تبدیلیِ مذہب سے متعلق اترپردیش کے نئے قانون میں کئی خامیاں ہیں، یہ برقرار نہیں رہ سکتا: سپریم کورٹ کے سابق جج مدن لوکور

نئی دہلی، دسمبر 23: سپریم کورٹ کے سابق جج مدن لوکور نے منگل کے روز اتر پردیش کے نئے تبدیلیِ مذہب مخالف قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس میں بہت سی خامیاں ہیں۔ لوکور نے کہا کہ کسی جج کو سیاست میں آنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن کسی قانون کی آئینی صداقت کی جانچ کرنا ضروری ہے۔

اترپردیش حکومت کے ذریعے نومبر میں منظور کیے جانے والے اس قانون کا مقصد مبینہ ’’لو جہاد‘‘ سے نمٹنا ہے، جو ہندوتوا تنظیموں ایک سازشی اصطلاح ہے، جس میں وہ مسلماں مردوں پر شادی کے نام پر ہندو خواتین کا مذہب تبدیل کروانے کا الزام لگاتے ہیں۔

سابق جسٹس لوکور نے کہا ’’اگر فوری کارروائی کی ضرورت ہو تبھی آئین کو ایک آرڈیننس پاس کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ودھان سبھا اجلاس نہیں ہورہے ہیں تو اس آرڈیننس کو پاس کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اس آرڈیننس کو برقرار رکھنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘

لوکور ایک کتاب کی رونمائی کے دوران ’’ذاتی آزادی اور عدلیہ‘‘ کے عنوان سے پینل ڈسکشن میں خطاب کر رہے تھے۔ کانگریس لیڈر کپل سبل، سابق اٹارنی جنرل مکل روہتگی اور سماجی کارکن میدھا پاٹکر نے بھی اس تقریب میں شرکت کی۔

بحث کے دوران لوکور نے یہ بھی کہا کہ معاشرتی انصاف کے نظریہ کو پچھلے دو سالوں میں عدلیہ میں پامال کیا گیا ہے۔ سابق جج نے مزید کہا کہ وبائی مرض کی وجہ سے عدالت کو پہلے سے کہیں زیادہ ’’سرگرم عمل‘‘ ہونا چاہیے تھا۔

روہتگی نے لوکور سے اتفاق کیا اور کہا کہ اب ایک روایتی عدلیہ کا کردار ختم ہوگیا ہے۔

سبل نے دعوی کیا کہ سپریم کورٹ اپنی راہ سے بھٹک چکی ہے۔ انھوں نے کہا ’’آج جو کچھ ہورہا ہے وہی ایسے معاملات ہیں جو انتہائی سیاسی ہیں۔‘‘

معلوم ہو کہ گذشتہ ہفتے الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس سے کہا تھا کہ وہ مذہبی تبدیلی مخالف نئے قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر جوابی حلف نامہ داخل کرے۔

ایک الگ معاملے میں ہائی کورٹ نے ایک ایسے شخص کی گرفتاری پر بھی روک لگا دی، جس پر اس نئے قانون کے تحت الزام عائد کیا گیا تھا۔ عدالت نے مشاہدہ کیا تھا کہ اس معاملے میں شامل جوڑے کو ’’رازداری کے بنیادی حق‘‘ حاصل ہیں اور وہ بالغ ہیں۔