مبصر: ڈاکٹر معیدالرحمن
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سو سال مکمل ہونے پر رسالہ تہذیب الاخلاق نے صدی نمبر شائع کر کے قدر شناسی کا بہترین ثبوت دیا ہے۔ دسمبر کا شمارہ اپنے محتویات کے سبب ایک دستاویزی اور تاریخی نوعیت کا رسالہ بن گیا ہے۔ یونیورسٹی کا یہ صد سالہ سفر تعلیمی وثقافتی اعتبار سے نہایت خوش گوار رہا ہے۔ اس عرصے میں یونیورسٹی کے تمام شعبوں نے قومی وبین الاقوامی سطح پر ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔ شیخ الجامعہ نے اپنے عہد نامے میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ’’(یونیورسٹی) کے بہت سارے طلبہ، اساتذہ، پدم بھوشن، پدم شری، راشٹرپتی ایوارڈ، گیان پیٹھ ایوارڈ، سرسوتی سمان اور ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں اور اس کے بہت سے سابق طلبہ کو سائنس کے اعلیٰ ترین اعزازات مثلاً انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی، ایف این اے اور شانتی سروپ بھٹناگر ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ فاضل مدیر پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے اس جشن کے موقع کو ثمر آور بنانے کے لیے اس شمارے کو یونیورسٹی کے صد سالہ علمی، ثقافتی سفر کے احاطے کے لیے مخصوص کیا ہے۔ مدیر نے اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ اس شمارے میں یونیورسٹی کے تمام شعبہ جات کی تاریخ، اس کے مضمرات اور علمی کارناموں کو منظر عام پر لایا جائے۔ مدیر نے اپنے اداریے میں محمڈن کالج کے یونیورسٹی بننے تک کے سفر کا اجمالاً ذکر کیا ہے۔ اس عہد کے سیاسی مسائل اور سربر آوردہ دانشوروں کے رد عمل کا تذکرہ بھی شامل ہے۔ ان نشیب وفراز کا بھی بیان ہے جو یونیورسٹی کو قطرے سے گُہر بننے کے عمل میں پیش آئے۔ مدیر نے اس اہم نکتہ کی جانب توجہ دلائی ہے کہ یونیورسٹی کی کوئی مفصل تاریخ ابھی تک مرتب نہیں کی گئی ہے۔ رسالہ کے آغاز میں وہ صدارتی تقریر ہے جو یونیورسٹی کے پہلے شیخ الجامعہ راجہ محمدعلی محمد نے یونیورسٹی کی افتتاح کے موقع پر کی تھی۔ یہ تقریر یونیورسٹی کے اغراض ومقاصد کا لب لباب ہے۔ اس میں مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم کا ذکر ہے۔ ان اسباب کا تجزیہ ہے جن کی بنا پر مسلمان مغربی علوم کے حصول میں متذبذب رہے۔ مسلم یونیورسٹی کے قیام کی غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے جن بصیرت افروز نکات کا اظہار کیا وہ ابھی تک ترقی کے لیے منطقوں کی رہنمائی میں مشعل راہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس یونیورسٹی کی خوش بختی رہی ہے کہ ابتدا سے لے کر آج تک اپنے وقت کے ممتاز دانشور اور اپنے موضوع کے ماہرین کی سرپرستی اسے حاصل رہی۔ ڈاکٹر امتیاز احمد نے یونیورسٹی کے تمام شیخ الجامعہ کا وہ نہایت جامع اور مختصر تعارف پیش کیا ہے۔ پروفیسر عبدالقیوم نے سائنس فیکلٹی کے قیام کی تاریخ اور اس سے متعلق تمام شعبوں کی کارکردگی اور عزائم کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ ان ممتاز افراد کا ذکر کیا ہے جنہیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر انعامات سے سرفراز کیا گیا۔ لائف سائنسز فیکلٹی کے قیام، اس سے متعلق شعبوں اور وہاں کے ارباب کمال پر تفصیلی مضمون پروفیسر وسیم احمد کا ہے۔ پروفیسر جہانگیر وارثی نے آرٹس فیکلٹی کی تاریخ اور اس کے دائرے میں آنے والے تمام شعبوں کی علمی وادبی خدمات کا جامع تعارف پیش کیا ہے۔ ان فضلاء کا بھی ذکر ہے جنہوں نے یونیورسٹی کا نام روشن کیا۔ فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے تفصیلی تعارف پر پروفیسر شمیم احمد انصاری کا مضمون ہے ۔ فیکلٹی آف لا کی تاریخ اور وہاں سے وابستہ نامور افراد کے کارناموں کو پروفیسر شکیل احمد صمدانی نے سپرد قلم کیا ہے۔ ڈاکٹر ندیم اشرف نے دینیات فیکلٹی کی تاریخ کو موضوع بنایا ہے۔ اس شعبہ کے صدور اور معزز علماء کا تذکرہ اختصار اور جامعیت سے کیا ہے۔ فیکلٹی آف کامرس کی تاریخ اس سے وابستہ شعبوں کے بارے میں مضمون پروفیسر ایس ایم امام الحق نے سپرد تحریر کیا ہے۔ پروفیسر جاوید اختر نے فیکلٹی آف مینجمنٹ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ کی تاریخ اور اس سے متعلق ممتاز افراد کے کارناموں پر اپنا مضمون سپرد قلم کیا ہے۔ فیکلٹی آف ایگریکلچرل سائنس کے قیام اور اس کے کارناموں پر پروفیسر مجیب الرحمن نے روشنی ڈالی ہے۔ طبیہ کالج کی تاریخ وہاں کی تعلیمی روداد اور نامور اطباء پر پروفیسر غفران نے ایک تفصیلی مضمون قلم بند کیا ہے۔ ڈاکٹر شارق عقیل نے جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج کی تاریخ وہاں کے تعلیمی نظام کی روداد پیش کی ہے۔ ان معالجین کا بھی ذکر کیا ہے جنھوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ پروفیسر مرزا محمد سفیان بیگ نے ذاکر حسین انجینئرنگ کالج کی تاریخ ، حالیہ کارناموں اور مستقبل کے لائحہ عمل کا ذکر وضاحت وصراحت سے کیا ہے۔ ڈاکٹر اظہر جمیل نے یونیورسٹی پالی ٹیکینک کے قیام، اس سے متعلق شعبہ جات اور وہاں کی علمی خدمات کا تفصیلی احاطہ کیا ہے۔ پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے مسلم یونیورسٹی میں اسلامی علوم کی تدریس وتحقیق پر روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر فرقان سنبھلی نے ویمنس کالج کی تاریخ، اس کے بانی کی مختصر سوانح اور علمی کارناموں پر ایک مضمون سپرد تحریر کیا ہے۔ محمد اسماعیل اصلاحی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینٹرس کو موضوع بنایا ہے۔ ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی نے یونیورسٹی کی صحافتی تعلیم کی تاریخ اور اس سے وابستہ ممتاز طلبہ واساتذہ کا ذکر کیا ہے۔ شعبہ تعلیم کی تاریخ اور اس کے اکتسابات پر ڈاکٹر محمد عابد صدیقی نے سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ مرکز برائے فاصلاتی تعلیم کے قیام اس کے مقاصد اور اس کے دائرہ کار پر عبدالرازق نے تفصیل سے اظہار خیال کیا ہے۔ ڈاکٹر ظفر منہاج کا مضمون شعبہ تاریخ میں تدریس کی روایت شامل شمارہ ہے۔ یونیورسٹی کے ثقافتی اور اقامتی زندگی کو موضوع بناتے ہوئے ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی نے ایک مضمون سپرد قلم کیا ہے۔ مسلم یونیورسٹی کی مساجد کی تاریخ پر معلوماتی مضمون ڈاکٹر عبید اقبال عاصم نے تحریر کیا ہے۔ مولانا آزاد لائبریری کی تاریخ اور وہاں موجود مخطوطات اور کتابوں کی تفصیلات پر حبیب الرحمن چغانی کا مضمون نہایت عمدہ اور معلوماتی ہے۔ اشہد رفیق ندوی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسکولوں کی تاریخ پر ایک مضمون قلم بند کیا ہے۔ رسالہ کے اخیر میں برادرہُڈ سے لے کر اولڈ بوائز تک کے سفر کی روداد کو ڈاکٹر مشتاق صدف نے قلم بند کیا ہے۔ اس مضمون میں ان کلب کا ذکر ہے جن سے علی گڑھ کی اقامتی زندگی کی شناخت متعین ہوتی ہے۔
تہذیب الاخلاق کا صدی نمبر اپنے مشتملات اور ترتیب کے سبب دستاویزی نوعیت کا حامل ہے۔ فاضل مدیر نے جس نقطہ نظر سے رسالہ ترتیب دیا ہے اس سے مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کی ضرورت ایک حد تک مکمل ہوتی ہے۔ یہ رسالہ ماضی کا جائزہ بھی پیش کرتا ہے اور مستقبل کی ترقی کے لیے معنی خیز لائحہ عمل طے کرنے کا محرک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔کووِڈ-۱۹ کی اس عالمی وبا میں صدی نمبر شائع کرنے کے لیے فاضل مدیر کے حوصلے اور جرات کی جتنی داد دی جائے وہ کم ہے۔ میں مدیر کو اس شمارہ پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
٭٭٭
تہذیب الاخلاق کا صدی نمبر اپنے مشتملات اور ترتیب کے سبب دستاویزی نوعیت کا حامل ہے۔ فاضل مدیر نے جس نقطہ نظر سے رسالہ ترتیب دیا ہے اس سے مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کی ضرورت ایک حد تک مکمل ہوتی ہے۔ یہ رسالہ ماضی کا جائزہ بھی پیش کرتا ہے اور مستقبل کی ترقی کے لیے معنی خیز لائحہ عمل طے کرنے کا محرک بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 27 دسمبر تا 2 جنوری 2020-21