تذکیر بالقرآن

روزہ اور تقویٰ

لئیق اللہ خاں منصوری، ایم اے (بنگلورو)

 

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ
(سورۃ البقرۃ: ۱۸۳)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی ۔‘‘
قرآن مجید کی سورۂ بقرہ کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر روزوں کی فرضیت کا اعلان کیا ہے اور اس کا مقصد تقویٰ قرار دیا ہے ۔اس آیت میں دو الفاظ کی تشریح ضروری محسوس ہوتی ہے۔ایک ’صوم‘ اور دوسرا ’تقویٰ‘۔
٭ ’’صَوم ‘‘کے لغوی معنی کسی شئی سے رک جانے اور اسے ترک کرنے کے ہیں۔چونکہ روزہ کی حالت میں بندۂ مؤمن ایک متعین وقت کے لیے کھانے پینے اور جنسی تعلق سے رک جاتا ہے، اسی لیے اسے صوم کہا جاتا ہے۔
٭ اس آیت میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض رہے ہیں،جس طرح نماز ، زکوٰۃ اور قربانی کے سلسلے میں بھی اسی طرح کی بات قرآن میں بیان ہوئی ہے۔البتہ ان کی تفصیلات ،احکام اور کیفیات میں فرق رہا ہے۔
٭ روزہ بندۂ مؤمن کے اندر ضبط نفس کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔کھانا، پینا، آرام اور جنسی خواہشات ہر انسان کی فطرت میں ودیعت کردی گئیں ہیں۔ لیکن یہ خواہشات اگر بے لگام ہوجائیں تو انسان نفس کا غلام بن جاتا ہے۔ انہیں خواہشات کو قابو میں کرنے کی مشق روزہ کے ذریعہ ہوتی ہے۔
٭ عرب کے معاشرہ میں گھوڑوں کی جنگی تربیت کے لیے بھی ’’صوم ‘‘کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔اس غرض کے لیے گھوڑوںکو بھوکا پیاسا رکھا جاتا، گرم لُو کے آگے کھڑا یا جاتا تاکہ ان کے اندر برداشت کی قوت پیدا ہو اور وہ سفر اورجنگ کے آزمائشی حالات میں ثابت قدم رہ سکیں۔
٭ اسی طرح شریعت میں روزہ کی تربیت مؤمنین کے اندر جذبۂ جہاد کی آبیاری کا بھی ایک ذریعہ رہا ہے۔قرآن میں رمضان کے احکام جہاں ختم ہوئے ہیں، وہاں قتال کا ذکر شروع ہوا ہے۔اس سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ روزوں کی مشق سے اہل ایمان کے اندر صبر و ضبط کی قوت پیدا ہو۔ بھوک و پیاس اور فطری خواہشات سے بے نیازی پیدا ہو،تاکہ وہ آزمائشی حالات میں مجاہدین کی طرح باطل سے مقابلہ کرسکیں۔(جس سال روزے فرض ہوئے(۲؍ہجری)، اسی سال جنگ بدر میں (۱۷؍رمضان) کو اہل ایمان ،باطل کے مقابلے میںصف آرا ہوئے تھے ،جس میں اللہ رب ذو الجلال نے مسلمانوں کو غیر معمولی فتح سے نوازا تھا۔)
٭ دوسری اہم بات جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے وہ روزہ کا مقصد ہے کہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہویا تم متقی بن سکو۔ تقویٰ کے معنی خدا کی نافرمانی سے خود کو بچانے کے ہیں۔ روزہ کی حالت میں ایک مؤمن شعوری طور پرخود کو اللہ کی نافرمانی سے بچاتا ہے۔وہ گناہوں سے بچتا ہے ، صرف اس لیے کہ اسے اللہ دیکھ رہا ہے، یہی تقویٰ ہے۔
٭ روزہ اہل ایمان کے اندر اخلاص کی کیفیت بھی پیدا کرتا ہے۔ اخلاص تقویٰ ہی کا ایک مظہر ہے۔روزہ ایک مخفی عبادت ہے جس کا علم بندہ اور خدا ہی کو ہوتا ہے۔ اس میں دکھاوا نہیں ہے۔ دیگر عبادات میں ریا کے پیدا ہونے کے امکانات ہیں، لیکن روزہ کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ اسے صرف بندہ اور اللہ جانتا ہے۔مؤمن دنیا سے چھپ کر کھاپی سکتا ہے، لیکن وہ ایسا اس لیے نہیں کرتا کہ اس نے روزہ اس کے لیے رکھا ہے جو اسے دیکھ رہا ہے۔ اس طرح اخلاص کا پیدا ہونا روزہ کا ایک اہم مقصد ہے اور اسی لیے روزہ کا اجر بھی بے پایاں ہے۔ حدیث قدسی میں ہے کہ ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دینے والا ہوں/میں خود اس کی جزا ہوں‘‘ (بخاری)
٭ ایک اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے ،رمضان کے مہینے میں فرض کیے ہیں۔اس کی حکمت یہ ہے کہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے اور قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے تقویٰ ضروری ہے(البقرہ:۲)،اور یہ تقویٰ روزہ کے ذریعہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔اس طرح روزہ قرآن سے رہنمائی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزوں کا اہتمام کرتے ہوئے اپنے اندر تقویٰ کی صفت کو پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم قرآن سے ہدایت حاصل کرسکیں اور اس کے ذریعہ دنیا میں اسلامی انقلاب کے لیے کوشش کرسکیں۔ آمین

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 اپریل 2021