بھوک یا کورونا: غریبوں، بےسہاروں کی قضا یوں بھی ہے اور یوں بھی
اے رحمان، سینئر وکیل، سپریم کورٹ
عام حالات میں بھی وطنِ عزیز میں بھوک سے ہونے والی اموات کی خبریں آتی ہی رہی ہیںاور ملک کے عوام بھی غریبی کی صورتِ حال سے واقف ہونے کے بعد اس حد تک ان خبروں کے عادی ہو چکے تھے کہ صرف حزبِ اختلاف کے سیاست داں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کی جانب سے ان خبروں پر رسمی سا ردّ ِ عمل اور ایک آدھ جملے میں حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں پر تنقید ہو جاتی تھی اور بس۔یعنی بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ غریبی اور بھوک کو عوام نے زندگی کے ان ناگوار حقائق کے طور پر تسلیم کر لیا تھا جن سے فرار مشکل ہے۔اور زندگی چل رہی تھی ،موت کے شانہ بشانہ۔لیکن کورونا وائرس نے نمودار ہو کر زندگی اور موت کے اس قبول شدہ ریاضی کو تل پٹ کر کے ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ایسے مستقبل کے روبرو کر دیا جس پر محض موت سایہ فگن ہے۔ساؤتھ امریکہ اور افریقہ کے بعض ممالک (جو پہلے ہی غذائی قلّت کا شکار ہیں) میں تو لاک ڈاؤن کے باعث زرعی سرگرمیاں ،کارخانے،ملیں اوردیگر کاروبار نیز سپلائی کے راستے بند ہو جانے کے سبب کروڑوں انسان بھوک کی بے رحم گرفت میں آ چکے ہیں ۔کام اور اس سے ہونے والی آمدنی مکمل طور سے بند ہو جانے کی وجہ سے وہ وقت بالکل نزدیک ہے جب اشیائے خوردنی بازار میں آ بھی گئیں تو اقتصادی طور سے نچلے طبقے کی قوتِ خرید مفقود ہو چکی ہو گی۔یہ تو بڑی آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ عالمی وبا اور اس سے ہونے والی اموات نے امیر غریب کا فرق مٹا دیا ہے کیونکہ سبھی لوگ مساوی طور پر وبا کا شکار ہو رہے ہیں، لیکن بات جب غذا اور زندہ رکھنے کے قابل خوراک کی آتی ہے تو یہ فرق بڑے مہیب طریقے سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔مالی لحاظ سے مستحکم اور متموّل طبقہ زیادہ دام دے کر بھی اپنی بنیادی ضروریات کسی نہ کسی طرح پوری کر ہی لیتا ہے۔مسٔلہ تو ان کے سامنے ہے جو روز کنواں کھود کر پانی پیتے ہیں۔اس وقت دنیا کے درجنوںپسماندہ ہی نہیں ترقّی پذیر ممالک بھی ایسے ہیں جن کے سامنے یقینی بھکمری کا دیو منہ پھاڑے کھڑا ہے۔وبا سے قبل چند افریقی اور ایشیائی ممالک میں شدید غذائی قلّت سے متاثرہ لوگوں کی جو تعدادشمار ہوتی تھی وہ وبا پھوٹ پڑنے کے بعد دوگنی ہو چکی ہے۔عالمی غذائی منصوبہ (World Food Program )کے چیف اقتصادی ماہر عارف حسین نے دو روز قبل بیان دیا ہے کہ اس برس کے آخر تک دنیا کے تقریباً ستائیس کروڑ افراد فاقہ کشی سے گذر کر بھکمری کے دہانے تک پہنچ جائیں گے۔لیکن اگر ہندوستان میں کورونا نے مزیدشدّت اختیارکی جس کے قوی امکانات ہیں اورجس کی پیشگو ئی بھی کی جا چکی ہے تو یہاں اعداد و شمار اور بھی خوفناک ہوں گے۔دنیا نے اس سے قبل بھی غذائی بحران دیکھے ہیں،لیکن وہ سب چند خطّوں یا علاقوں تک محدود تھے اور جن کے اسباب یا تو فطری تھے جیسے نا مساعد موسم اورقحط وغیرہ یاجنگ، سیاسی انقلاب اور سقوطِ معیشت ۔مگر اس مرتبہ دنیا کا سامنا جس غذائی بحران سے ہے وہ عالمی نوعیت کا ہے اور جس کا واحد سبب ہے کورونا وائرس کی وبا جس نے پورے معاشی نظام کو درہم برہم کر کے دنیا کی دو تہائی آبادی کو روٹی،کپڑا اور مکان کے شدید مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ امریکہ ،ساؤتھ امریکہ،اور خود ہمارے ہندوستان میں کام اور خوراک کے مسائل سے متعلّق احتجاج،مظاہرے اور غذائی فسادات (food riots ) تک شروع ہو چکے ہیں۔اور ابھی یہ ابتدا ہے۔ہمارے یہاں ابھی غذائی قلّت نہیں ہے لیکن اشیائے خوردنی کی تقسیم ترقّی یافتہ ممالک کی طرح خودکار نہ ہو کر مزدورپر منحصر ہے۔لاک ڈاؤن نے مزدوروں کو تتّر بتّر کر کے تقسیم کو مشکل کر دیا ہے اور اس پر مستزاد سرکاری افسران اور اہلکاروں کی بدعنوانی جس کے باعث کئی صوبوں میں کھانا مہیّا ہونے کے باوجود لاکھوں افراد فاقہ زدہ ہیں اور سرکاری گوداموں میںذخیرہ شدہ لاکھوں ٹن گیہوں سڑ کر ناقابل استعمال ہو چکا ہے۔
اس وقت سب سے تشویشناک کیفیت بڑے شہروں میں کام کرنے والے ان لاکھوں روزینہ مزدوروں کی ہے جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے دو وقت کی روٹی سے محروم اور مستقبل کی امید کھو کر اپنے گھروں کو جانے کے لئے پیدل ہی نکل پڑے اور اس وقت جہاں تہاں پولیس کے ذریعے روک دیئے جانے پر سڑکوں اور میدانوں میں کھلے آسمان کے نیچے قدرت اور قسمت کے رحم و کرم پر پڑے ہیں۔معدودے چند خوش نصیبوں کو سرکاری پناہ گاہوں میں جگہ مل گئی ہے جہاں انہیں بہزار دقّت ایک آدھ وقت کا کھانا نصیب ہو جاتا ہے۔لیکن اکثریت انہی بد نصیبوں کی ہے جن کے آگے پیچھے ہی نہیں دائیں بائیں بھی موت ہے۔یا تو بھوک سے یا کورونا بیماری سے۔اس بے سرو سامانی کی حالت میں بہت سے کورونا بیماری کا شکار بھی ہو چکے ہیں اور ظاہر ہے ابھی اور بھی ہوں گے ۔کئی اموات ہونے کی اطلاعات بھی ادھر اُدھر سے ملی ہیں لیکن وجوہات کا علم نہیں کیونکہ بے ضمیر میڈیا ان لوگوں کی حالتِ زار کی صحیح اور مکمّل تصویر پیش نہیں کر رہا۔ایسی دہشتناک صورت ِ حال کی کوئی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
جہاں تک لاک ڈاؤن کا سوال ہے اس کا کھلنا یا جاری رہنا دونوں صورتوں میں مزید تکلیف اور بربادی کا باعث ہو گا۔حکومت اور ماہرین دونوں کے لئے یہ ایسی ناگفتہ بہ صورتِ حال ہے جس کا کوئی ’بہتر‘ حل تجویز نہیں کیا جا سکتا۔ بعض ممالک نے لاک ڈاؤن کھولنے کا فیصلہ کیا ہے،غالباً یہی سوچ کر کہ لوگ کم از کم بھوک سے نہ مریں اور آنے والی نسلوں کو مکمّل معاشی بربادی سے بچایا جا سکے۔ یہ دلیل بھی شاید پیشِ نظر ہے کہ پیٹ میں روٹی ہو گی تو وبا کا مقابلہ بھی قاعدے سے کیا جا سکے گا۔
حکومتیں سیاسی اغراض،مفادات اور مصلحتوں کے زیرِ اثر اپنے فرائض ادا کرتی ہیں یا ان سے غفلت برتتی ہیں ۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ انسان کے لئے انسان کی ہمدردی نے بلا تخصیص تمام حدود پار کر کے بڑی بڑی آفتوں کے منہ پھیر دیئے ہیں۔عالمی صحت تنظیم کا کہنا ہے کہ کورونا کی اب تک کی تباہی تو محض نمونہ تھی،بدترین نتائج تو آگے آئیں گے ۔ظاہر ہے غذائی صورتِ حال بھی بدتر ہوتی چلی جائے گی۔ہمارا یہ ملک جہاں اب بھی کروڑوں لوگ خطِ افلاس سے نیچے ہیں شدید غذائی قلّت اور بھوک کا شکار ہونے جا رہا ہے۔وبا کا مقابلہ کرنے کے لئے جو وسائل درکار ہیں وہ تو صرف حکومتوں کی دسترس میں ہیں،لیکن بھوک کا جو عفریت انسانیت کی ہلاکت کے درپے ہے اس کو پسپا کرنا ہمارا مقدّس انسانی فرض ہے۔لہذا اپنے چاروں طرف نگاہ رکھئے۔ان بدنصیبوں پر جنہیں حالات آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر بھکمری کی طرف لے جا رہے ہیں۔ان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کو عزّت نفس اور خودداری کا جذبہ اپنی مصیبت اور ضرورت بیان کرنے سے باز رکھتا ہے۔وہ آپ کی خصوصی توجہ کے مجاز ہیں۔بھوک سے ہونے والی ایک موت بھی اجتماعی ضمیر پر بوجھ تو ہو گی ہی،اس کے لئے ذمّہ دار نہیں تو مجرم ہمارے آپ جیسے وہ لوگ ہوں گے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اپنے گھروں میںمحفوظ و مامون دو کیا تین چار وقت کا کھانا کھا رہے ہیںاگرہم اس کھانے میں ان ضرورت مندوں کا حصّہ مخصوص نہ کریں۔لہذا مساجد،مدارس اور دیگر اداروں کی ’امداد‘ کو خیر باد کہہ کر براہِ راست ضرورت مند اور بھوکے ’انسانوں‘ کی حاجت روائی پر کمر بستہ ہو جایئے۔مساجد،مدارس اور ادارے انسانوں کے لئے ہیں، انسان ہی نہ رہے تو ان کا وجود لایعنی ہے۔ابو بن ادہم کا واقعہ یاد کیجیئے جس سے یہی اعلیٰ ترین سبق ملتا ہے کہ خدا ان لوگوں سے محبّت کرتا ہے جو خدا کے بندوں سے محبّت کرتے ہیں۔اپنے غیرضروری اخراجات میں تخفیف کر کے زیادہ سے زیادہ بھوکے لوگوں کو کھانا فراہم کیجیئے۔اس سے بڑی شاید ہی کوئی عبادت یا ’کار ِ ثواب‘ ہو۔اگر آپ اپنے صلۂ رحمی اور فیاضی کی بدولت بھوک سے ہونے والی ایک موت بھی ٹالنے میں کامیاب ہوئے تو پوری انسانیت کو آپ پر فخر ہو گا۔اللہ جو اجر دے گا وہ تو وہی جانتا ہے۔
مضمون نگار سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ موصوف مختلف سماجی اور ادبی کازوں سے وابستہ ہیں۔ آپ موقر ادارے عالمی اردو ٹرسٹ کے چیئرمین بھی ہیں۔