تبلیغی جماعت سے متعلق متنازعہ مواد پر ایس آئی او اور دیگر تنظیموں نے لیا نوٹس

پبلشر اور مصنفین سے معافی مانگنے اور متن حذف کرنے کا مطالبہ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک گمراہ کن باتوں کا عام ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم بی بی ایس کے نصاب کے دوسرے سال کی حوالہ جاتی کتاب ایسینشیل آف میڈیکل مائکروبایولوجی (Essentials of Medical Microbiology) کے وبا سے متعلق (epidemiology) سیکشن میں ایک ایسی فاش ٖغلطی سرزد ہوئی جو ملک میں مسلمانوں کے تئیں پھیل رہی جعلی اور جھوٹی خبروں کو جِلا بخشتی ہے۔ اس کتاب کے ایک سبق میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے تبلیغی جماعت کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (SIO) آف انڈیا سمیت کئی دینی و ملی تنظیموں نے اس شر انگیزی کا نوٹس لیا اور پبلشر اور مصنفین سے معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ قابل اعتراض متن حذف کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
دراصل اس کتاب میں لکھا گیا تھا کہ ’’بھارت کی مختلف ریاستوں سے تبلیغی جماعت کے پروگرام میں 9000 ملکی اور 960 غیر ملکی افراد شامل ہوئے تھے۔ جن میں کورونا وائرس کی علامتیں ظاہر نہیں ہوئی تھیں جبکہ گھروں کو لوٹنے کے بعد ان میں سے کئی افراد کورونا مثبت پائے گئے تھے۔ یہ لوگ ملک کی مختلف ریاستوں میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنے۔ دلی کے نظام الدین مرکز میں تبلیغی جماعت کے پروگرام کی وجہ سے کم سے کم 4000 کورونا کیسوں میں اضافہ ہوا۔‘‘
معاملہ جب روشنی میں آیا تو ایس آئی او نے باقاعدہ سنجیدگی کے ساتھ جے پی پبلیکشن (Jaypee Publications) سے بات کی اور مواد کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہیں سپریم کورٹ اور کئی ہائی کورٹس کے ریمارکس کا حوالہ دیا گیا جس میں بتایا گیا کہ عدالتوں کے مطابق تبلیغی جماعت کو چند میڈیا ہاؤسز نے بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔ تفصیلی گفت وشنید کے بعد اپوربا ساستری (Apurba Sastry) اور سندھیا بھٹ (Sandhya Bhat) نے معافی نامہ جاری کیا۔
مذکورہ کتاب کے مصنف اپوربا ساستری اپنے معافی نامہ میں لکھتے ہیں کہ ’’میڈیکل مائکروبائیلوجی کے ہمارے تیسرے ایڈیشن کے مواد سے نادانستہ طور پر کسی جماعت کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے تو ہم تہ دل سے معذرت خواہ ہیں۔ نیت صرف وبائی مرض کی شناخت کرنی تھی تاہم لوگوں کے جذبات کو سمجھنے کے بعد اسی کتاب کے تیسرے ایڈیشن کی دوبارہ پرنٹ میں متنازع بیانات کو حذف کر دیا گیا ہے۔‘‘
اس واقعے سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اپنی بات منوانے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہر وقت سڑکوں پر ہی اترا جائے بلکہ شائستگی اور متانت سے بھی اپنے مطالبات رکھے جا سکتے ہیں۔ وہیں اس واقعے سے افواہوں، جعلی خبروں اور فرضی رپورٹس کی خطرناک شکل بھی سامنے آتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ فیک نیوز سے نہ صرف عام بلکہ خاص لوگوں کا ذہن بھی زہر آلود ہو جاتا ہے۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 28 مارچ تا  3 اپریل 2021