سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے سی اے اے/این آر سی مخالف مظاہرین کے خلاف یو اے پی اے کے استعمال کی مذمت کی، دہلی پولیس سے مقدمات واپس لینے کا مطالبہ

نئی دہلی، اپریل 23: سول اقدام سے وابستہ اہم شخصیات پر مشتمل تنظیم ’’ہم بھارت کی لوگ‘‘ نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا ہے، جس میں سی اے اے-این آر سی-این پی آر مخالف مظاہروں کے نوجوان رہنماؤں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں روک تھام ایکٹ (یو اے پی اے) کے استعمال کی مذمت کی گئی ہے۔ ان لوگوں کے خلاف یو اے پی اے کے نفاذ اور نوآبادیاتی بغاوت کے قوانین کو ’’فطری طور پر غیر قانونی‘‘ قرار دیتے ہوئے سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے دہلی پولیس سے ان مقدمات کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے ’’ہم جے این یو کے سابق طالب علم ڈاکٹر عمر خالد پر الزام لگانے اور جامعہ کے طلبا میران حیدر اور صفورا زرگار اور دیگر طلبا اور نوجوان رہنماؤں کو گرفتار کرنے کے مرکزی حکومت کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں۔

این پی آر، این آر سی اور سی اے اے کے نفاذ کے حکومتی اقدام کے خلاف ’’ہم بھارت کے لوگ‘‘ ملک گیر احتجاج میں سرفہرست تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’’این پی آر، این آر سی اور سی اے اے مخالف مظاہرین نے اپنے بنیادی حقوق کے مطابق کام کیا جیسا کہ آئین ہند نے انھیں حق دیا ہے اور اسی وجہ سے ان کے خلاف یو اے پی اے کا نفاذ اور نوآبادیاتی بغاوت کے قوانین کا نفاذ فطری طور پر غیر قانونی ہیں۔ یہ شہریوں کے جائز اقدامات کے خلاف غلط طریقے سے اختیارات کا استعمال کرنا ہے۔‘‘

انھوں نے یو اے پی اے کے تحت ان نوجوانوں پر الزام عائد کرنے کے حکومتی اقدام کو ’’تحریک کو کچلنے کی کوشش‘‘ قرار دیا۔

انھوں نے کہا ’’یہ بات واضح ہے کہ حکومت این پی آر، این آر سی اور سی اے اے مخالف مظاہرین کی اس تحریک کو کچلنے کی دھمکی دینے کی کوشش کر رہی ہے، یہ بھول کر کہ ہندوستان گاندھی کی سرزمین ہے جہاں ستیہ گرہ ابھی زندہ ہے۔ حکومت کا عمل کتنا بھی ظالمانہ ہو، مظاہرین امن اور زیادہ عزم کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے رہیں گے۔‘‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت کورونا وائرس کے خلاف جنگ پر توجہ دینے کے بجائے ’’سماجی کارکنوں کو قید میں رکھ کر لوگوں کی تحریک کو کچلنے کی سازش کررہی ہے۔‘‘

سول سوسائٹی کے رہنماؤں نے تین مطالبات کیے ہیں:

1- دہلی پولیس کو واضح کرنا ہوگا کہ ان کارکنوں کے خلاف کس بنیاد پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیاہے۔

2- مرکزی حکومت اس ہراساں کرنے کے عمل کو روکے اور دہلی پولیس فوری طور پر ان الزامات کو واپس لے۔

3- دہلی فسادات کے لیے جو لوگ دراصل اشتعال انگیزی کے ذمہ دار تھے ان کو جوابدہ اور قانون کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے ’’ریاستی طاقت کے ساتھ اس طرح کے غلط استعمال کے وقت ہم ہر شہری اور ہر سیاسی جماعت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہماری جمہوریت کے تحفظ کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہوں۔ ہم میڈیا سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سچائی کے لیے کھڑے ہوں۔‘‘

بیان پر دستخط کرنے والوں میں انجلی بھاردواج، اویکا ساہا، فہد احمد، فرح نقوی، گنیش دیوی، ہرش مندر، کامیانی سوامی، کویتا کرشنن، کرن وسا، لارا جیسانی، مادھری کرشناسوامی، میرا سنگھ مترا، ندیم خان، تیستا سیتلواڑ اور یوگیندر یادو شامل ہیں۔