بھوکوں کو کھا نا کھلانا، اللہ کو راضی کرنے والا عمل
عتیق احمد شفیق اصلاحی ،بریلی
کھانے کے لیے عربی میں طعام اور بھوک کے لیے جوع کے الفاظ آتے ہیں۔ قرآن مجید میں ۲۶ بار طعام اور ۵ بار جوع کے الفاظ آئے ہیں قرآن مجید نے طعام کے لفظ کو کئی پہلو سے استعمال کیا ہے اس کا ایک پہلو یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ بھوکوں اور ضرورت مندوں کو کھانا کھلایا جائے۔ اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔ دنیا میں انسانوں کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جن کو اللہ نے فراوانی، آسودگی، فراخی، کشادگی بخشی ہے جب کہ دوسری قسم ان کی ہے جو انسانی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ تنگی، پسماندگی، درماندگی، خستہ حالی سے دو چار ہیں۔ دو وقت کی روٹی تن ڈھکنے کے لیے کپڑے، سر چھپانے کے لیے چھت نہیں۔ بیمار ہو جائیں تو دوا کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بنانے والے کی اس میں کیا مصلحت ہوگی۔ قرآن بتاتا ہے کہ یہ امتیاز وفرق بے مقصد نہیں بلکہ با مقصد ہے۔ اور وہ مقصد آزمائش وامتحان ہے۔ اللہ نے جن لوگوں کو آسودگی و فراوانی عطا کی ہے ۔ وہ اس کو صرف اپنا حق نہ سمجھیں ۔اس سے عیاشی ،فضول خرچی نہ کریں بلکہ محروم ، مجبور، بے سہارابندوں کا بھی اس میں حق سمجھیں۔ ان کی ضرورتوں کا بھی خیا ل رکھیں ۔ سب سے بنیادی ضرورت کھا نا ہے ۔ یعنی بھوکو ں کو کھانا کھلائیں۔ جب اللہ انسان کو آسائش عطا کر تا ہے تو اس کی اس بات میں آزمائش ہے کہ وہ مال وطاقت کو پا کر اللہ کا شکر گزار بنتا ہے یا نا شکری کرنے لگتا ہے۔ اس کو اپنی قوت وصلاحیتوں کا نتیجہ سمجھتا ہے اور کبر و غرور اور نخوت میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ یا یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ اس کی صلاحتیوں کے نتیجہ میں اس کو فراوانی سے نواز گیا خدا کے یہاں اس کا ایک مقام ہے خد ا اس سے راضی ہے اسی لیے تو اس کو نواز رہا ہے یا اس کے اندر محروم لوگوں کے لیے ہمدردی کا جذبہ ابھرتا ہے یا محروم لوگوں کے بارے میں یہ سوچ بنتی ہے کہ یہ تو اسی کے مستحق ہیں۔
محروموں ، بے بسوں ، محتاجوں، بھوکے لو گوں کی بھی آزمائش ہے کہ وہ تنگ حالی ،عسرت میں کیسی زندگی گزارتے ہیں،ان کا رویہ کیا رہتا ہے۔ تنگ حالی میں صبر کرتے ہیں۔ تنگی کے باوجود کوئی غلط قدم نہیں اٹھاتے ہیں ۔ رب کی رضا میں راضی رہتے ہیں یا پھر مجبوری ،بے کسی کے عالم میں صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں ۔حدود الہی کو پار کر جاتے ہیں ۔ جس کو مفلسی میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔ تو اس کی آزمائش ہو تی ہے کہ آیا غربت و مفلسی میں صبر کرتا ہے یا گلہ شکوہ کرنے لگتا ہے اور زندگی جینے کا حوصلہ ہی کھو بیٹھتا ہے اور یہ سمجھ بیٹھتا ہے کی اللہ کہ نگا ہ میں اس کا کوئی مقام نہیں ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’مگر انسان کا حال یہ ہے اس کا رب جب اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اسے عزت اور نعمت دیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنادیا۔ اور جب وہ اس کو آزمائش میں ڈالتا ہے اور اس کا رزق اس پر تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا‘‘( سورہ فجر ۱۵۔۱۶)
بھوکوں کو کھانا کھلانے کے دنیا میں بے شمار فائدے ہیں بھو کوں کو کھا نا کھلانے سے معاشرے کے مالدار اور غریبوں کے درمیان نفرت وکدورت کی دیوار کھڑی نہیں ہوتی۔چوری ڈکیتی کی وارداتیں، قتل کے واقعات نہیں ہوتے ، رشتے ناطے خراب اور ٹوٹتے نہیں ہیں۔ بھوکوں کو کھاناکھلانے سے معاشرے میں محبت والفت کی فضاء قائم ہوتی ہے۔ تعاون وہمدردی کا ماحول پروان چڑھتا ہے۔ بھوکوں کھانا کھلا نا اسلام کے نزدیک بہت ہی بڑی نیکی ہے اس کے ذریعہ بندہ رب سے قریب ہوتا ہے ۔ جنت کا مستحق ٹھیرتا ہے۔ آخرت کی کامیابی ، بلند درجات، اللہ کی نصرت ومدد آتی ہے ۔ انسان سے غلطیاں ہو جاتی ہیں ۔ اسلام نے ان کی معافی کے لیے پورا ایک نظام بیان کیا ہے اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض غلطیوں کی معافی کے لیے اس نے بطور سزا مسکینوں کو کھانا کھلانا رکھا ہے مثلاً اگر کوئی ظہار کر بیٹھے تو بطور کفارہ ۶۰ مسکینوں کو کھا نا کھلانا ہو گا۔ فمن لم یستطع فاطعام ستین مسکینا ( مجادلہ ، ۴) جو اس پر قادر نہ وہ ۶۰ مسکینوں کو کھا نا کھلائے۔حاجی حالت احرام میں شکار کر نے کی غلطی کر بیٹھے تو اس کا کفارہ چند مسکینوں کو کھاناکھلانا ہو گا ۔ ’’اے لو گو جو ایمان لائے ہواحرام کی حالت میں شکار نہ مارو اور اگر تم میں سے کوئی جان بوجھ کر ایسا کرگزرے تو جو جانور اس نے مارا ہو اسی کے ہم پلہ ایک جانور اسے مویشیوں میں سے نذر دینا ہو گا جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کریں گے یہ نذرانہ خانہ کعبہ پہنچایا جائے گا یا نہیں تو اس گناہ کے کفارہ میں چند مسکینوں کو کھا نا کھلانا ہو گا۔کوئی شخص بالقصد قسم کھا کر اس کو توڑ دیتا ہے تو اس کا کفارہ دس مسکینوں کو کھا نا کھلانا ہے ‘‘ ( مائدہ،۹۵)
اسلام بھوکوں کو کھا نا کھلانے پر بہت زور دیتا ہے۔اس کو مالداروں پر حق بتا یا ہے۔بھوکوں اور ضرورت مندوں کے کام آنے کے فوائد درج ذیل ہیں:
اللہ کی رضا حاصل ہو تی ہے :۔اللہ کی رضا اور آخرت کی فلا ح کے لیے ضروری ہے کہ بھوکوں کا خیال رکھا جائے ۔’’اللہ کی محبت میں اپنا دل پسندمال رشتے داروں اور یتیموں مسکینوں اور مسافروں پر مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے‘‘ (البقرہ) ۔ اسی طرح سورہ روم کی آیت ۳۸ میں ارشاد ہے ’’رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین ومسافر کو (اس کا حق) یہ طریقہ بہتر ہے ان لو گوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں اور وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔
سب سے اچھا عمل :۔ اسلام کے نزدیک سب سے اچھا عمل بھوکوں کو کھا نا کھلانا ہے۔ ایک شخص نے رسول ﷺ سے سوال کیا کہ سب سے افضل اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا تطعم الطعام و تقرء السلام علی من عرفت و من لم تعرف (بخاری، مسلم) کھانا کھلانا ہر شخص کو سلام کرنا خواہ تم اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو
بہترین صدقہ :۔ اسلام کی نظر میں بھوکے انسان کو کھانا کھلانا سب سے بہترین صدقہ ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ بہترین صدقہ یہ ہے کہ تو کسی بھوکے کوپیٹ بھر کھانا کھلائے‘‘۔لیس المومن من یشبع و جارہ جائع الی جنبہ (بخاری، مسلم) وہ شخص ایمان نہیں رکھتا جو خود تو پیٹ بھر کرکھا لے اور اس کا ہمسایہ اس کے پہلو میں بھو کا رہ جائے۔ نبی ﷺ نے فرمایا : تم مریض کی عیادت کرو ،بھو کے کو کھانا کھلاؤ اور قیدی کی رہائی کا انتظام کرو۔(بخاری)
دل کی نرمی کا سبب :۔بھوکے کو کھانا کھلانے سے دل نرم ہوتا ہے ۔ ایک شخص نے اللہ کے رسول ﷺ سے شکایت کی اے اللہ کے رسولﷺمیرا دل سخت ہے حضورﷺنے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہو جائے تو مسکین کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرو(مسند احمد)۔
مسکین کی ضرورت پوری کرنے والا مجاہد کی طرح ہے : ۔ جو شخص مسکینوں کی مدد کرنے لیے دوڑ دھوپ کرتا ہے اس کا اسلام میں بڑا مقام ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا : بیوہ اور مسکین کی مدد کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا ایسا ہے جیسے جہاد فی سبیل اللہ میں دوڑ دھوپ کرنے والا (حضرت ابوہر یرہ ؓ روای حدیث کہتے ہیں) مجھے یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ حضور نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ ایسا ہے جیسے وہ شخص جو نماز میں کھڑا رہے اور آرام نہ لے اور وہ پے درپے روزے رکھے اور کبھی روزہ نہ چھوڑے ۔ (بخاری و مسلم) –
جنتیوں کی صفت:۔ ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنا اسلام میں نیکی اور پسندیدہ عمل ہے لیکن بھوکوں کو کھا نا کھلانا بہت ہی اونچا عمل ہے ۔ اس لیے کہ دوسری ضرورت کے باوجود انسان زندہ رہ سکتا ہے لیکن بھوک کے بعد تو موت ہی ہے۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا جنت میں لے جانے والا عمل ہے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان اور جنتیوں کی علامت بتائی گئی ہے کہ وہ اللہ کی محبت میں غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِیْناً وَیَتِیْماً وَأَسِیْراً إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لَا نُرِیْدُ مِنکُمْ جَزَاء وَلَا شُکُوراً(الدھر :۸،۹) اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ جنت میں لے جانے والا عمل :۔ غلاموں کو غلامی سے آزاد کرانا، مسکین و یتیم کو کھانا کھلانا بہت بڑی نیکی ہے خاص کر جب کہ قحط کی وجہ سے فا قہ کشی کی نوبت آ گئی ہو لوگ بھوک سے موت کے قریب آ لگے ہوں ایسے فاقے کے دنوں میں کسی فاقہ کش کو کھانا کھلانا اور بڑی نیکی ہو جاتی ہے اور اس کی اہمیت اور کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہ نیکی کرنا بڑی دشوار گزار بات ہے کیونکہ مال سے انسان کو محبت ہوتی ہے بظاہر معلوم ہوتا کہ دولت خرچ ہو رہی ہے انسان دل کی اس گراں باری کو برداشت کرتے ہوئے بھوکوں کو کھانا کھلا تا ہے تو بڑے ہی حوصلہ مندی کا کام کرتا ہے۔ اس حوصلہ مندی کی راہ کو اختیار کر کے ہی انسان ایمان والوں میں شامل ہو سکتا ہے اور جنت تک پہنچ سکتا ہے۔ آج کل جب کہ پور ے ملک میں لاک ڈاون کر دیا گیا ہے اس موقع پر جو لوگ روزآنہ مزدوری کرکے زندگی بسر کرتے تھے ان کے زندگی ایک سخت مرحلے سے گزار رہی ہے۔ ان میں بھی دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ ہیں جو لوگوں کے سامنے اپنے ضرورت رکھ دیتے ہیں دوسرے وہ جو اپنے گھروں میں مقید ہیں کھانے پینے کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ایسے میں ان تک کھانا پہنچانا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ قرآن میں ایسے ہی لو گوں کو مسکین کہا گیا ہے ایسے سخت حالات میں لوگوں کے کام آنے کو قرآن یوم ذی مسغبہ کہتا ہے بھوک کے زمانے میں ضرورت مندوں تک کھانا پہونچانا ایک مشکل کام اور مشکل مرحلہ ہے لیکن اس مشکل مرحلے کو پار کر کے ہی جنت کی امید لگائی جا سکتی ہے ۔
اسلام میں بھوکوں اور مجبوروں کا خیال نہ رکھنا بہت بڑا جرم ہے اس کے سلسلہ میں بڑی وعیدیں ہیں۔
جہنمیوں کی علامت: ۔ جو لوگ دنیا میں اپنی مالداری اور طاقت کے نشہ میں چور رہتے ہیں۔مسرفانہ، پرتعیش زندگی گزارتے ہیں، بھوکوں وضرورت مندوں کا کبھی خیال تک نہیں آتا بلکہ اپنی طاقت کے نشہ میں غریبوں کو خاطر میں نہیں لاتے، نہ تو خود بھوکوں کو کھلاتے ہیں اور نہ دوسروں کو بھوکوں کو کھلانے پر ابھارتے ہیں ۔اللہ کے نزدیک اہل ثروت کا یہ طرز عمل نہایت مبغوض ہے ان کے اس رویہ کی وجہ سے اللہ ان کو جہنم میں پھینک دے گا۔ ارشاد ربانی ہے۔ ’’(حکم ہو گا) پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو پھر اسے جہنم میں جھونک دو پھر اس کو ستر ہا تھ لمبی زنجیر میں جکڑ دو۔ یہ نہ اللہ بزرگ پر ایمان لاتا ہے اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا ‘‘(الحاقہ ۳۰ ۔ ۳۴)۔عقیدہ آخرت کے انکار کی علامت :۔ جو شخص ضرورت مندوں کی ضرورت کا خیال نہیں رکھتا یتیم وبے سہارا کے تیئں ہمدردی کا کوئی جذبہ نہیں رکھتا نہ بھوکوں کو خود کھانا کھلاتا ہے نہ کسی کو کھانا کھلانے پر اکساتا ہے اور جب یتیم بے سہارا مسکین اس کے پاس آئے اور منع کرنے کے بعد بھی اپنے ضرورت رکھے منت سماجت کرے تو اس کا دل نہ پسیجے اور نرم نہ پڑے بلکہ وہ ان کو دھتکارے دے حقارت سے بھگانے کی کوشش کرے دھکے دے یہ ایسی رذیل حرکت ہے کہ کوئی ایسا شخص جس کے دل میں ایمان ہو وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ ایسا تو وہی آدمی ہی کر سکتا ہے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتا جو اللہ کے حضور جواب دہی کے احساس خالی ہو۔ وہی شخص انفاق فی سبیل اللہ، خدمت خلق، مسکین کی ہمدردی اور بھوکے کو کھانا کھلانے کے جذبہ سے عاری ہو سکتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔ ’’تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا وسزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اکساتا ‘‘(سورہ ماعون ۱۔۳) ۔
مال کی حرص کا نتیجہ :۔بھوکے کو کھانا نہ کھلانا مال کی حرص کی وجہ سے ہوتا ہے یتیم کا مال ہڑپ کرنا اس کا احترام نہ کرنا مسکینوں کو کھانا نہ کھلانا اور نہ دوسروں کو اس کے لیے اکسانا بھوکوں کی بھوک مٹانے کی طرف توجہ نہ دینا۔ مال کی حرص اور بے جا محبت میں گرفتار ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ وتحبون المال حبا جما (فجر :۲۰) مال کی محبت میں بری طرح گرفتا ہو۔
قیامت کے دن سوال ہوگا:۔ بھوکوں کو کھانا کھلانا اللہ کے نزدیک اتنا اہم معاملہ ہے کہ جب اس کی عدالت لگے گی اور وہ فیصلہ کے تخت پر جلوہ گر ہوگا تو وہ اپنے بندوں سے جن کو اس نے دنیا میں نوازا تھا ان بندوں کے بارے میں پو چھے گا جو دنیا میں بھو کے تھے کہ ان کو کھانا کھلایا یا نہیں لیکن سوال کا انداز بھی کیا عجب ہوگا سوال کے انداز سے بھی بھوکوں کو کھانا کھلانے کی اہمیت عیاں ہوتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تھا تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ عرض کرے گا اے میرے رب ! میں کیسے آپ کی عیاد ت کرتا آپ تو ساری کائنات کے رب ہیں۔ اللہ تعالی فرمائے گا تو نہیں جانتا کہ میرا بندہ بیمار تھا اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ وہ عرض کرے گا اے میرے رب! میں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا حالانکہ آپ تو ساری کائنات کے پروردگار ہیں۔ اللہ تعالی فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا اور تو نے اسے نہیں کھلایا۔ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اسے کھلاتا تو اس کھانے کو میرے یہاں پاتا۔
اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں دیا۔ وہ عرض کرے گا، اے میر ے رب! میں کیسے آپ کو پانی پلاتا حالانکہ آپ تو ساری کائنات کے رب ہیں ۔ اللہ تعالی فرمائے گا میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا لیکن تو نے اسے پانی نہ پلایا اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو اس پلائے ہوئے پانی کو میرے یہاں پاتا۔ (مسلم)
مسکین کون ہے:۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے جہاں زکوٰۃ کے مصارف بتائے ہیں ان میں فقیر اور مسکین کا ذکر کیا ہے لیکن عام طور پر جہاں صدقہ کرنے کی بات فرمائی ہے وہاں زیادہ تر مسکین کا ہی ذکر کیا ہے۔ مذکور بالا آیات اور احادیث میں مسکین کا ذکر ہی کیا گیا ہے مسکین کون لوگ ہوتے ہیں حدیث میں اس کی بھی وضاحت فرمادی گئی ہے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ۔ مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کے دوازے کے چکر لگاتا ہے اور ایک لقمہ دو لقمے اور ایک کھجور اور دو کھجور لے کر لوٹتا ہے بلکہ مسکین وہ ہے کہ جو اتنا مال نہیں رکھتا ہے کہ اپنی ضرورت پوری کر سکے اور اس کی غربت کو لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ اسے صدقہ دیں اور نہ وہ لوگوں کے سامنے کھڑا ہو کر ہاتھ پھیلا تا ہے۔ (بخاری مسلم) لاک ڈاون میں لوگوں کے تعاون کی ایک عام فضا ہے لیکن اس موقع پر کٹ تقسیم، راشن تقسیم یا دیگر چیزوں کی تقسیم کے وقت اپنے رشتے داروں، اڑوس پڑوس کے لوگوں کا ضرور دھیان سے جائزہ لے کر ان کا خیال رکھا جائے! ایسا نہ ہو کہ مسکین لوگ گھر میں پریشان حال رہیں کیونکہ قریب رشتہ پر صدقہ کا دوگنا اجر ہے ایک صدقہ کا دوسرا صلہ رحمی کا۔
نبی ﷺ کا نمونہ :۔ نبیﷺلوگوں کا بہت خیا ل رکھتے تھے کسی سائل اور ضرورت مند کو واپس نہیں کرتے تھے۔ اگر آپ کے گھر میں کچھ بھی نہیں ہوتا تو صحابہ کو آمادہ کرتے تھے۔ منذر بن جریر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول ﷺکے پاس تھے دن کے شروع کے وقت کچھ لوگ آئے ننگے پیر ننگے بدن گلے میں چمڑے کی عبائیں پہنے اپنی تلوار لٹکائے ہوئے آئے وہ سب قبیلہ مضر کے لوگ تھے رسولﷺنے ان کی فقر وفاقہ کی یہ حالت دیکھی تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا ان کو دیکھ کر آپ گھر میں تشریف لے گئے پھر باہر آئے اور بلال ؓ سے اذان دینے کا حکم دیا اذان ہوئی تکبیر ہوئی اور نماز پڑھی گئی اس کے بعد آپ ﷺ نے تقریر فر مائی یہ آیت پڑھی یا ایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدہ آخر تک پھر سورہ حشر کی آیت پڑھی اتقوا اللہ ولتنظر نفس ما قدمت لغد۔ ایک شخص نے اشرفی صدقہ کی ایک آدمی نے درہم صدقہ کیا کسی نے ایک صاع گیہوں کسی نے ایک صاع کھجور دینا شروع کیا انصار میں ایک صاحب اتنا سامان لائے کہ ان کے ہاتھ تھکے جا رہے تھے (یعنی بہت بھاری تھا) پھر تو لوگوں نے صدقہ کا سلسلہ باندھ دیا یہاں تک کہ میں نے دو ڈھیر دیکھے ایک کھانے کا اور دوسرا کپڑے کا اور یہاں تک کہ صدقات کی کثرت دیکھ کر نبی ﷺ کا چہرہ کھل گیا چمکنے لگا تھا گویا سونے کا ہو گیا تھا (مسلم)
ایک دن ابو ہریرہ ؓ بھوک کی شدت سے بے تاب ہو کر راستہ میں بیٹھ گئے حضرت ابو بکر ؓ کا گزر ہو تو ان سے قرآن مجید کی ایک آیت پوچھی لیکن اس کا مقصد اپنی حالت زار کی طرف متوجہ کرانا تھا وہ گزر گئے، پھر حضرت عمر ؓ گزرے انہوں نے اسی غرض سے ان سے بھی ایک آیت پوچھی لیکن انہوں بھی توجہ نہ دی۔اس کے بعد رسول ﷺ کا گزر ہوا اور آپ ﷺ نے ان کے چہرے کو دیکھ کر حالت زار کو پھانپ لیا ان کو پکارا حضرت ابوہریرہ ؓ نے لبیک کہا اور ساتھ ہولیے آپ ﷺ گھر میں داخل ہوئے تو دودھ کا پیالہ بھرا ہوا نظر آیا پوچھنے سے معلوم ہوا کہ ہدیتاً آیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ کو حکم دیا کہ اصحاب صفہ کو بلا لائیں حضرت ابوہریرہ ؓ کو یہ ناگوار گزرا کہ اس دودھ کا سب سے زیادہ مستحق تو میں تھا لیکن آپ ﷺ کی تعمیلِ ارشاد کے سوا چارہ نہ تھا مجبوراً اصحاب صفہ کو بلا کر لے گئے اور سب کے سب اپنی جگہ پر بیٹھ گئے آپﷺکے حکم سے حضرت ابوہریرہ ؓ نے سب کو پلانا شروع کیا جب سب کے سب سیراب ہو گئے تو آنحضرت ﷺ نے پیالہ کو ہاتھ پر رکھا اور ابوہر یرہ کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور کہا کہ اب صرف ہم اور تم باقی ہیں آؤ بیٹھو اور پینا شروع کرو آپ ﷺ ان کو مسلسل پلاتے رہے یہاں تک کہ وہ خود بول اٹھے کہ اب گنجائش نہیں اس کے بعد آپ ﷺ نے خود پیالہ لیا اور جو کچھ بچ گیا تھا بسم اللہ کہہ کر پی گئے۔
( بخاری )
***
لاک ڈاون کے دوران ان امور کو انجام دیں
٭ زیادہ سے زیادہ مستحقین کو پکا ہوا یا راشن پہونچانے کی
کوشش کی جائے۔
٭ دوسرے لوگوں کو بھی اس طرف متوجہ کیا جائے۔
٭ مسکینوں کا خصوصی خیال رکھا جائے۔
٭ محلہ کی سطح پر کمیٹی بنا کر منظم انداز سے کام کیا جائے۔
٭ احتیاطی تدابیر کو ضرور اختیار کیا جائے۔