سیف اللہ، کوٹہ راجستھان
قران مجید میں اللہ کا فرمان ہے: ’’اور جو بھی میرے ذکر اور ہدایت سے منہ موڑے گا، اس کی زندگی تنگ کردی جائے گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے، وہ فریاد کرے گا’ پروردگار تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا، میں تو دنیا میں انکھوں والا تھا‘ ارشاد ہوگا ’ ایسا ہی چاہیے تھا، دنیا میں تیرے پاس ہماری آیات آئی تھیں تو تُو نے انہیں بھلا دیا تھا‘ آج اسی طرح تو بھلایا جا رہا ہے۔ ہم حد سے گزرنے والے اور رب کی آیات نہ ماننے والے کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں اور آخرت کا عذاب نہایت سخت اور تادیر رہنے والا ہے‘‘۔ (طہٰ 124 تا 127)
ان آیات میں اللہ نے انسانوں کو وارننگ دی ہے کہ اگر تم میرے ذکر سے منہ موڑوگے تو میں تمہاری زندگی تنگ کردوں گا۔ اللہ کی ہدایت سے فیض یاب ہونے کی صلاحیت اگر آدمی نے بالکل ہی ضائع نہ کردی ہو تو اسے جھنجھوڑنے اور زندگی کی کایا پلٹ دینے کے لیے خدا کی یہ وارننگ بالکل کافی ہے۔ خدا کے ذکر سے کیا مراد ہے؟ خدا کا ذکر خدا کا ہدایت نامہ ہے جو زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ بتانے کے لیے اس نے نازل کیا ہے اور جسے ہم پڑھتے تو ہیں لیکن اس کے مطابق نہ اپنی زندگی کو ڈھالتے ہیں، نہ دنیا کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالیں-
اللہ کا ارشاد ہے: ’’اور یہ مبارک ذکر ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے‘‘
ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
’’یہ صرف ذکر یعنی قرآن ہے جو اپنے بیان میں بہت واضح ہے-‘‘
یہ حقیقت ہے کہ انسان اس ہدایت نامہ سے منہ موڑے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں اس کی زندگی تنگ ہے۔ ہر طرف ظلم و زیادتی، لوٹ کھسوٹ، فتنہ و فساد، قتل و غارت گری، انارکی اور درندگی، غنڈہ گردی، عیاشی، سرکشی، بغاوت، رشوت، استحصال، بددیانتی، دھوکہ فریب اور بے ایمانی کا دور دورہ ہے۔ سچائی، دیانت، دوسرے کے حقوق کا پاس و لحاظ، چھوٹے بڑے کی تمیز، شرم و حیا، باہمی اعتماد، حسن ظن، اطمینان، ہمدردی، غم گساری،عدل و انصاف، رحم و کرم اور دل سوزی جیسے انسانی اخلاق کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ زندگی کی الجھنیں برابر بڑھتی جارہی ہیں۔ آنے والا ہر دن پہلے سے بھی بدتر آ رہا ہے، زندگی کی ضرورتیں بڑھ رہی ہیں۔ حاکم ومحکوم کی کشاکش بھی بڑھتی جارہی ہے اور زندگی ہی کا ایک ایک گوشہ نئی بندشوں میں جکڑا جا رہا ہے۔ انسانیت چیخ رہی ہے، کراہ رہی ہے، خدا کے بندے زندگیوں سے بیزار ہیں، زندگی کے مصائب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور زندگی تنگ سے تنگ ہوتی جارہی ہے-
انسانی زندگی کے ان لرزہ خیز مصائب کا علاج صرف یہ ہے کہ انسان پھر خدا کی طرف پلٹے، اس کے ذکر سے منہ موڑنے کے بجائے اس کی روشنی میں زندگی گزارے اور اپنے رب سے اپنا تعلق مضبوط کرے۔ مگر انسان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ ہر علاج کرانے کے لیے تیار ہے، ہر تدبیر آزمانے کے لیے آمادہ ہے۔ اس بحر ظلمات سے سفینہ حیات کو پار لگانے کے لیے ہر وسیلہ اختیار کرنے کے لیے سوچ رہا ہے مگر اس خدا کی طرف رجوع ہونے کے لیے تیار نہیں ہے جس کے حکم اور مشیت ہی سے یہ حالات پیدا ہوئے ہیں اور جس کے سوا کوئی دوسری طاقت نہیں ہے جو ان مصائب کو ٹال سکے۔ خشکی اور تری میں پھیلے ہوئے اس فساد کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ انسان نے خدا کو بھلا دیا ہے۔ اس کی ہدایت سے منہ موڑ لیا ہے اور خدا سے بے نیاز ہو کر من مانی کر رہا ہے۔ انسان اپنے ہی غلط کرتوتوں کا انجام دیکھ رہا ہے اور بھگت رہا ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے: ’’خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے ‘‘۔(الروم : 41)
ترقی کے اس صنعتی دور میں کمی کسی چیز کی نہیں، دولت کی فراوانی ہے’ عیش و آرام کے سارے وسائل فراہم ہیں، انسانی آبادیاں سائنس کی حیرت انگیز ایجادات سے جگمگا رہی ہیں لیکن زندگی سکون واطمینان، سکھ اور خوشی سے محروم ہے، سب کچھ ہے مگر انسان یہ ساری دوڑ دھوپ جس کے لیے کر رہا ہے وہی مفقود ہے اور انسان حقیقی سکون و اطمینان اور سچی خوشیوں کے لیے ترس رہا ہے۔ یہ تو اس دنیا کا عذاب ہے مگر خدا کی وارننگ یہ ہے کہ دنیا میں تو خدا بے زاروں کی زندگی ضیق میں ہوگی ہی، آخرت میں ہم ان کو اندھا اٹھائیں گے۔ یہ فریاد کریں گے کہ پروردگار! دنیا میں ہم انکھوں والے تھے آج تونے ہمیں اندھا کیوں اٹھایا، تو کہا جائے گا ہم نے تمہیں آنکھیں دی تھیں کہ تم حق کو دیکھ سکو اور دیکھ بھال کر اس ہدایت پر چلو جو خدا نے تمہارے لیے بھیجی تھی لیکن تم نے خدا کی آیات اور ہدایات کو بھلا دیا، اس لیے خدا نے اج تمہیں بھی بھلا دیا، تم دنیا میں اندھے بنے رہے، اس لیے آج تمہیں اندھا اٹھایا جا رہا ہے۔خدا فراموشی اور اس کے ذکرو ہدایت سے سرتابی کی دنیوی سزا بھی کس قدر ہولناک ہے مگر یہ اخروی سزا تو واقعی انتہائی شدید اور دیر پا ہے، خدا اس سے محفوظ رکھے۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 3 جنوری تا 9 جنوری 2021