بھارت میں جمہوریت کا زوال
انتخابی باؤنڈز کے تحت بھارت کی سیاست میں بےنامی پیسوں کاوسیع ہوتا دائرہ
نور اللہ جاوید، کولکاتا
کیا بھارت بھی ’انتخابی آمریت ‘کی جانب گامزن ؟موجودہ حالات اور رپورٹیں مایوس کن!
2017 کی اسکیم کالے دھن کو روکنے کی نہیں ہے بلکہ اس کو پروان چڑھانےوالی اسکیم ہے:کپل سبل ،پرشانت بھوشن
بین الااقومی سطح پر بھارت کی امیج کو بہتر بنانے اور قائدانہ کردار کا دعویٰ کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی متعدد مرتبہ عالمی پلیٹ فارم سے اپنے خطاب میں یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی نمائندگی کرنے پر مجھے فخر ہے۔ جمہوری جذبہ ہماری تہذیبی اقدار کا لازمی جزو ہے۔کثیر جماعتی انتخابی ساخت بھارت کی جمہوریت کے خوبصورت پہلوؤں میں سے ایک ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم مودی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے بھارتی تجربات اور مہارت سے پوری دنیا کو فیض یاب کروانے کی بات کرتے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بھارت میں ڈیموکریسی اور جمہوری اقدار کا فروغ ایک ناقابل یقین واقعہ ہے۔ 1960 تک سیاسی پولیٹیکل سائنس دانوں کا یہ ماننا تھا کہ بھارت جیسے ملک میں جمہوریت کا فروغ ایک ناممکن سی بات ہے مگر گزشتہ پچھتر سالوں میں پولیٹیکل سائنس دانوں کے خدشات اور تھیوری کو ناکام کرتے ہوئے بدنام زمانہ ایمرجنسی کے 21 مہینے (1975 تا 1977) کو چھوڑ کر بھارت ان سات دہائیوں میں جمہوریت کی راہ پر گامزن رہنے میں کامیاب رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ترقی پذیر ممالک میں شمالی امریکہ کے ایک چھوٹے سے ملک کوسٹاریکا کو چھوڑ کر صرف بھارت ہی وہ واحد ترقی پذیر ملک ہے جو اتنے طویل عرصے سے جمہوریت کا لطف اٹھا رہا ہے۔ کوسٹاریکا کی آبادی محض پچاس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ فی کس آمدنی کے اعتبار سے کوسٹاریکا بھارت سے چھ گنا زیادہ امیر ہے۔ 2019 میں کوسٹاریکا میں فی کس آمدنی 12,238 ڈالر تھی جبکہ بھارت میں فی کس آمدنی 2,104 ڈالر تھی۔ پولیٹکل سائنس دانوں کی یہ تھیوری ہے کہ ’’جمہوریتیں عام طور پر ان ممالک میں زیادہ فروغ پاتی ہیں جہاں شہریوں کی آمدنی سب سے زیادہ ہوتی ہے، کم آمدنی والے ممالک میں جمہوریت کے فروغ کے امکانات معدوم ہوتے ہیں۔ بھارت میں فی کس آمدنی اوسطاً کم ہے، دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کے معاملے میں بھارت کا ریکارڈ بہت ہی خراب ہے۔ اس کے باوجود ان دہائیوں میں تسلسل کے ساتھ جمہوری عمل ناقابل یقین عمل ہے۔ یہ ایک الگ بحث اور موضوع ہے کہ بھارت میں جمہوری تسلسل کی وجوہات کیا ہیں۔ تمام سیاسی پنڈتوں کی پیشن گوئیوں کے باوجود بھارت جمہوریت کا طویل عمل طے کرنے میں کامیاب کیسے ہوگیا اور اس کے پیچھے سیاسی قائدین کا کردار کیا ہے؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس ضمن میں وزیر اعظم مودی، ان کی سیاسی جماعت بی جے پی اور نظریاتی سرپرست آر ایس ایس کا کیا کردار ہے؟
14/15 اگست 1947 کی آدھی رات کا وقت تھا، عموماً اس وقت دنیا سو رہی ہوتی ہے۔ایسے میں بھارت زندگی اور آزادی کے لیے جاگ رہا تھا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کا بادشاہت سے جمہوریت کی طرف سفر کا آغاز ہوچکا ہے۔ ہم آزادی کی اس مشعل کو کبھی بجھنے نہیں دیں گے، چاہے آندھی کتنی ہی تیز اور طوفان میں کتنی ہی شدت کیوں نہ ہو۔ اس جمہوریت میں کسان، مزدور اور سماج کے ہر ایک طبقے کو یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔ یہ عہد رہا کہ غربت، جہالت اور بیماری کا خاتمہ کرکے ایک خوشحال، ترقی پسند قوم کی تعمیر کے لیے سماجی، معاشی اور سیاسی ادارے قائم کیے جائیں گے جو ہر مرد اور عورت کے لیے انصاف اور زندگی کی معموریت کو یقینی بنائیں گے اور زندگیوں میں سورج کی روشنی لانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔سوال یہ ہے کہ پچھتر برسوں بعد بھی بھار ت اپنی جمہوریت کے جن مذکورہ اہداف کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوا ہے، کیا اس میں ہر ایک کی حصہ داری یکساں ہے؟ 2019 کے لوک سبھا انتخابات ملک کی تاریخ کے سب سے مہنگے اور طویل سمجھے جاتے ہیں، جبکہ ان میں عوامی شرکت محض 67.47 فیصد ہی رہی۔ سوال یہ ہے کہ ایک تہائی سے زائد آبادی نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ کیوں نہیں لیا۔ اگر اس حصہ داری کو شہری اور دیہی علاقوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو شہروں کے مکینوں کی ووٹنگ کے عمل میں حصہ داری سب سے کم تھی، جبکہ شہروں کے مکین جمہوریت اور ملک کی ترقی اور سہولتوں کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں اس کے باوجود ووٹنگ کے عمل سے بے رغبتی؟ آخر یہ اعداد و شمار کس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ کیا ملک کے شہریوں کا جمہوریت پر یقین کم ہو رہا ہے۔ایسے میں یہ سوال کافی اہم ہوجاتا ہے کہ آخر ملک میں جمہوریت کا مستقبل کیا ہے؟
ملک کی جمہورت کا یہی وہ رخ ہے جس کی وجہ سے کئی خدشات اور اندیشے جنم لیتے ہیں اور یہاں کی جمہوریت پر کئی سوالات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد انتخابی عمل کا تجزیہ کرنے کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم ’’سٹیزن کمیشن آن الیکشن‘‘ نے سپریم کورٹ کے مشہور جج جسٹس مدن بی لاکر کی قیادت میں کمیٹی بنائی جس نے An Inquiry into India’s Election System کے عنوان سے دو حصوں میں رپورٹ مرتب کی۔ اس کمیٹی میں ملک کے کئی نامور شخصیات شامل تھیں۔انہوں نے جو رپورٹ پیش کی وہ مکمل رپورٹ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
اگرچہ جمہوریت اور انتخابات دونوں مترادف الفاظ ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور نہیں کیا جا سکتا مگر یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ جن ممالک میں انتخابات کا تسلسل ہے وہاں جمہوریت اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ فروغ پا رہی ہو۔ سٹیزن کمیشن کی رپورٹ میں بھارت کے اندر انتخابی عمل کے آزاد اور منصفانہ ہونے پر بھی سوالات کھڑے کیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے بے چارگی، بے بسی اور حکمراں جماعت کی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر کارروائی سے گریز نے انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیا ہے۔ اس رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ مہاجر مزدور، اقلیت اور دیگر پسماندہ طبقات کی حصہ داری انتہائی ہے۔ ووٹر کارڈ کے آدھار کارڈ سے جوڑنے کے عمل نے انتخابی عمل کو مزید مشکوک بنا دیا اور ڈاٹا کے چوری ہونے کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے۔
سویڈش وی ڈیم انسٹیٹیوٹ کی حالیہ ڈیموکریسی رپورٹ اور فریڈم ہاؤس کی حالیہ رپورٹ کے تناظر میں بھارت کی موجودہ جمہوریت اور مستقبل کے امکانات کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بھارت کا جمہوری تسلسل پر فخر اور دنیا کے لیے قابل تقلید انتخابات کے طور پر پیش کرنے والوں کے لیے ان رپورٹوں میں غور وفکر اور سوچنے سمجھنے اور قابل فخر رویے پر نظر ثانی کا سامان موجود ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان رپورٹوں میں نشان دہی کی گئی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی بھارت میں جمہوریت کے زوال کے عمل میں تیزی آئی ہے۔ وی ڈیم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کا انتخابی عمل ’’آمریت ‘‘ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یعنی ظاہری طور پر جمہوری طریقے سے اقتدار کی تبدیلی اور ہر پانچ سال بعد عوامی رائے سے سیاسی جماعتیں جمہوری عمل کا حصہ بنتی ہیں اور اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں مگر اقتدار ملنے کے بعد ہی اظہار رائے کی آزادی، میڈیا کا سنسر شپ اور ناقدین کے زبانوں پر تالہ بندی کے لیے سرکاری اداروں کا بے جا استعمال بھارت کی جمہوریت کا معمول بنتا جا رہا ہے۔ اسی کو سیاسی اصطلاح میں ’’انتخابی آمریت‘‘ کہا جاتا ہے۔ بھارت کے ساتھ ساتھ دیگر جنوبی ایشیائی ممالک جیسے بنگلہ دیش، پاکستان، نیپال اور سری لنکا وغیرہ بھی جمہوریت کے زوال کی طرف تیزی سے گامزن ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’نریندر مودی نے بھارت کے 2014 کے انتخابات میں بی جے پی کو فتح دلائی اور زیادہ تر زوال بی جے پی کی جیت اور ان کے ہندو قوم پرست ایجنڈے کے فروغ کے بعد ہوا ہے۔ V-Dem رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’انتخابی آمریت‘‘ کی شروعات اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے میڈیا اور سول سوسائٹی پر حملے سے ہوتی ہے، اس کے بعد مخالفین کی بے عزتی کرکے اور سماج میں غلط معلومات پھیلا کر معاشرے کو پولرائز کیا جاتا ہے اور یہ چیز الیکشن کمیشن جیسے اداروں کو کمزور کرنے پر منتج ہوتی ہے۔ ’’انڈیا: ڈیموکریسی بروک ڈاون‘‘ کے عنوان سے ایک بات میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے زیرِ اقتدار ملک میں آزادی اظہار، میڈیا کی آزادی اور سول سوسائٹی پر مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں۔ ماضی میں حکومت شاذ و نادر ہی سنسرشپ کا استعمال کرتی تھی۔ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے سے قبل بھارت میں شفافیت کا تناسب 4 میں سے 3.5 فیصد تھا مگر 2020 میں یہ اسکور 1.5 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ مودی کی قیادت والی حکومت نے ناقدین کو خاموش کرنے کے لیے بغاوت، ہتک عزت اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کا بے جا استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر بی جے پی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سات ہزار سے زیادہ افراد پر غداری کا الزام لگایا گیا ہے اور زیادہ تر ملزمین حکمران جماعت کے ناقدین میں سے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے کام کاج اور ترقیارتی اشاریے کا تجزیہ کرنے والے سول سوسائٹی کی تنظیموں کے خلاف حالیہ دنوں میں بڑے پیمانے پر کارروائی ہوئی، جبکہ ہندوتوا تحریک کے ساتھ منسلک سول سوسائٹی تنظیموں کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی گئی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت ان ممالک میں شامل ہے جو آمریت کی تیسری لہر کی قیادت کر رہے ہیں اور کہا گیا ہے کہ دنیا کی 68 فیصد آبادی اس وقت آمر حکومتوں کے تحت زندگی گزار رہی ہے۔
2017 میں انتخابی شفافیت کے نام پر ’’انتخابی باؤنڈ‘‘ کا نظام متعارف کرایا گیا۔ سابق وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے بل پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ گزشتہ ستر سالوں میں انتخابی اصلاحات اور سیاسی جماعتوں کے لین دین میں شفافیت کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ جبکہ انتخابی اصلاحات اور سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ میں شفافیت کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ انتخابی باؤنڈ کو منی بل کے ساتھ منسلک کرنے کا مقصد واضح تھا کہ راجیہ سبھا میں بحث سے بچا جائے، کیوں کہ اس وقت راجیہ سبھا میں حکم راں جماعت کو اکثریت حاصل نہیں تھی۔ المیہ یہ ہے کہ جس نظام کو انتخاب میں شفافیت لانے کے لیے پیش کیا گیا اس نظام پر ریزرو بینک آف انڈیا اور الیکشن کمیشن نے اعتراضات کیا اور اس کو نظر انداز کر دیا گیا۔ نتیجہ میں منی بل کی آڑ میں اس بل پر راجیہ سبھا میں بحث ہی نہیں ہو پائی۔ ظاہر ہے کہ یہ شفافیت اور بحث و مباحثہ کا قتل تھا۔ انتخابی باؤنڈ کے قوانین اور طریقہ کار کو بھی واضح نہیں کیا گیا۔ بغیر کسی بحث و مباحثہ کے بل کامنظور کیا جانا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ دراصل اس کی آڑ میں کوئی اور کھیل کھیلنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ماضی کے جس نظام کی ارون جیٹلی تنقید کر رہے تھے اس میں انتخابی باؤنڈ سے کہیں زیادہ شفافت تھی، بلکہ کارپوریٹ کمپنیوں کو سالانہ اخراجات شیٹ میں سیاسی جماعتوں کو دیے گئے چندہ سے متعلق ذکر کرنا ضروری تھا۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے سالانہ آڈٹ رپورٹ میں کارپوریٹ چندے کی تفصیلات پیش کرنا لازمی ہے۔ مگر اس نئے نظام میں سیاسی جماعتوں کو معلومات پیش کرنے کی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اسی طرح کارپورٹ گھرانے کو بھی بڑی راحت مل گئی ہے۔ پہلے کوئی بھی کارپوریٹ گھرانہ اپنی آمدنی کا 7.5 فیصد سے زائد چندہ سیاسی جماعتوں کو نہیں دے سکتا تھا مگر اب وہ اپنی آمدنی کا صد فیصد چندہ دے سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے سیاسی جماعتوں پر کارپوریٹ گھرانوں کی پکڑ مضبوط اور چندہ کے عوض اپنے حق میں پالیسیاں مرتب کرانے کی چھوٹ مل جائے گی۔ اس سے بھارت کی جمہوریت چند ہاتھوں میں یرغمال ہونے کےامکانات مزید بڑھ گئے ہیں۔
انتخابی باؤنڈ کو جن دعوؤں، جن حالات اور جس طریقے سے لایا گیا اس سے کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ انتخابی باؤنڈ کی قانونی حیثیت پر سپریم کورٹ میں ملک کے نامور وکلا، بالخصوص انتخابی باؤنڈ کی مخالفت کرنے والے ملک کے نامور وکیل جیسے کپل سبل، پرشانت بھوشن اور حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے دلائل کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں ہم دو سوالات کی جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ انتخابی باؤنڈ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستیں 2017کے اواخر میں ہی سپریم کورٹ میں دائر کردی گئیں تھی۔ عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ اس معاملے کو ترجیحی بنیاد پر سماعت کا موقع دیا جائے، کیوں کہ 2019میں عام انتخابات ہونے والے تھے۔ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ انتخابی باؤنڈ کے ذریعہ حکم راں جماعت بڑے پیمانے پر مالی وسائل حاصل کرسکتی ہے۔ کارپوریٹ کمپنیاں خفیہ طریقے سے سیاسی جماعتوں کو چندہ دے کر پالیسیوں پر اثرانداز ہو سکتی ہیں۔اس کے باوجود نہیں معلوم کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی فوری سماعت کرنے سے گریز کیوں کیا؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے پاس مقدمات کا بوجھ ہے، مگر ملک کی سب سے بڑی عدالت سے کم سے کم یہ امید تو کی جاسکتی تھی کہ وہ ترجیحی بنیاد پر ایسے مقدمات کی سماعت کرے گی جس کا تعلق ملک کے عوام سے براہ راست ہے اور اس کا سیدھا اثر رائے عامہ پر پڑ سکتا تھا۔ بے تحاشا مالی وسائل کی وجہ سے بی جے پی انتخابات کی تاریخ کے اعلان سے کئی مہینے قبل سے ہی انتخابی مہم شروع کر دیتی ہے۔ چونکہ اس دور میں ضابطہ اخلاق نافذ نہیں ہوتا ہے اس لیے ان اخراجات کا حسابات لینے اور اخراجات کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار نہ الیکشن کمیشن کے پاس ہوتا ہے اور نہ کوئی ایسا ادارہ ہے جو اس کا نوٹس لے سکے۔ چھوٹی سیاسی جماعتوں کے پاس مالی وسائل کا فقدان ہوتا ہے اس کی وجہ سے وہ مہینوں قبل انتخابی مہم شروع کرنے کی متحمل نہیں ہوتیں۔ ظاہر ہے کہ سیاسی پارٹیوں کی مالی حالت کا اثر انتخابی مہم اور اس کے وسائل پر سیدھا پڑھ رہا ہے۔ مالی وسائل کی بہتات کی بدولت کوئی بھی سیاسی جماعت آسانی سے رائے عامہ پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور مفروضوں کی بنیاد پر بھی رائے عامہ ہموار کی جاسکتی ہے جس کی وجہ سے جمہویت اپنے مقاصد سے دور ہوتی جا رہی ہے۔
انتخابی باؤنڈ پر تبصرہ کرتے ہوئے مشہور سماجی کارکن یوگیندر یادو کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے سامنے سماعت کے دوران پرشانت بھوشن اور کپل سبل جیسے وکلاء نے ثابت کیا تھا کہ یہ کالے دھن کو روکنے کی نہیں ہے بلکہ کالے دھن کو پروان چڑھانے کی اسکیم ہے۔ حکومت جب چاہے خفیہ طور پر اسٹیٹ بینک آف انڈیا سے یہ معلومات حاصل کر سکتی ہے۔ ای ڈی (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ) اور دیگر تفتیشی اداروں کو بھی یہ معلومات حاصل کرنے کا قانونی حق حاصل ہے۔ حالیہ برسوں میں جس طریقے سے مرکزی جانچ ایجنسیوں کا غلط استعمال کیا گیا ہے اس کے ذریعہ حکمراں جماعت کے لیے معلومات حاصل کرنا مزید آسان ہو جاتا ہے۔ اس لیے خفیہ عطیات کے ذریعے سیاسی ظلم و ستم کو روکنے کی دلیل مضحکہ خیز ہے۔ ہاں اگر یہ عطیہ واقعی کسی کے لیے راز ہو گا تو وہ عام لوگ اور ووٹرز کے لیے ہوگا۔ یہ منصوبہ، ہمارے انتخابی نظام میں جو بھی تھوڑی بہت شفافیت رہ گئی ہے اسے بھی تباہ کر دے گا۔ یہ شہریوں اور ووٹروں کے بنیادی معلوماتی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ’سچ تو یہ ہے کہ پہلی دو قانونی پابندیاں ہٹانے کے بعد الیکٹورل باؤنڈ اسکیم ہماری جمہوریت کو ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھوں گروی رکھنے کا منصوبہ بن گیا۔ پہلے پانچ سالوں میں اس اسکیم کے ذریعے پندرہ ہزار کروڑ روپے اکٹھے کیے گئے ہیں۔ ان میں سے نصف سے زیادہ یعنی تقریباً آٹھ ہزار کروڑ روپے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ملے ہیں۔ باقی رقم کا زیادہ تر حصہ ریاستی سطح پر برسر اقتدار جماعتوں کے پاس چلا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ اسکیم بھارتی اور غیر ملکی کمپنیوں کی طرف سے حکم راں جماعتوں کو عوام کی نظروں سے چھپا کر بھاری رقوم دینے کے لیے ہی لائی گئی ہے جس کی وجہ سے اب سیاسی کرپشن قانونی ہو جائے گا۔
سپریم کورٹ شورش زدہ جمہوریت کے لیے آخری پناہ گاہ ہے۔ ملک کے عوام کی نگاہیں ملک کی سب سے بڑی عدلیہ پر ہیں۔ اسے صرف عدالت میں پیش کیے گئے قانونی پہلوؤں پر ہی نہیں بلکہ ملک میں آنے والے حالات پر بھی گہری نظر رکھنی ہوگی۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے اپوزیشن جماعتوں کی اس عرضی کو مسترد کر دیا ہے جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ مرکزی جانچ ایجنسیوں کے طریقہ کار اور یک طرفہ کارروائی پر مواخذہ کیا جائے، مگر اس وقت پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے اعلان کے بعد جانچ ایجنسیوں کی سرگرمیوں میں اضافہ اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کے خلاف یکطرفہ کارروائی کا انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہے۔ اشوکا یونیورسٹی کے سابق استاذ جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے عمل کو متاثر کیا گیا تھا، ان کو اشوکا یونیورسٹی سے متنازع طریقے سے معطل کرکے اس استاذ کی آواز کو خاموش کر دیا گیا مگر انہوں نے جو الزامات عائد کیے تھے وہ صحیح ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔
سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کہتے ہیں کہ ملک میں انتخابی نظام کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں کی نجی فنڈنگ کو ختم کر دیا جائے اور پبلک فنڈنگ کا نظام متعارف کرایا جائے۔ پبلک فنڈنگ پانچ سال میں دس ہزار کروڑ سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ رازداری کی ضرورت کو ختم کرنے کا دوسرا آپشن یہ ہوگا کہ ایک قومی الیکشن فنڈ قائم کیا جائے جس میں تمام عطیہ دہندگان اپنا حصہ ڈالیں۔ پارٹیوں کو ان کی انتخابی کارکردگی کی بنیاد پر فنڈز مختص کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے عطیہ دہندگان کے انتقام کے بارے میں نام نہاد تشویش ختم ہو جائے گی۔ مگر یہ سب تجاویز سپریم کورٹ کے فیصلے پر منحصر ہیں کیوں کہ حکم راں جماعت بی جے پی اس یقین کی حد کو پہنچ چکی ہے کہ انتخابی باؤنڈ کے نام پر اس نے جو کچھ کیا ہے وہی صحیح ہے، وہ اس پر نظرثانی کو اپنی توہین سے تعبیر کرتی ہے۔اس لیے اس سے امید نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی پہل کرے گی۔
جمہوریت کی بقا اور تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ انتخابی تسلسل جاری رہے مگر انتخابی تسلسل ہی کافی نہیں ہے کیونکہ انتخابی عمل میں شفافیت کا فقدان جمہوریت کو بے فیض بنا سکتا ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی ادارے اور بیدار مغز شہری اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔انتخابی نظام میں شفافیت لانے اور ملک کے ہر ایک شہری کی حصہ داری کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر حکومت کو بہترین پالیسی مرتب کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اگر وزیر اعظم مودی ملک میں جمہوریت کے تسلسل اور کثیر سیاسی نظام پر فخر کرتے ہیں تو انہیں بین الاقوامی اداروں اور ملک کی سول سوسائٹی کے خدشات کی طرف بھی توجہ دینا ہوگا۔ حالیہ برسوں میں الیکشن کمیشن کی آزادی، سالمیت اور خود مختاری کو ادارہ جاتی طریقے سے نقصان پہنچایا گیا۔ الیکشن کمشنر کی تقرری کے عمل میں چیف جسٹس آف انڈیا کی موجودگی ختم کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں قانون سازی کا سہارا لینے کا مقصد واضح ہے کہ حکومت من مانی طریقے سے الیکشن کمشنر کی تقرری چاہتی ہے۔ اس سے اسے کیا مفادات حاصل ہوں گے یہ سب کو معلوم ہے۔امریکی ماہرین سیاسیات اسٹیون لیوٹسکی اور ڈینیئل زیبلاٹ نے اپنے تحقیقاتی مقالہ ’’ہاؤ ڈیموکریسی ڈائی‘‘ (2018) میں لکھا ہے کہ ’’منتخب آمرانہ جمہوریت ایسے اداروں پر حملے کرتی ہے جو ان کی راہ میں رکاوٹ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ کچھ اسے ایک ہی جھپٹے میں کرتے ہیں، لیکن اکثر جمہوریت پر حملہ آہستہ آہستہ شروع ہوتا ہے۔ بہت سے شہریوں کے لیے یہ سب سے پہلے ناقابل تصور ہوتا ہے، کیوں کہ انتخابی عمل تسلسل سے جاری رہتا ہے۔ اپوزیشن لیڈر اب بھی پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں۔ میڈیا بظاہر آزادی سے کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ دراصل جمہوریت کا کٹاؤ ٹکڑوں میں ہوتا ہے، اکثر چھوٹے قدموں میں۔ ہر انفرادی قدم معمولی لگتا ہے۔ کوئی بھی اقدام حقیقی معنوں میں جمہوریت کے لیے خطرہ محسوس نہیں ہوتا۔ درحقیقت، جمہوریت کو تباہ کرنے کے لیے حکومت کی حرکتیں اکثر قانونی طریقے سے ہوتی ہیں۔ ان کی منظوری پارلیمنٹ سے ہوتی ہے یا سپریم کورٹ کے ذریعے آئینی حکم رانی ہوتی ہے۔ ان میں سے بہت کچھ اقدامات جائز حتیٰ کہ قابلِ تعریف عوامی مقاصد کے حصول کی آڑ میں اختیار کیے جاتے ہیں، جیسے بدعنوانی کا مقابلہ کرنا، انتخابات کے نظام میں شفافیت لانا، جمہوریت کے معیار کو بہتر بنانا یا قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے نام پر ہوتا ہے، جبکہ دراصل یہ آئین اور آزادی پر حملے ہوتے ہیں۔
اس وقت ملک میں بھی یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ قانون اور سپریم کورٹ کی آڑ میں آئین کے بنیادی اصول اور جمہوریت کے بنیادی تقاضوں کو پامال کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ بین الاقوامی ایجنسیاں بھارت کو ایک جزوی آزاد ملک کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ وہ اندیشہ ظاہر کر رہی ہیں کہ بھارت کا جمہوری نظام ’’انتخابی آمریت‘‘ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ہم ’’امرت کال منا رہے ہیں تو ہمیں اپنی قابل فخر جمہوریت کو بچانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے اور اس کے لیے رائے عامہ کا ہونا ضروری ہے۔
***
سپریم کورٹ شورش زدہ جمہوریت کے لیے آخری پناہ گاہ ہے۔ ملک کے عوام کی نگاہیں ملک کی سب سے بڑی عدلیہ پر ہیں۔ اسے صرف عدالت میں پیش کیے گئے قانونی پہلوؤں پر ہی نہیں بلکہ ملک میں آنے والے حالات پر بھی گہری نظر رکھنی ہوگی۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے اپوزیشن جماعتوں کی اس عرضی کو مسترد کر دیا ہے جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ مرکزی جانچ ایجنسیوں کے طریقہ کار اور یک طرفہ کارروائی پر مواخذہ کیا جائے، مگر اس وقت پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے اعلان کے بعد جانچ ایجنسیوں کی سرگرمیوں میں اضافہ اور اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کے خلاف یکطرفہ کارروائی کا انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 نومبر تا 25 نومبر 2023