تحر یک کے لیے چیلنجز کے ساتھ مواقع بھی ہیں: امیر جماعت اسلامی ہند
دعوت ہی تحریک کی روح ہے۔ دعوت کے اثرات نظر آنے چاہیئں
پرلی، مہاراشٹر ( دعوت نیوز نیٹ ورک)
مسلمانوں کو خوف کی نفسیات سے باہر نکلنے کی ضرورت۔ مفاد پرستی کی سیاست قابل مذمت
مہاراشٹرا کے پرلی میں سہ روزہ تزکیہ و HRD کیمپ میں مختلف ذمہ داران کا اظہار خیال
تحریک اسلامی کو اگر بہت سے چیلنجز درپیش ہیں تو اسی قدر مواقع بھی میسر ہیں ۔یہ اللہ تعالیٰ کا انعام بھی ہے اور آزمائش بھی۔ اگر ہم نے ان مواقع کا بھرپور استعمال کیا تو ہمیں دنیا میں بھی سرخروئی ملے گی اور آخرت کی کامیابی بھی میسر آئے گی۔ جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کے زیر اہتمام پرلی ویجناتھ، ضلع بیڑ میں سہ روزہ تزکیہ و ایچ آر ڈی کیمپ میں مختلف شعبہ جات کے ذمہ داروں سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے یہ بات کہی۔ امیر جماعت نے "ملک کی موجودہ صورتحال اور ہمارا اپروچ” کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے موجودہ سنگین حالات سے مقابلہ کے لیے صورت گری کی تدبیر واضح کی۔ انہوں نے سورہ القصص کے حوالہ سے بتایا کہ اس میں جلیل القدر پیغمبروں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ نے ان کی تین خصوصیات کا تذکرہ فرمایا ہے کہ وہ بڑی قوت اور بصیرت والے تھے۔ امیر جماعت نے کہا کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جس کے پاس نظریہ بھی ہو اور اس کے نفاذ کی قوت بھی ہو۔ لیڈر کے لیے دونوں خصوصیات ضروری ہیں۔ تیسری اہم خصوصیت آخرت کی فکر ہے۔ امیر جماعت نے کہا کہ آج قیادت کے لیے انہی انبیائی خصوصیات کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر کوئی قیادت کامیاب نہیں ہو سکتی۔ امیر جماعت نے تحریکی قیادت کے لیے ان تین خصوصیات کو اہمیت دیتے ہوئے اس پر بھی زور دیا کہ اس کا حقیقت پسند وعملیت پسند ہونا بھی ضروری ہے۔ امیر جماعت نے پرلی تزکیہ اور ایچ آر ڈی کیمپ کو تاریخی اور یادگار لمحہ قرار دیا۔ انہوں نے دو روز رفقائے جماعت کے درمیان گزارے اور اس درمیان جماعت کے ارکان و کارکنوں کو ذمہ داریوں اور قیادت کے لیے ضروری خصائل سے آگاہ کیا۔ امیر حلقہ مہاراشٹر جناب رضوان الرحمن خان نے اپنے کلیدی خطاب میں پرلی کی جماعت کی کاوشوں اور ان کی بہترین میزبانی سمیت تحریک کے لیے اٹھائی جانے والی بیش بہا مشقت پر ان کی تحسین کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اقامت دین کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اس کا بدلہ اللہ کے یہاں ہے۔ انہوں نے شرکائے کیمپ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ برسوں کی محنت کے باوجود ہم اس ملک کی آبادی کی فکر میں تبدیلی لانے میں ناکام ہیں اس لیے ہمیں غور کرنا چاہیے کہ وہ کون سے کام ہیں جو اثر پذیر نہیں ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کاوشوں کے اثرات یہاں کی آبادی پر نظر آنے چاہئیں۔ امیر حلقہ نے اس عزم کا اعادہ کیا جسے امیر جماعت نے بارہا توجہ دلائی ہے کہ جماعت میں نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور یہ جماعت نوجوانوں کی جماعت بنے۔ انہوں نے احباب جماعت سے امیر جماعت کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے دعوت کی اہمیت و افادیت کو واضح کرتے ہوئے کہا ہمیں دعوت کے کام کو پہلے کی طرح بڑی شد ومد کے ساتھ جاری رکھنا ہے۔ دعوت ہی ہماری بنیاد اور تحریک کی روح ہے۔ امیر حلقہ نے شرکائے کیمپ پر زور دیا کہ اس سہ روزہ کیمپ میں آپ نے جو کچھ سنا اسے اپنے مقام پر نافذ کرنے میں قوت صرف کریں اور جماعت کے جتنے بھی کارکن ہیں ان میں سے کم از کم بیس فیصد کو ارکان میں تبدیل کرنے کے لیے پوری کوشش کریں۔
معاون امیر حلقہ سید ضمیرالدین قادری کے مطابق موجودہ حالات میں سب سے اہم واقعہ فاشسٹ قوتوں کا اقتدار میں آنا ہے اور جس طرح یہ لوگ اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ یہ لوگ کم از کم مزید دس سال تک حکومت میں رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی حالت بہت ہی نازک ہے۔ سرسری طور پر ہی دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عوام کے سامنے دو ہی پارٹیاں ہیں، ان کے پاس ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کے لیے کوئی پروگرام نہیں ہے ۔سید ضمیر قادری نے اس مفروضہ سے انکار کیا کہ مسلمانوں میں سیاسی شعور کی کمی ہے، انہوں نے کئی مثالیں پیش کر کے یہ بتایا کہ مسلمانوں نے سیاسی شعور کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں خوف کی نفسیات سے نکل کر اپنے ووٹ بینک کو مضبوط و پائیدار بنانے کی ضرورت ہے اور یہ کام نچلی سطح سے کرنا ہو گا ۔اس کے لیے ہمیں پختہ اور آزادانہ تجزیہ کی ضرورت ہے۔
عبدالجلیل رکن شوریٰ نے ’’ملک کی موجودہ صورتحال اور ہمارا اپروچ‘‘ کے عنوان سے مذاکرہ کی سرپرستی کرتے ہوئے شرکائے مذاکرہ سے مختلف زاویے سے سوالات کیے۔ مذاکرہ میں شامل ڈاکٹر سلیم خان نے کہا کہ بیانیہ اہم ہے، یہ لوگ ایک بیانیہ تخلیق کرتے ہیں اور پھر اس کے مطابق ماحول بناتے ہیں۔ ٢٠١٩ میں ان کا دوبارہ منتخب ہونا پلوامہ کی وجہ سے تھا ۔ڈاکٹر سلیم خان نے اپنے موقف کے لیے دس اسمبلی الیکشنوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ لوگ بہترکارکردگی انجام نہیں دے پائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ حکومت چلارہے ہیں ان کے پاس کوئی قابل لیڈر نہیں ہے۔ڈاکٹر سلیم خان نے کہا کہ ملک میں کون پریشان نہیں ہے، جو لوگ حکومت میں ہیں انہیں معلوم ہے کہ وہ حکومت کے قابل نہیں ہیں مگر یہ مسلمانوں کو دشمن کے طور پر پیش کر کے حکومت چلانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
اے پی سی آر مہاراشٹر کے ذمہ دار محمد اسلم غازی کہتے ہیں کہ موجودہ فاشسٹ حکومت کے خلاف ملک کی سیاسی پارٹیوں جیسے کانگریس کو سخت موقف اپنانا چاہیے۔ اسلم غازی نے کہا کہ مسلمانوں میں سیاسی شعور کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی لیڈر اپنے اپنے مفاد کی خاطر سیاسی پارٹیوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ سیاسی شعور اور سیاسی بے وزنی دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ کسی ایک پارٹی کو چن لینے سے مسلمانوں کی حالت میں کوئی سدھار نہیں آنے والا ہے۔
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا مہاراشٹر کے صدر شیخ محمد عاقب نے کہا کہ یہاں فرقہ پرستی سے زیادہ مفاد پرستی کی سیاست کا زور ہے، اسی بنیاد پر انتخاب میں حصہ لیا جاتا ہے۔ انہوں نے سیکولرزم اور سیکولر پارٹی یا لیڈر کی اصطلاح پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم آج تک سیکولرزم کی تشریح نہیں کرسکے۔ کوئی شخص جو آج بی جے پی میں ہے وہ کل کانگریس میں جا کر سیکولر ہوجاتا ہے اور جو کانگریس یا کسی دوسری سیاسی پارٹی میں ہے وہ بی جے پی میں جا کر فرقہ پرست ہو جاتا ہے۔عاقب نے کہا آزادی کے بعد سے اب تک ہمارے لیے مواقع ہی مواقع ہیں لیکن ہم ان کا استعمال نہیں کرسکے۔ ہم اپنے متعلق تو سوچتے ہیں لیکن ہمارے پاس بھی ملک کے لیے کوئی پروگرام نہیں ہے، یہی سبب ہے کہ پچیس تیس سال میں ہم رفتہ رفتہ اپنی اہمیت کھو چکے ہیں۔
ایس آئی او ساوتھ مہاراشٹر کے صدر سلمان خان نے موجودہ سیاسی صورتحال پر اپنے خیالات اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس ایک بیانیہ ہے جو وہ پورے ملک کے باشندوں تک پہنچانے میں کامیاب ہے، اس کے برخلاف مسلمانوں کی جانب سے ایسا کوئی بیانیہ نظر نہیں آتا۔مشکلات کا رونا رونے میں نفسیاتی پہلو بھی ہے، جتنی مشکلیں بتائی جا رہی ہیں اس قدر نہیں ہیں۔ ہم سے زیادہ تو ملک کے دیگر طبقات و باشندے پریشان ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف موجودہ فاشسٹ حکومت پر جبر کے تعلق سے کہا کہ طاقت کے غلط استعمال کی بنیاد پر کسی فکر یا کسی قوم کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ سلمان خان نے جماعت کے ارکان، کارکنان اور ذمہ داران جماعت سمیت مسلمانوں کی توجہ اس جانب مرکوز کروائی جس کے مطابق پالیسی سازی پر اثر انداز ہونے والی کچھ آزاد ایجنسیاں ہوتی ہیں جو حکومت کو مشورہ دینے اور مختلف امور پر پروگرام ترتیب دینے کے لیے حکومت کو متوجہ کرتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسی کوئی بھی ایجنسی مسلمانوں کی قیادت میں نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی مسلمان شامل ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ مسلمانوں میں سے باصلاحیت افراد اس جانب بھی رخ کریں یا ایسی ایجنسیوں کے قیام کے لیے راہیں ہموار کریں۔
ایس آئی او سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور نوجوان طارق ذکی نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی حالات تدابیر کی بنیاد پر بنتے اور بگڑتے ہیں، جو بہتر تدابیر اختیار کرے گا وہی کامیاب ہو گا۔ خواتین میں سے بشریٰ ناہید نے اس جانب توجہ دلائی کہ یہاں ظلم تو دلتوں اور دیگر طبقات پسماندہ پر بھی ہوتا ہے لیکن صرف مسلمانوں کا معاملہ ہی سامنے لایا جاتا ہے، حالانکہ جو دوسرے کمزور طبقات پر ظلم و جبر ہورہا ہے اسے بھی اہمیت دیا جانا چاہیے۔ بشریٰ ناہید نے کہا کہ ملک کی سیاسی حالت ان معنوں میں زیادہ خراب ہے کہ پہلے یہ ڈھکے چھپے ہوتا تھا اب علی الاعلان کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صرف سیاست میں شمولیت ہی مسائل کا حل نہیں ہے ہمیں اس سے آگے بڑھ کر بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
شرکائے مذاکرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے امیر جماعت جناب سید سعادت اللہ حسینی نے کہا آزادی کے بعد کے مقابلے میں ملک کے حالات آج سب سے زیادہ خراب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جتنی معاشی نا برابری اور تعصب اب ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھی۔ یہاں تک کہ ایمرجنسی کے سیاہ دور میں بھی عدلیہ کی آزادی کا عالم یہ تھا کہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے ذریعہ دو دستوری ترامیم کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ میڈیا بھی جتنا آج غلام ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔ امیر جماعت نے کہا کہ سیاست نام ہے اصلاح کا، لوگوں کے خیالات کو تبدیل کرنے کا۔ مسلمانوں کے سیاست میں حاشیہ پر جانے کی اہم وجہ ہے ایجنڈے کا نہ ہونا ہے۔ ہمارے پاس سیاست کے لیے یہاں کے عوام اور ملک کی ترقی کے لیے کوئی ایجنڈا ہی نہیں ہے۔ امیر جماعت نے یہ بھی کہا کہ منفی سیاست بھی بری نہیں ہے، ملک اور عوام کے مفاد میں منفی سیاست کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے لیے موقع ہے کہ وہ ایجنڈے پر مبنی سیاست میں قدم رکھیں۔ ابھی تک کے حالات یہ ہیں کہ مسلمانوں کی شناخت پر مبنی سیاست ہی کی جا رہی ہے۔ ہمارا سیاسی ایجنڈا پورے ملک کےافراد کے لیے ہونا چاہیے۔ انہوں نے شرکائے کیمپ سے اپیل کی کہ تخلیقی تصورات کے ساتھ آئیں تو کچھ ہو سکتا ہے۔ یو پی میں ایجنڈے پر مبنی سیاست کامیاب ہوتی نظر آرہی تو دوسری جگہ بھی اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
تزکیہ کیمپ سے مولانا الیاس خان فلاحی، ڈاکٹر سلیم خان، سکریٹری حلقہ ظفر انصاری، ایچ آر ڈی کے مرکزی ڈائریکٹر آئی کریم اللہ، ڈاکٹر عمران احمد خان ڈائریکٹر ایچ آر ڈی مہاراشٹر سمیت کئی اسکالروں نے مختلف عنوانات کے تحت تربیتی ورکشاپ اور مذاکروں کو مخطاب کیا۔
خیال رہے کہ پرلی (مہاراشٹر) ضلع بیڑ کا وہ شہر ہے جہاں کی کل آبادی ۹۰۹۷۵ ہے اور مسلمانوں کی تعداد ۲۹ فیصد کے قریب ہے۔یہاں منعقدہ سہ روزہ کیمپ میں جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کے مختلف شعبہ جات کے ذمہ دار شامل تھے۔ یہ سہ روزہ کیمپ تربیت اور جماعت کے نصب العین کی تفہیم کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ کیمپ میں سب سے زیادہ فروغ انسانی وسائل کے موضوعات زیر بحث رہے اور اسی عنوان سے تربیتی تقریریں یا مذاکرے ہوئے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 27 فروری تا 05مارچ 2022