بھوک سے اموات !

کاش دیے جلانے سے غریبوں کی زندگی سے تاریکی دور ہوتی!

افروز عالم ساحل

کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے نافذ کردہ ملک گیر لاک ڈاون کی وجہ سے بھوک اور فاقہ کشی سے اموات کے معاملے سامنے آنے لگے ہیں۔ لاک ڈاون کے دسویں دن 70 سالہ اپاسی دیوی کی موت کی خبر آئی۔ اپاسی دیوی جھارکھنڈ ضلع رام گڑھ کے گولا تھانے کے علاقے سنگرام پور میں رہتی تھیں۔ بیٹے جوگین نائک کے مطابق ان کی موت بھوک کی وجہ سے ہوئی۔ جوگین کا کہنا ہے کہ اگر غذا ملتی تو ماں کی جان نہیں جاتی۔ ان کا کہنا ہے کہ دو سال قبل امیش ڈیلر سے راشن لیتے تھے لیکن اب نہیں مل رہا ہے بلاک کے چکر لگا کر وہ تھک چکے ہیں۔ جوگین کا کہنا ہے کہ ہم کام کرتے تھے تو گھر چلتا تھا لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے کام بند ہے گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے فاقہ کشی ہے اسی وجہ سے میری والدہ چل بسیں۔

زیادہ تر گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ ہم لوگ بھیک مانگ کر گزارہ کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے پاس نوکری نہیں ہے اور گاؤں میں کوئی کام بھی نہیں ہے۔ دو تین سال سے راشن بھی نہیں مل رہا ہے۔ راشن ڈیلر کے پاس کئی بار گئے اس نے کہا کہ ہمارے بس کی بات نہیں ہے ایم او کے پاس جاو۔ روز روز کھانا کون دیتا چنانچہ یہ بھوکی مر گئی۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ عورت کی موت بھوک سے نہیں ہوئی ہے۔ اب پوسٹ مارٹم کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ اس کی موت بھوک سے ہوئی ہے یا بیماری سے۔

لیکن یہ بھوک سے مرنے کا پہلا معاملہ نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران 26 مارچ کو بہار کے آرا شہر کے جواہر ٹولہ میں رہائش پزیر مسہر سماج کا 8 سالہ راکیش بھوک سے مرگیا۔ راکیش کباڑ چنتا تھا وہیں اس کے والد دیہاڑی مزدور ہیں۔ اس کی والدہ سونامتی دیوی کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کے شوہر درگا پرساد کی مزدوری کا کام بند تھا جس کی وجہ سے ان کے گھر میں 24 مارچ سے ہی چولہا جل نہیں سکا تھا۔

آرا ہی میں یکم اپریل کو ریلوے اسٹیشن کے مشرقی پھاٹک کے قریب نامعلوم درمیانی عمر کے شخص کی لاش لاوارث پائی گئی۔ اس شخص کی لاش مرکزی سڑک کے کنارے ایک بند دکان کے سامنے پڑی تھی۔ متوفی کے جسم پر کپڑے نہ ہونے کی وجہ سے اس کے جسم کی ہڈیاں واضح طور پر دکھائی دے رہی تھیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ شخص بھوک سے مرا ہے۔ تاہم موت کی وجہ کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ یہ شخص عام دنوں میں بھیک مانگ کر گزارا کرتا تھا۔

مدھیہ پردیش کے گوالیار میں بس اسٹاپ پر ایک نوجوان بھوک کی وجہ سے فوت ہوگیا۔ اس معاملے کا پتہ چلتے ہی پولیس موقع پر پہنچ گئی اور تفتیش کے بعد لاش پوسٹ کو مارٹم کے لیے بھیج دیا۔ فی الحال یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ مرنے والا کون تھا اور وہ کہاں سے تھا۔ متوفی کی عمر چالیس سال کے قریب تھی اور معلوم ہوا ہے کہ وہ کچھ دن سے بس اسٹاپ پر ہی قیام پزیر تھا۔ اس معاملے میں پولیس بھی مانتی ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ شخص بھوک پیاس کا شکار ہوگیا۔

وہیں ایک خبر یہ بھی ہے کہ دہلی سے اپنے گھر پیدل جانے والے رنویر نامی ایک مزدور کی موت ہوگئی۔ رنویر کا تعلق مدھیہ پردیش کے مورینا سے تھا اور وہ دہلی کے تغلق آباد میں ایک ریستوران میں ڈلیوری بوائے کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ لیکن دہلی میں جب اس کے سامنے کھانے پینے کا مسئلہ کھڑا ہوا تو وہ پیدل ہی مورینا کے لیے نکل گیا۔ بھوک کی حالت میں جب وہ آگرہ تک پہنچا تو اچانک اس کے سینے میں درد ہوا اور اس کی طبیعت بگڑ گئی۔ پولیس نے اسے فوری طور پر اسپتال پہنچایا لیکن ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دے دیا۔ مدھیہ پردیش سے بھوک کی وجہ سے مزید ایک اور موت کی خبر آئی ہے۔ ضلع دھار کے دھامنود کے گرام پنچایت دودھی میں اپنے گھر سے دور اور اکیلے رہنے والے ایک 55 سالہ سندر لال کی موت ہوگئی، جو کچھ دنوں سے کام نہیں ملنے کی وجہ سے گھر پر ہی تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ اکیلے ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ ڈھابے اور ہوٹلوں میں ہی کھانا کھانے جایا کرتا تھا، لیکن لاک ڈاؤن کے دوران اس علاقے کے قرب وجوار میں موجود تمام ہوٹلوں اور ڈھابوں کو بند کردیا گیا ہے۔ اس وجہ سے سندرلال کو چار دنوں سے کھانا نہیں ملا۔ خدشہ ہے کہ ایسی حالت میں وہ بھوک سے مر گیا۔ تاہم اس کی موت بھوک سے ہونے کی تصدیق باضابطہ طور پر نہیں ہوسکی ہے۔ اس خبر کے بعد سابق وزیر اعلیٰ کمل ناتھ نے موجودہ وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کو خط لکھ کر سندرلال کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ متاثرہ افراد کے لواحقین کو 10 لاکھ روپے کی مالی امداد کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے اس معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

اگر ہم اعداد وشمار کے بارے میں بات کریں تو ہمارے ملک میں ہر سال لاکھوں افراد بھوک کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ نیز اعداد وشمار یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت ان اعداد وشمار کو کم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔

گلوبل ہنگر انڈیکس کے 2015 کی رپورٹ میں ہندوستان 80 ویں مقام پر تو سال 2016 میں یہ مقام 97 ویں نمبر پر تھا۔ 2017 میں 119 ممالک کی فہرست میں ہندوستان کا مقام 100 نمبر پر تھا، جبکہ 2019 کے گلوبل ہنگر انڈیکس میں 117 ممالک کی فہرست میں 102 نمبر پر آگیا ہے۔ اعداد وشمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایشین ممالک فہرست میں ہندوستان کی رینکنگ سب سے خراب ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پڑوسی ممالک پاکستان 94 ویں، بنگلہ دیش 88 ویں، نیپال 73 ویں اور سری لنکا 66 ویں نمبر پر رہ کر ہندوستان سے آگے ہیں۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ 2014 میں ہندوستان اس انڈیکس میں 55 ویں مقام پر تھا۔

یاد رہے کہ نیو یارک ٹائمز اور مغربی ممالک کے بہت سے اہم اخبارات نے ہندوستان میں لاک ڈاؤن میں فاقہ کشی سے اموت کی پیشن گوئی کی تھی، لیکن ہندوستان میں ہندی میڈیا کے بیشتر صحافی اسے بکواس قرار دے رہے ہیں۔نام نہاد سیاسی تجزیہ کار اور سینئر کالم نگار اے۔ سوریا پرکاش نے دینک جاگرن میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں مغربی میڈیا میں لاک ڈاؤن سے تارکین وطن مزدوروں کے فاقہ کشی کے امکان کو ظاہر کرنے والی تصویر بکواس ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ نیویارک ٹائمس کے نمائندے جو ہندوستان کے خلاف پروپیگنڈہ کو فروغ دے رہے ہیں وہ کم از کم اپنے اخبار کے ادارتی تبصرے ہی پڑھ لیں جس میں ٹرمپ پر حملہ آور ہو کر مسلسل لکھا جا رہا ہے کہ اس وبا کا سب سے خوفناک منظر ابھی آنا باقی ہے۔ ڈاکٹروں کی صلاح سنی جائے کیونکہ یہ ملک گیر لاک ڈاؤن کا وقت ہے۔ تمام امریکی ماہرین کے مطابق امریکہ پہلے ہی ٹریک کرکے وائرس کو روکنے کا موقع گنوا چکا ہے۔

بہرحال اپنے ملک کے اس قسم کے صحافیوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک میں بھوک کی وجہ سے ہونے والی اموات کو قبول کریں گے۔ لیکن ملک میں خوراک کا حق جیسے قانون کے باوجود اس طرح بھوک سے اموات ہونا واقعی کئی سوال تو کھڑے کرتا ہی ہے۔ اور ساتھ ہی یہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ حکومت جن راحت رسانی کے کاموں کے دعوے کر رہی ہے وہ تمام شہریوں تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔

وہ تو شکر ہے کہ ملک کے عام لوگ ومختلف تنظیمیں لوگوں کو دو وقت کا کھانا فراہم کرنے میں لگی ہوئی ہیں لیکن مجھے گاؤں میں آباد لوگوں کی فکر ہے۔ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ براہ کرم دیہی ہندوستان پر خصوصی توجہ دیں۔ بھوک کی وجہ سے ان کی زندگی کا چراغ بجھ گیا تو کوئی دِیا کوئی ٹارچ لائیٹ کوئی موبائل فلیش لائیٹ جلا کر کوئی فائدہ نہیں۔

اپنے ملک کے اس قسم کے صحافیوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ ملک میں بھوک کی وجہ سے ہونے والی اموات کو قبول کریں گے۔ لیکن ملک میں خوراک کا حق جیسے قانون کے باوجود اس طرح بھوک سے اموات ہونا واقعی کئی سوال تو کھڑے کرتا ہی ہے