصل ہو کہ وہ حمل کے کسی بھی مرحلے پر اسقاطِ حمل کر سکیں۔ اسقاطِ حمل کا مطالبہ ہی نہیں بلکہ ان کے مطابق ریاست کی جانب سے ہر اُس عورت کو معاوضہ فراہم کیا جائے جو ایک یا اس سے زیادہ اسقاطِ حمل چاہتی ہو، تاکہ غریب خواتین بھی اس سہولت سے بھر پور فائدہ اٹھا سکیں۔حقوقِ نسواں کی تحریک کے حامیان اس مطالبے پر زور دیتے رہے کہ تعلیمی اداروں میں نصاب لڑکے اور لڑکیوں کے لیے مخلوط ہونے چاہئیں، یعنی ہوم اکنامکس کو لڑکیوں کے لیے اور تکنیکی اور فنی مہارت جیسے انجینئرنگ کو لڑکوں کے لیے مخصوص نہیں کرنا چاہیے۔ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے الگ جمنازیم اور فزیکل ایجوکیشن نہ ہو۔ لڑکیوں کو اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ کھیل کے تمام شعبہ جات میں چاہے وہ جسمانی ہی کیوں نہ ہو لڑکوں کے شانہ بشانہ مقابلہ کریں۔ذرائع ابلاغ کے اداروں میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں تاکہ صنفی امتیاز کو ختم کیا جاسکے اور خواتین کو مردوں کے مساوی تمام شعبہ ہائے زندگی میں پیش کیا جائے۔ ان تحریکات کے حامی، بچوں کی کتابوں پر بھی اس لیے تنقید کرتے ہیں کہ وہ اپنی کہانیوں میں ایک ماںپر مشتمل خاندان کا ذکر کرتی ہیں، ’’غیر شادی شدہ ماں‘‘ اور ’’طلاق یافتہ عورت‘‘ کو ماڈل کے طور پر پیش نہیں کرتیں۔ بنیاد پرست نسائی تحریکات کے علم برداروں نے یہ بھی تجاویز دیں کہ روایتی شادی کے طریقہ کار کے بجائے عورتوں اور مردوں کو مشترکہ قومی فلاح وبہبود کے تحت بسایا جائے، اور بچوں کی ذمہ داری عوام پر عائد کی جائے۔ عوام الناس کو ۲۴ گھنٹوں کی بنیاد پر بچوں کی دیکھ بھال کے ادارے اسی طرح مفت فراہم کیے جائیں جس طرح پارک، لائبریری اور تفریحی سہولتیں موجود ہیں۔ عورت کو مالی طور پر آزاد کیا جائے اور کسی بھی پیشے کو اختیار کرنے پر بہ حیثیت عورت کے اس پر پابندی عائد نہیں ہونی چاہیے۔
نسائی تحریکات کے نظریہ آزادی کی انارکی خواتین کی اکثریت شاید یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ روایتی کردار ادا کرنا چاہتی ہیں، وہ اصل میں خوف زدہ یا اپنی موجودگی کے لیے کسی دوسرے تصور کو خیال میں لانے سے قاصر ہیں۔ نسائی تحریکات کے روایتی رویوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انہیں ایک خاص قسم کا تحفظ فراہم کرتی ہیں یا کر رہی ہیں لیکن ان کا یہ استدلال اس ایک لفظ پر ختم ہو جاتا ہے کہ ان کے اتنے شور و غل کے باوجود عورت آج بھی اتنی ہی بے سرو سامان کیوں ہے جتنی وہ ابتدا میں تھی۔ اصل میں تمام متبادلات حاصل کرنے کے باوجود وہ مزید پریشانی کا شکار ہوگئی ہے۔
اس کی فطری وجوہات اس طرح ہیں:
• عورت اور مرد کے جسمانی فرق کو تسلیم نہ کرنے کے نتیجے نے اس کو کسب معاش کی صعوبتوں میں دھکیل دیا ہے۔
• شادی کے بندھن کے خاتمے کے اصرار اور جنسی آزادی کے مطالبے نے نہ صرف بے راہ روی کا شکار بنایا بلکہ اس کو اپنی مرضی سے خود اپنے آپ کے ہی جسمانی استحصال کا ذریعہ بنایا ہے۔
• گھر اور خاندان کی ذمہ داریوں سے آزادی کے مطالبے نے ذہنی آسودگی کا دروازہ بند کیا ہے۔
• اسقاطِ حمل کی آزادی کے مطالبے نے خاندانی نظام سے بے دخل کر دیا ہے۔
• مرد کے تسلط سے آزادی کے مطالبے نے مغرب کی خواتین کو نہ صرف جنسی بے راہ روی کا شکار بنا دیا بلکہ انہیں ہم جنس پرستی کے دلدل میں بھی دھکیل دیا ہے۔
نسائی تحریکات اور مولانا مودودی کا موقف
اسلام اپنی آمد کے فوراً بعد ہی مرد اور عورت کی اس تفریق کے خاتمے کا اعلان کرتا ہے۔ اس پر مولانا مودودی واضح الفاظ میں روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”نسائی تحریکات، خواتین کی خود اختیاری اور ان کے سماجی و سیاسی حقوق کے باب میں وہ اجتہادی موقف ہے جو روایت پرستی اور تجدّد کے دونوں انتہا پسندانہ نظریات کے مابین ایک نئی راہ اختیار کرنے پر منحصر ہے“۔ ایک طرف قدیم الفکر اور روایت پسند علما ہیں جن میں سے اکثر حضرات عورت کے وجود کو شمع خانہ کی حیثیت دے کر اسے تمام سماجی و تمدنی حقوق سے محروم کر دیتے ہیں تو دوسری طرف انیسویں صدی کے وسط میں چند ایک حقوقِ نسواں کے علم بردار وہ جدید الفکر دانش ور بھی ظاہر ہوئے ہیں جو مغرب کی نسائی تحریکات سے متاثر ہو کر اسے مردوں کے دوش بہ دوش کھڑا کرنے کی وکالت کرتے ہیں اور فطری و خلقی فرق تک کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ کا موقف ان دونوں کے درمیان توازن اور اعتدال کو اختیار کرنے کا ہے۔ ان کے تصورات ان کے مجموعی نظام احیائے دین کا حصہ ہیں۔ ان میں وہ جدید نسائی تحریکات کے متشدد رجحانات کی نفی کرتے ہیں مگر ان پر روایتی فکر کی چھاپ بھی نظر آتی ہے، تاہم اس روایت پسندی پر ان کی اصلاح پسندی اور تجدیدی فکر غالب ہے۔
مولانا مودودی خاندانی نظام کی تشکیل کو اسلامی تہذیب کی تعمیر کے لیے ناگزیر تصور کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے نکاح کے لیے ’حصن‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، جس کا مطلب ہے عفت و پاکیزگی کے قیام و دوام کے ذریعے خاندان کو مضبوط بنانا۔نکاح کا ادارہ میاں بیوی کو قانونی رشتوں میں باندھ کر جنسی بے راہ روی سے دونوں کی حفاظت کرتا ہے۔
نکاح کے بنیادی مقاصد دو ہیں:
(١) پاک دامنی اور عفّت کا تحفظ
(۲) مودّت، سکینت اور رحمت کا خاندان میں فروغ و استحکام اور اس کے ذریعے انسانی تہذیب کا فروغ۔
مولانا مودودی کے مطابق تہذیب وتمدن کی ترقی کے لیے ادارہ خاندان کی تشکیل اور اس کا استحکام ناگزیر ہے۔ نکاح کی صورت میں مرد اور عورت کے درمیان مستقل اور والہانہ وابستگی ہی سے خاندانی نظام وجود میں آتا ہے۔ ان کے نزدیک مساوات مرد و زن کا نعرہ غیر حقیقی، غیر فطری اور حقائق سے دور ہے۔ اسلام نے عورت کے سپرد وہی فرائض کیے ہیں جو فطرت نے اس کے سپرد کیے ہیں۔ اس کے بعد مردوں کے ساتھ بالکل مساویانہ حیثیت دی ہے۔ عزت اور تکریم میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن میں الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ کے مطابق مرد خاندان کا قوام ہے اور اسے کچھ حوالوں سے عورت پر فضیلت حاصل ہے مگر اس فضیلت سے عورت کی کم تری کا پہلو نکالنا غلط ہے۔ بلا شبہ مرد خاندان کا سربراہ ہے اور عورت اس کے ماتحت ہے مگر یہ ماتحتی کسی بھی حیثیت میں مرد کی فوقیت ثابت نہیں کرتی بلکہ اسے ذمہ دار قراردیتی ہے۔
حاکمانہ اختیارات کے غلط استعمال پر مولانا مودودی نے بندش لگائی ہے۔ روایت پسند علما کے علی الرغم وہ تنبیہ کرتے ہیں کہ ’’مرد کو جو اختیارات قوّام کی حیثیت میں دیے گئے ہیں ان کا مرد غلط استعمال نہ کرے اور ان سے ناجائز فائدہ اٹھاکر وہ عورت پر ظلم نہ کرے‘‘۔
ایک دوسری جگہ وہ کہتے ہیں ’’شوہر اور والد اگرچہ قوّام ہیں مگر اس حیثیت کی بنا پر یہ نا مناسب ہوگا کہ وہ عورتوں پر ہر معاملے میں اپنی مرضی مسلّط کریں، مثلاً عورتیں اپنی جائیداد اور ملکیت میں تصرف کا پورا پورا حق رکھتی ہیں۔‘‘
خواتین کی سماجی، معاشی اور سیاسی خود اختیاری کے باب میں مولانا مودودی مغرب کے سخت ناقد ہیں۔ ان کے خیال میں جب عورت پر مرد کے برابر معاشی و تمدنی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا جائے گا تو وہ اپنے اوپر سے فطری ذمہ داریوں کا بوجھ اتار پھینکے گی اور اس کا نتیجہ نہ صرف تمدن بلکہ خود انسانیت کی بربادی ہو گا‘‘۔
اسلام مردانگی (Manhood) اور نسوانیت (Womenhood) دونوں کو انسانیت کے ضروری اجزا تصوّر کرتا ہے اور تہذیبی وتمدنی ارتقا کے لیے دونوں کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ مغربی خواتین اپنی نسوانیت سے محروم ہیں اور مردانہ پن کی ترجمانی کرنے لگی ہیں۔
خواتین کی سیاسی و سماجی اور تعلیمی خود اختیاری کی ترجمانی کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں ’’اسلامی حکومت میں ہر بالغ عورت کو ووٹ کا حق اسی طرح حاصل ہوگا جس طرح ہر بالغ مرد کو یہ حق دیا جائے گا۔ اسی طرح انہیں وراثت اور مال و جائیداد کی ملکیت کے پورے پورے حقوق بھی حاصل ہوں گے اور ان کے شوہروں اور باپوں کو ان کی املاک پر کسی قسم کا اختیار نہیں ہوگا۔ عورتوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کی آزادی حاصل رہے گی۔ مسلمان عورتوں کو ضروری فوجی تعلیم بھی دی جا سکتی ہے۔ اسلامی حکومت عورتوں کے لیے بھی ویسی ہی بابرکت ثابت ہونی چاہیے جس طرح وہ مردوں کے لیے ہے‘‘
مولانا مودودی مرد اور عورت کے دائرہ کار کو ایک دوسرے سے مختلف بتاتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام میں ’’عورت اور مرد، عزت واحترام کے لحاظ سے برابر ہیں۔ اخلاقی معیار کے لحاظ سے بھی برابر ہیں۔ آخرت میں اپنے اجر کے لحاظ سے بھی برابر ہیں۔ لیکن دونوں کا دائرہ عمل ایک نہیں ہے۔سیاست اور ملکی انتظام، فوجی خدمات اور اسی طرح کے دوسرے کام جو مرد کے دائرہ عمل سے تعلق رکھتے ہیں اس دائرے میں عورت کو گھسیٹ لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تو ہماری خانگی زندگی بالکل تباہ ہو جائے گی یا پھر عورتوں پر دوہرا بار ڈالا جائے گا۔ مغربی ممالک کا تجربہ بتاتا ہے کہ وہ صورت حال رُونما ہو چکی ہے۔ آنکھیں بند کر کے دوسروں کی حماقتوں کی نقل اُتارنا عقل مندی نہیں ہے‘‘
***

نسائی تحریکات کے روایتی رویوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ انہیں ایک خاص قسم کا تحفظ فراہم کرتی ہیں یا کر رہی ہیں لیکن ان کا یہ استدلال اس ایک لفظ پر ختم ہو جاتا ہے کہ ان کے اتنے شور و غل کے باوجود عورت آج بھی اتنی ہی بے سرو سامان کیوں ہے جتنی وہ ابتدا میں تھی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 7 مارچ تا 13 مارچ 2021