مختار شمیم (9827355135)
حکیم سید ظل الرحمن ،علم و عمل کی جاگتی تصویر ہیں ۔حیات مستعار کا ایک ایک لمحہ ،اُن کے روشن خیالات اور فکر و عمل کا رہینِ مِنّت ہے۔طبیب کامل ،ادیب دوراں سید ظل الرحمن ہمہ دم فلاح انسانیت کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔وہ طبیب بھی ہیں اور حکیم الامت بھی ،ادیب بھی ہیں اور ادیب پرور بھی۔ فلسفی و دانا ہیں ،حسنِ عمل میں یگانہ ہیں ۔انہیں بھوپال کی عظمتوں سے وارفتگی کی حد تک عشق ہے ۔ بھوپال کی لاجواب عمارتیں ہوں کہ خوبصورت محلات ،بیگماتِ بھوپال کی عطا کردہ ثقافت و تہذیب کے نقوش آج بھی بھوپال کی گلی کوچوں میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔اس شہر کی بعض شخصیتوں کے فکر و عمل سے یہ نقوش روشن و تابناک ہیں ۔
حکیم ظل الرحمن اگرچہ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ کے مخلصین میں سے ہیں لیکن جامعہ علی گڑھ سے ان کا والہانہ تعلق محض اس لیے نہیں ، کہ یہ ان کا میدان عمل رہا ہے بلکہ، اس لیے بھی ہے کہ بھوپال کے سربراہان مملکت کا دیرینہ تعلق جامعہ علی گڑھ سے کچھ اس حد تک تھا کہ انہوں نے اس کی ترقی و توسیع میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ سر سید کی یادگار سر راس مسعود کو نواب حمید اللہ خاں والی بھوپال نے ریاست کے ایک اہم عہدہ پر فائز کیا اور اپنا مشیر خاص بھی بنایا ۔یہی نہیں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی کئی شخصیات کو بھوپال میں اعلیٰ مراتب پانے میں کوئی دِقت نہیں ہوئی ۔حکیم سید ظل الرحمن ایک اعلی درجہ کے
محقق ہیں۔علم الانساب سے ان کا شغف اور مہارت بے مثال ہے۔ ان کی اکثر تصانیف و تالیفات ان کے بزرگوں کی وراثت کی آئینہ دار ہیں ۔اکیسویں صدی کے موجودہ ادیبوں میں حکیم ظل الرحمن بلا شبہ کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہیں جو اپنے بزرگوں کی تہذیبی، ثقافتی اور ادبی روایتوں کو نئی نسل تک پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔اور یہ بھی کہ ان کی شائستہ فکر اور ان کے فنی رویوں کے علاوہ ہم ان کے بے مثال کارناموں کو دیکھ کر اپنے ذہن و دل کو منور کر سکتے ہیں۔
ان کی تازہ تصنیف ’’بھوپال کا علمی و ادبی کارواں ‘‘نہ صرف ماضی کے دریچوں کو روشن کرتی ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے فکر و فن کے آئینے بھی فراہم کرتی ہے ۔معاصر ادباء و شعراء کے لیے یہ کتاب ایک راہ ہموار کرتی ہے کہ ہمارا مستقبل اور اردو کا مزاج کن راستوں سے طے ہو سکتا ہے ۔قریب ۲۷۲ صفحات میں مختلف عناوین کے تحت حکیم صاحب نے جن خطوط پر یہ تحقیقی کام سر انجام دیا ہے وہ بذات خود بہت اہم ہے ۔ بھوپال کی نامور شخصیات ،بھوپال کی عظمت رفتہ کی حکایات نیز بھوپال کے مختلف شعبہ ہائے حیات سے انہوں نے اس کتاب کے ذریعے کچھ اس طرح پردے اٹھائے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں ۔ خواہ وہ اپنے زمانے کے بزرگوں کی شفقتوں اور کارناموں کا احوال ہو یا ان سے بھی پہلے کے بزرگوں کی دانش و عظمت کی تفصیلات ، صداقتِ ظل الرحمن کی روشن کرنیں ان کی راست گوئی کی دلیل بن کر ابھرتی ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کی فکری نہج نے تلاش و تجسس کے وسیلہ سے تاریخ علم و ادب کے سیکڑوں مسئلوں کو حل کر دیا ہے ۔’’بھوپال ایک تاریخی ڈائری میں ‘‘ مختلف زمانوں تحریر کی گئی ڈائریوں کا احوال بیان کرنے کے بعد وہ حکیم محمد اشرف خان کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ حکیم ظل الرحمن جب کسی شخصیت کو متعارف کراتے ہیں تو اس کی پشتوں کا ذکر بھی چھیڑ دیتے ہیں ۔ان کا حافظہ غضب کا ہے ،مطالعہ بھی عمیق ،اور تحقیقی جواز تو وہ خود ہی بآسانی تلاش کر لیتے ہیں ۔ چنانچہ حکیم اشرف خاں کی ڈائری (بیاض ) کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے وہ اس کی تاریخی اہمیت کو یوں نمایاں کرتے ہیں :
’’حکیم اشرف محمد خان کی اس بیاض میں طبی نسخوں کے علاوہ بھوپال میں رونما ہونے والے اہم واقعات کی تاریخیں بھی درج ہیں ۔۱۸۵۷ ء کی پہلی تحریک آزادی میں بھوپال نے جو حصہ ادا کیا اور خود حکیم صاحب نے جو خدمات انجام دیں ،نہ صرف ان کے بارے میں بلکہ دیگر حریت پسندوں کے نام اور ان کے تعلق سے دوسری تفصیلات کسی اور کتاب میں پڑھنے کو نہیں ملتیں ۔‘‘(صفحہ ۱۴)
علاوہ ازیں یہ بھی کہ بھوپال کی بعض شخصیتوں کی جیسے خود فدا علی تاریخ گو کی کہیں بھی تاریخ وفات نہیں ملتی لیکن حکیم محمد اشرف کی بیاض میں سولہ (۱۶) رجب ،تیرہ سو گیارہ (۱۳۱۱) ہجری کی تاریخ درج ہے ۔حکیم ظل الرحمن رقم طراز ہیں کہ :’’بھوپال کی تاریخ کے مطالعے میں یہ بیاض خاص اہمیت کی حامل ہے اور اس میں وہاں کی شخصیات اور اہم واقعات کے سلسلہ میں صحیح تاریخوں کا علم ہوتا ہے ۔‘‘(صفحہ۱۶)
’’مثنوی توصیفات شاہجہانی‘‘ بھی حکیم ظل الرحمن کی دریافت ہے ۔جو نواب شاہ جہاں بیگم ،والی بھوپال کی مدح و توصیف میں ہے ۔چار سو انتالیس (۴۳۹) اشعار پر مشتمل اس مثنوی کے خالق حکیم فرانسس ڈی سلوا فطرتؔ ہیں ۔زیر نظر مثنوی کا مخطوطہ حکیم خود حکیم سید ظل الرحمن کی دریافت ہے ۔انہوں نے نہ صرف اس کے مصنف اور شاعر کے بارے میں تفصیلات فراہم کی ہیں بلکہ مثنوی کا سیر حاصل تنقیدی جائزہ بھی پیش کیا ہے ۔ مثنوی نہ صرف اپنے اسلوب اور انداز بیان کی وجہ سے اہمیت رکھتی ہے بلکہ شہر بھوپال کے جغرافیائی اور تمدنی احوال کی تفصیلات کے پیش نظر مزید دلچسپ ہو گئی ہے ۔حکیم ظل الرحمن جہاں بھوپال کے شاندار ماضی اور اس کی روایتوں کے مداح ہیں وہیں بھوپال کی مذہبی، علمی اور ادبی شخصیات اور ان کے کارناموں کو بھی نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔وارفتگی کا عالم یہ ہے کہ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسی دانش گاہ کی علمی و ادبی خدمات کے سلسلہ میں بھوپال کی بعض شخصیات اور ان کے کمالات کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ہی کا صدقہ کہتے ہیں ۔اس یونیورسٹی کی ترقی میں بھوپال کے حکمرانوں کی قدر افزائی ،ان کی مالی معاونت اور ذاتی طور پر ادارہ کے معاملات میں ان کی دلچسپی کا احوال جب وہ لطف لے لے کر شواہد کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ تاریخ و تمدن کے نئے باب کھلتے جا رہے ہیں ۔ ’’علی گڑھ اور بھوپال ‘‘ ، ’’نواب حمید اللہ خاں ایک بیدار مغز حکمراں ‘‘، ’’بھوپال میں تجارہ کا ایک خاندان ‘‘ ، ’’حکیم معز الدین خاں خالص پوری‘‘ اور ’’ حافظ غلام احمد فروغی ‘‘ وہ مقالات ہیں جو حکیم سید ظل الرحمن کے تحقیقی مزاج اور شگفتہ انداز بیان کے آئینہ دار ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ ان مضامین سے سرسری نہیں گزرا جا سکتا ۔ ویسے کتاب کے سبھی مضامین نہ صرف ہماری معلومات میں اضافے کا باعث ہیں بلکہ یہ علم وادب کا خزینہ ہیں جن سے ہم بہرہ ور ہوتے ہیں ۔یہ کتاب شایع نہ ہوتی تو یہ حقائق بھی ہماری کوتاہ علمی کے سبب ہم سے پوشیدہ رہ جاتے اور بھوپال کی وراثت پر ناز کرنے والے ہم لوگ محض فرسودہ روایتوں ہی میں گرفتار رہتے ۔اس قدر اہم تفصیلات سے بھوپال کی ادبی وراثت کے بارے میں ریسرچ کرنے والے اسکالرز بھی بے بہرہ ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ حکیم ظل الرحمن نے کوزہ میں دریا بند کر دیا ہے ۔۔ہر سطر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ موج در موج ایک بحر بے کراں ہے کہ جس کا جتنا نصیب ہو وہ اتنے گہر تابدار اپنے دامن میں بھر لے ۔بلا شبہ حکیم ظل الرحمن کسی ’انسائیکلو پیڈیا ‘سے کم نہیں ۔ ان کی اتنی وسیع اور گہری معلومات پر انگشت بدنداں ہوں کہ رب کریم نے انہیں علم و ادب کا کتنا بڑا منصب عطا کر رکھا ہے ! ۔ بھوپال کی ایک با کمال علمی شخصیت حکیم معز الدین خالص پوری بھی حکیم ظل الرحمن کی یاد داشت میں محفوظ رہے جنہوں نے بھوپال میں رہ کر عربی زبان و ادب میں اپنے جوہر دکھائے تھے ۔بقول حکیم ظل الرحمن : ’’ وہ صرف عربی زبان و ادب میں بھوپال کے حصہ کے لحاظ سے ہی اہم نہیں ہیں بلکہ عربی میں ہندوستان کے شاندار علمی کارناموں میں شمار کیے جانے کے لائق ہیں ۔‘‘(صفحہ ۱۱۱)بھوپال کی ماضی قریب کی شخصیات میں انہوں نے پیر یعقوب مجددی ؒعرف پیر ننھے میاں کے بارے میں جو تفصیلات فراہم کی ہیں وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔حکیم ظل الرحمن کا پیر ننھے میاں ؒ سے جو تعلق خاطرتھا وہ کسی نہ کسی طور پر آج بھی جاری ہے ۔منیرؔ بھوپالی ،محمد احمد سبزواری ،مولانا عبد الخالق نقوی ،مولانا محمد عمران خاں ندوی ، مولانا محمد مسلم ،حکیم کوثرؔ چاند پوری ،ابو محمد سحر ؔ ، عبد القوی دسنوی ،قاضی وجدی الحسینی اور پروفیسر آفاق احمد وغیرہ بھوپال کے علمی و ادبی مطلع کے وہ چاند سورج کہے جا سکتے ہیں کہ جن کی آب و تاب آج بھی آنکھوں کو خیرہ کیے رہتی ہے۔ اِن میں سے ہر ایک شخصیت کے علم و فضل اور خدمات پر حکیم صاحب فخر و امتنان کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکے ۔ ان سبھی شخصیات کے حالات طالب علموں کے نصاب میں شامل ہونے چاہئیں ۔
ڈاکٹر رضیہ حامد بھوپال کی آبرو ہیں ۔اور واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے بھوپال اور علی گڑھ کے رشتے سے بھی بڑا تحقیقی کام سر انجام دیا ہے ۔جب کوثرؔ صدیقی اور رہبرؔ جونپوری حکیم ظل الرحمن کی نگہ انتخاب میں شامل ہیں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر رضیہ حامد کا کام بھی حکیم صاحب کی نگاہِ قدر شناس میں ضرور ہوگا ۔
اقبال ؔاور بھوپال ،غالبؔ اور بھوپال وغیرہ ایسے کئی موضوعات تھے جنہیں حکیم ظل الرحمن نے اس کتاب میں شمولیت کے لائق نہیں سمجھا کہ دیگر دانشمندان ادب ان پر بہت خامہ فرسائی کر چکے ہیں ،اور پھر یہ کہ حکیم صاحب کی انفرادیت کسی بھی طرح کی فرسودگی کی قائل نہیں ۔
یہ کتاب نہ صرف ماضی کے دریچوں کو روشن کرتی ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے فکر و فن کے آئینے بھی فراہم کرتی ہے ۔معاصر ادباء و شعراء کے لیے یہ کتاب ایک راہ ہموار کرتی ہے کہ ہمارا مستقبل اور اردو کا مزاج کن راستوں سے طے ہو سکتا ہے ۔ انہوں نےبھوپال کی نامور شخصیات ،بھوپال کی عظمت رفتہ کی حکایات نیز اس شہر کے مختلف شعبہ ہائے حیات سے کچھ اس طرح پردے اٹھائے ہیں کہ آنکھیں خیرہ ہوئی
جاتی ہیں۔