تقابل ادیان میں مسلم علما کی خدمات ( قسط 21)
’’ہندو مت اور توحید‘‘ سید حامد علی کی منفرد تصنیف
ڈاکٹر ظفردارک قاسمی،علیگڑھ
ہندو فرقوں کی مشترکہ بنیادوں اور توحید وشرک کے رجحانات پر محققانہ بحث
مولانا سید حامد علی (1993-1923) سابق مدیر ماہنامہ زندگی نَو اور رکن شوریٰ جماعت اسلامی ہند نے تقابل ادیان پر نہایت وقیع اور علمی کام کیا ہے۔ ان کی اس حوالے سے کئی اہم کتب موجود ہیں۔ خاص طور پر انہوں نے غیر سامی ادیان ( ہندو مت، بدھ مت، جین مت، سکھ مت) کو اپنی تحقیق کا میدان بنایا ہے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے دیگر اسلامی موضوعات پر تصنیفات وتالیفات رقم کی ہیں۔ چنانچہ ان کی ایک اہم کتاب ’’ہندو مت اور توحید‘‘ کے عنوان سے دستیاب ہے۔ اس کتاب کی پہلی اشاعت جولائی 1964 میں، ادارہ شہادت حق بارہ دری شیر افگن بلیماران سے ہوئی۔ دوسری طباعت 1966 میں ہوئی۔ کتاب چھوٹے سائز کے 96 صفحات پر مشتمل ہے۔ مصنف نے پیش لفظ میں اپنی تحقیق کا طریقہ اور انداز بیاں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’جیسا کہ آپ کو مطالعہ سے اندازہ ہوگا بیسیوں انگریزی، ہندی اور اردو تصنیفات کا نچوڑ ہے۔ یہ سب کتابیں معیاری ہیں۔ اور اعلیٰ مصنفین کی تصنیف کردہ ہیں۔ کسی مذہب کو پیش کرنے کے تین طریقے ہیں۔
1- مذہب پر اعتراض کرنے کے لیے اس کی صورت مسخ کر دی جائے۔ 2- مذہب کو اس کے ماخذ سے جوں کا توں بیان کر دیا جائے۔ 3- کسی مذہب کے بہترین داعی جس انداز میں اسے پیش کرتے ہیں اسی انداز میں اسے سامنے رکھ دیا جائے۔ ہم نے ہندو مت کے سلسلے میں اکثر و بیشتر تیسرا اور پھر دوسرا طریقہ اختیار کیا ہے۔ پہلی صورت سے نہ صرف اجتناب کیا ہے بلکہ تنقید کی زبان بند رکھتے ہوئے ہم نے ہندو مت کی بہتر سے بہتر تصویر پیش کی ہے جو اس کے بہترین داعی اور شارح پیش کرتے ہیں۔ اس موضوع پر اتنا مستند، سنجیدہ اور وافر مواد آپ کو ان شاء اللہ تعالیٰ کہیں اور نہ مل سکے گا‘‘ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کتاب مناظرانہ اور مجادلانہ اسلوب سے قطع نظر اصول تحقیق کو مد نظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ کتاب میں منفی تنقید و تنقیص اور غیر ضروری باتوں سے کلی اجتناب کیا گیا ہے۔ توازن و اعتدال پر پورے طور پر عمل کیا گیا ہے۔
مباحث کتاب
مولانا موصوف نے ہندو مت کے جن مباحث و مسائل پر عالمانہ و محققانہ گفتگو کی ہے ان کی فہرست اس طرح ہے۔ 1- ہندو مت کیا؟ 2- مشترک بنیادیں۔ 3- ہندو مت کے ماخذ۔ 4- شرک کے رجحانات۔ 5- ہندو سماج میں توحید کے رجحانات۔ مذکورہ محتویات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ درج بالا پانچوں مضامین نہایت اہم اور قابل مطالعہ ہیں۔
ہندو ازم کی حقیقت
فاضل مصنف نے پہلا مسئلہ یہ اٹھایا ہے کہ ہندو مت کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس مسئلے کو نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ قابل اطمینان بات یہ ہے کہ ہندو مت کے متعلق جو بھی چیزیں پیش کی ہیں وہ علماء ہنود کی کتابوں سے پیش کی ہیں۔ چنانچہ جان کلارک آرچر کی کتاب the great religion of the modern world کے حوالے سے ہندو ازم کے متعلق لکھتے ہیں ’’ہندو مت کا کوئی بانی نہیں ہے جس نے کوئی بنیادی پیغام دیا ہو، نہ زرتشت، عیسی علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح کا کوئی رہنما۔ ہندوؤں کے یہاں کنفیوشس کی طرح کوئی شخص بھی نہیں ہے جو طول طویل موروثی روایات کو پوری طرح مرتب کردینے والا ہو۔ سیدھی اور سچی بات یہ ہے کہ ان کے یہاں ایسی شخصیتیں ہی نہیں ہیں جیسے جینیوں کے یہاں مہاویر (سوامی) بدھوں کے یہاں گوتم سانکھیہ منی اور سکھوں کے یہاں گرو نانک۔ ایک مفہوم میں ہندو مت کا بانی انبوہ ہے جس کی شخصیتیں تاریکی میں ہیں‘‘ (ہندو مت اور توحید، صفحہ 5) یہ تبصرہ ہندو کا نہیں ہے۔ ممکن ان پر تعصب کا الزام لگا دیا جائے اور ان کی بات کو غلط ثابت کر دیا جائے۔ البتہ ہم ذیل میں ہندو مفکرین کے افکار پیش کریں گے جن سے ہندو مذہب کے بارے میں پتہ چلے گا کہ وہ کس قدر گنجلک اور مبہم ہے۔ لہٰذا مصنف نے اپنے اس دعویٰ کی دلیل میں ہندو دانشوروں کی رائے بھی جاننے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ کرم چند موہن داس گاندھی کی کتاب ’’Hindu Dharam‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے ’’یہ ہندو مت کی خوش قسمتی یا بد قسمتی ہے کہ اس کا کوئی سرکاری عقیدہ نہیں ہے۔ اگر مجھ سے ہندو عقیدے کی تعریف پوچھی جائے تو میں سادہ لفظوں میں کہوں گا غیر متشدد انہ ذرائع سے حق کی تلاش۔ ایک شخص خدا پر اعتقاد نہ رکھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ہندو کہہ سکتا ہے۔ ہندو مت حق کی پُرزور تلاش وجستجو کا نام ہے۔ ہندو مت تمام مذاہب کے سلسلے میں انتہائی روادار، اس کا عقیدہ سب کو اپنی آغوش میں لیتا ہے‘‘ (ایضاً صفحہ 7) یہ گاندھی جی کی اپنی رائے ہے۔ اس اقتباس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہندو دھرم کسی مسلمہ یا متعین تعلیمات و ارشادات کا مجموعہ نہیں جس پر عمل کر کے انسانیت کو فلاح و نجات حاصل ہو سکے۔ اسی طرح عقیدے کے سلسلے میں بھی کوئی تعلیم واضح اور روشن نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ
گاندھی جی کے بقول یہ دھرم تمام مذاہب کے ساتھ رواداری اور یکسانیت کا خواستگار ہے۔ مگر آج جو لوگ ہندو دھرم کے ٹھیکے دار بنے ہوئے ہیں انہوں نے مزید ہندو دھرم کی شبیہ کو اپنے سیاسی مقاصد کی حصول یابی کی خاطر داغ دار کر دیا ہے۔ یقیناً جو رویہ یا جس طرح سے آج چند لوگ ہندو مذہب کی ترویج و اشاعت کر رہے ہیں ان کو کسی صورت میں ہندو ازم کا متبع نہیں کہا جا سکتا ہے۔ فاضل مصنف نے اپنی کتاب میں صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر رادھا کرشنن کی کتاب ’’Eastern Religion and western thought ‘‘ کے حوالے سے بڑا تفصیلی اقتباس نقل کیا ہے۔ ذیل میں اس کی روح پیش ہے۔ ’’ہندو مت کی بنیاد کسی نسلی عامل پر نہیں ہے۔ یہ فخر و جذبات کی ایک وراثت ہے جس میں ہر نسل وقوم نے اپنا خصوصی حصہ ادا کیا ہے۔ موجودہ ہندو مت کے بہت سے چہرے (دیوتا) انتہائی قدیم ذرائع سے ماخوذ ہیں۔ وہ غالباً اس دور سے بھی آگے کے ہیں جبکہ موہنجو داڑو اور ہڑپا کے لوگ (دراوڑ) اپنے بڑے بڑے شہر، اینٹوں کے شہر بنانے میں مشغول تھے‘‘ (ایضاً صفحہ 7) پتہ یہ چلا کہ ہندو مذہب کا کوئی متعینہ اصول و ضابطہ نہیں ہے۔ طبقات انسانی کے فکر و جذبات اور افکار و نظریات کا سنگم ہے۔ فاضل مصنف نے اس بحث کے اختتام پر اور ہندو مفکرین کی آ راء کی روشنی میں جو تجزیاتی نوٹ درج کیا ہے۔ وہ انتہائی اہم ہے۔ لہٰذا اس کو پیش کرنا نہایت ضروری ہے۔ ’’یہی نہیں کہ ہندو کی کوئی ایسی تعریف نہیں کی جاسکتی جس کے نتیجے میں ہندو سماج غیر ہندو سماج سے ممتاز ہو سکے بلکہ بعض ہندو فرقے ہندو کے لفظ ہی کو نا پسند کرتے ہیں‘‘ (ایضاً صفحہ 16)
ہندو فرقوں میں باہم مشترک بنیادیں
مصنف نے اپنی کتاب میں ایک بحث یہ کی ہے کہ ہندوؤں میں بہت سے فرقے ہیں۔ ان میں باہم تضاد بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود کچھ نکتے ایسے ہیں جن پر تقریباً تمام ہندو فرقے یکجا نظر آتے ہیں۔ اپنے اس دعویٰ کی صداقت انہوں نے سوامی وویکانند کے ایک لیکچر سے کی ہے۔ یہ لیکچر انہوں نے 1897 میں لاہور میں دیا تھا۔ اس کا عنوان تھا "Hinduism its comman beses”
سوامی جی نے درج ذیل اقدار کو تمام ہندو فرقوں میں مشترک قرار دیا ہے۔ ’’کچھ بڑے اصول ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہم سب، خواہ ہم وشنو ہوں یا شیو، شاکت ہوں یا گنپتی، قدیم ویدانتو ں سے ہمارا تعلق ہو یا جدید سے متعلق ہوں یا جدید اصلاحی فرقوں سے، ان اصولوں پر یقین رکھتے ہیں۔ غالباً ہم سب یہاں موجود ہیں۔ اس پہلے نکتے پر اتفاق کریں گے کہ ہم سب ویدوں پر ایمان رکھتے ہیں اور انہیں مذہبی اسرار و رموز کی ازلی و ابدی تعلیمات باور کرتے ہیں کہ اس مقدس لٹریچر کا نہ کوئی آغاز ہے اور نہ کوئی انجام۔ یہ فطرت کا ہم عصر ہے جس کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا اور یہ ہمارے تمام مذہبی اختلافات اور ساری مذہبی کشمکش ختم ہو جانی چاہیے۔ جب ہم اس مقدس کتاب کے حضور کھڑے ہوں ہم سب اس بات پر متفق ہیں ہمارے تمام روحانی اختلافات کے لیے اپیل کی آخری عدالت یہی (مقدس کتاب) ہے۔
دوسرا نکتہ جس پر ہم سب ایمان رکھتے ہیں خدا ہے، جس کی طرف وقتِ معین پر کائنات پلٹ کر جاتی ہے۔ پھر دوسرے ادوار میں کائنات اس سے باہر آتی ہے اور ان عجیب مظاہر فطرت کا مظاہرہ کرتی ہے جنہیں کائنات کہا جاتا ہے۔ ہمارا تصورِ خدا مختلف ہو سکتا ہے اس کے باوجود ہم سب خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص ایک مافوق الفطرت لامحدود طاقت پر، جس سے ہر چیز نکلی ہے جس میں ہر چیز رہتی ہے اور جس کی طرف بالآخر ہر چیز پلٹے گی ایمان نہیں رکھتا اسے ہندو نہیں کہا جاتا۔ تیسرا تصور، جو میں آپ کے سامنے پیش کروں گا یہ ہے کہ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح ہمارا اعتقاد یہ نہیں کہ دنیا اتنے ہزار سال پہلے پیدا کی گئی ہے اور ایک خاص وقت آنے پر ہمیشہ کے لیے فنا کر دی جائے گی۔ اس طرح ہم یہ بھی یقین نہیں رکھتے کہ انسانی روح کائنات کے ساتھ عدم سے وجود میں لائی جائے گی۔ یہ اور ایک نکتہ ہے جس پر میرے خیال میں ہم سب متفق ہیں۔ فطرت کے بارے میں ہے۔ ہمارا یقین یہ ہے کہ اس کی کوئی ابتدا ہے نہ کوئی انتہا‘‘ (ایضاً صفحہ 17- 20)
مذکورہ اقتباس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ سوامی جی کے نظریہ کے مطابق تمام ہندو فرقوں میں تین قدریں مساوی تسلیم کی جاتی ہیں۔1- ویدوں پر ایمان لانا اور انہیں ازلی و ابدی اور آخری اتھارٹی تسلیم کرنا۔ 2- توحید پر ایمان رکھنا 3- آواگون پر ایمان و یقین رکھنا۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا واقعی مذکورہ تینوں اقدار پر ہندو فرقے متحد و متفق ہیں؟ چنانچہ اس کا جواب یہی ہے کہ آواگون کے عقیدے کے علاوہ بقیہ دونوں قدروں پر ہندو فرقے متفق نہیں ہیں۔ اس کے بہت سارے شواہد موجود ہیں۔ فاضل مصنف نے اس کی شہادت ڈاکٹر رادھا کرشنن کی کتاب "Religion and Society” سے دی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے۔ ’’دھرم کے ماخذ میں (1) سرتی یا وید، سرتی میں وید اور تنتر دونوں شامل ہیں کیونکہ ہندو مت کے کچھ فرقوں کے افراد کے نزدیک وید مذہبی سند کا ماخذ نہیں ہیں‘‘ (ایضاً صفحہ20)
ہندو سماج میں شرک کے عناصر
ہندو مت کے متعلق یہ مشہور ہے کہ ہر نفع اور نقصان کی چیز کی پوجا کرلی جاتی ہے۔ نیز تینتیس کروڑ دیوتا ہیں جن کی پرستش ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ان کے مذہبی مصادر کیا کہتے ہیں ذیل کی سطور میں اس پر گفتگو کی جائے گی۔ مولانا سید حامد علی نے ڈاکٹر تارا چند کی کتاب ’’Influence of Islam an Indian Culture‘‘ کے حوالے سے ویدک دور کے دیوتاؤں کے متعلق لکھا ہے ’’ویدوں میں دیوتا تخلیق کی اولین پیداوار ہیں، یہ فطرت کی نیم مجسم طاقتیں ہیں، ان کے اعمال میں بہت کم فرق کیا جاتا ہے اور اس لیے یہ آسانی سے ایک دوسرے میں ضم ہوجاتے ہیں۔ لیکن بعد کے زمانے میں ان کی شخصیتیں زیادہ متعین ہوگئیں۔ ویدک دیو مالا میں ایسے دیوتا شامل ہیں جو آسمان میں رہتے ہیں یا فضا میں یا زمین پر، ان کا شمار 33 ہے، لیکن جن دیوتاؤں کی شان میں ویدوں کے زیادہ منتر ہیں ان میں اندر، اگنی اور سوم زیادہ بڑے شمار ہوتے ہیں۔ ورن سب سے زیادہ اونچا مانا جاتا ہے۔ پرجا پتی تخلیق کا دیوتا شمار ہوتا ہے، وشنو اور شیو کو معمولی اہمیت دی گئی تھی۔ قدیم تر دیو مالائی نظم میں برہما خالق، مہربانی کرنے والا اور سب کا جد امجد ہونے کی حیثیت سے سب دیوتاؤں کا صدر تھا اور اگنی، یم، ورن، کبیر اور اندر سے، سب سے زیادہ دعائیں مانگی جاتی تھیں۔ بعد کے زمانے میں شیو اور وشنو کو غالب پوزیشن حاصل ہو گئی اور انہوں نے برہما کے ساتھ مل کر عظیم تثلیث قائم کرلی‘‘ ( ایضاً صفحہ 62)
اس کے علاوہ بھی کئی اور اہم دلائل پیش کیے ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ ہندو مت میں شرک کے رجحانات ان کی مذہبی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ یہ تمام تر مشرکانہ عقائد عوام میں رائج ہیں جبکہ ہندوؤں کا ایک خاص گروہ ہے جنہیں خواص کہا جاتا ہے وہ توحید کا قائل ہے۔ اس کی تائید بیرونی نے اپنی کتاب تحقیق ماللہند میں بھی کی ہے۔
ہندو مت میں توحید کے رجحانات
اسی کے ساتھ یہ بتا نا بھی ضروری ہے کہ ہندو مت میں توحید کے عناصر و رجحانات بھی پائے جاتے ہیں لیکن توحید کا عقیدہ عوام میں قطعی نہیں ہے بلکہ یہ خواص میں پایا جاتا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ویدوں میں کچھ منتر ہیں جو توحید کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
فاضل مصنف نے (رگ وید 1، ادھیائے 164، شلوک 46) کے توسل سے لکھا ہے ’’وہ جو ایک ہے رشی اسے بہت سے نام دیتے ہیں ،وہاگنی، یم اور ماتر شون کہ کر پکارتے ہیں“ اسی طرح (رگ وید کتاب، 4 ادھیائے 40 اور شلوک 5 ) دوسرا شلوک ملاحظہ کیجئے ”رشی بن کر چمکتے ہوئے آسمان میں، واسو (ہوا) بن کر درمیانی خلا میں ہوتری (آ گ) بن کر قربانی کے آ تش کدے پر، مہان بن کر وہ گھر میں، زندگی بن کر انسان میں اور حق کی حیثیت سے وہ ہر جگہ رہتا ہے“ (ایضاً صفحہ 64) مصنف نے ویدانت کا فلسفہ توحید بیان کیا ہے۔ اس کا خلاصہ سید حامد علی کے الفاظ میں اس طرح ہے۔ ’’یہ ہے اپنشد یا ویدانت کا فلسفہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنشد میں تین مکاتب فکر ہیں۔ ثنویت، محدود وحدت الوجود، وحدت الوجود یا لا ثنویت۔ پہلے نظریہ کی رو سے خدا، روح، اور فطرت (مادہ) یہ تین ازلی و ابدی اور مستقل وجود ہیں۔ خدا صانع ہے خالق نہیں، یعنی وہ عدم سے وجود پیدا نہیں کرتا بلکہ روح اور فطرت میں امتزاج پیدا کرتا ہے اور یہ امتزاج روح کے سابق اعمال کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ خدا، فطرت اور روح یہ تین ازلی و ابدی اور لا محدود وجود ضرور ہیں مگر یہ تین فی الواقع ایک ہیں۔ فطرت اور روح خدا ہی کا ظہور ہیں۔ فطرت اور روح خدا کا جسم ہیں۔ اس طرح کائنات کی ہر چیز خدا ہےاور تیسرا نظریہ یہ ہے کہ کائنات محض خواب ہے، موجود صرف ایک ہی ذات ہے اور وہ لا محدود ہستی ہے۔ خدا ہے۔ مادہ اور روح اسی ایک ذات مختلف انعکاسات ہیں۔ باہر یہ سب فریب اور خواب ہے اور حقیقت کے اعتبار سے ہر شئے خدا ہے۔ ان تینوں نظریات میں خدا کی خالقییت کو رد کر دیا گیا ہے‘‘
(ایضا صفحہ 87-88)پتہ یہ چلا ہندو دھرم کے مذکورہ فلسفہ توحید کو، تصور توحید سے قطعی مناسبت نہیں ہے۔
ہندو مصلحین اور تصور توحید
اس سلسلے میں مصنف نے کئی فرقے اور ہندو مصلحین کا تذکرہ کیا جن کی بابت یہ مشہور ہے کہ ان میں توحید کا تصور پایا جاتا تھا۔ ہندو مت کو ایک مسلک و مشرب کی لڑی میں پرونے کا کام کیا ان میں شنکر اچاریہ کا نام واضح ہے۔ بلکہ ہندو ازم میں ان کا ایک نمایاں مقام ہے۔ ان کے متعلق ڈاکٹر تارا چند کی کتاب Influence of Islam an Indian Culture کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ ’’شنکر اچاریہ نہ صرف یہ کہ اپنے زمانے کی پیداوار تھے بلکہ نئے عہد کے نقیب بھی۔ موحدانہ پرستش ان کے پیش روؤں کی کوششوں سے طاقت پکڑ چکی تھی لیکن ابھی بھی اس بات کی ضرورت باقی تھی کہ اسے فلسفے کی مضبوط بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ اس موحدانہ رجحان کے قیام میں اسلام جیسے غیر مصالحانہ دین توحید کے ظہور سے طاقتور قوت محرکہ حاصل ہوئی‘‘ (ایضا صفحہ 91) لنگایت فرقے کے متعلق ڈاکٹر تاراچند کی مذکورہ کتاب کے حوالے سے مصنف نے لکھا ہے کہ ان کا عقیدہ توحید اس طرح تھا ’’تو ہی واحد خداوند ہے، تو ہی ازلی و ابدی ہے۔ قادر مطلق خدا سے بڑھ کر کوئی لفظ نہیں، قادر مطلق خدا، پشوپتی، کل کائنات میں صرف ایک ہی خدا ہے، تمام سماوی عالم میں، تمام فانی دنیا میں اور پاتال میں ایک ہی خدا ہے۔ مجھے یہ فرضی خدا پسند نہیں آتے۔ میں کیسے کہہ سکتا ہوں کہ دیوتا جو لاکھ سے بنائے جائیں، جنہیں پگھلایا جائے یا وہ دیوتا جنہیں آگ پر تپا کر بنایا جائے وہ اس خدا کے برابر ہو سکتے ہیں؟ میں کیسے یہ کہہ سکتا ہوں کہ دیوتا جو وقت آنے پر بیچے جاتے ہیں، وہ اس خدا کے برابر ہیں؟ وہ دیوتا جو خطرے کے وقت دفن کیے جاتے ہیں اس خدا کے برابر ہیں ؟ دیکھو دوسرے خداؤں کا ساتھ اسے تلاش نہ کرو‘‘
( ایضاً صفحہ 93)
اسی طرح لنگایت کا دوسرا فرقہ سدھار، کا بھی ذکر کیا ہے۔ سماجی مصلحین میں کبیر اور گرونانک، سوامی دیانند جیسے مصلحین کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ گویا ہندو مت میں توحید کا تصور ڈاکٹر تارا چند کی تحقیق کے مطابق بہت واضح ہے۔
کتاب کی افادیت
اس کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ ہندو مت میں توحید کا وہ جامع اور مانع تصور نہیں پایا جاتا ہے جس طرح اسلام میں پایا جاتا ہے۔ ہندو مت کے بنیادی مصادر میں کہیں شرک اور متعدد خداؤں کی پرستش کا ذکر موجود ہے تو کہیں کہیں توحید کے بھی رجحانات پائے جاتے۔ البتہ توحید کے متعلق جو ہندو متبعین عقیدہ رکھتے ہیں وہ خواص کا ہے۔ عوام میں تو بری طرح شرک غالب آ چکا ہے۔ اسی طرح یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہندو مذہب کی کوئی متعین تعریف و توصیف نہیں ہے۔ اس کے متعلق خود ہندو مفکرین غلطاں و پیچاں ہیں ۔ یہی وجہ ہے آج تک کوئی بھی ہندو اپنے دھرم کی کوئی جامع تعریف نہیں کر سکا ہے۔ اگر مذکورہ نکات کا سامنے رکھ مولانا سید حامد علی کی اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے گا تو یقیناً تحقیق و تفتیش کے بہت سے گوشے اجاگر ہوں گے۔
[email protected]
ہندو مت میں توحید کا وہ جامع اور مانع تصور نہیں پایا جاتا ہے جس طرح اسلام میں پایا جاتا ہے۔ ہندو مت کے بنیادی مصادر میں کہیں شرک اور متعدد خداؤں کی پرستش کا ذکر موجود ہے تو کہیں کہیں توحید کے بھی رجحانات پائے جاتے۔ البتہ توحید کے متعلق جو ہندو متبعین عقیدہ رکھتے ہیں وہ خواص کا ہے۔ عوام میں تو بری طرح شرک غالب آ چکا ہے۔ ہندو مذہب کی کوئی متعین تعریف و توصیف نہیں ہے۔ اس کے متعلق خود ہندو مفکرین غلطاں و پیچاں ہیں۔ یہی وجہ ہے آ ج تک کوئی بھی ہندو اپنے دھرم کی کوئی جامع تعریف نہیں کر سکا ہے۔
.
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 10 جنوری تا 16 جنوری 2021