بھارت بایوٹیک کی تیار کردہ کوویکسین آخر کس کی ملکیت؟

کورونا کی دوسری لہر اور ملک کی صورت حال

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

 

گزشتہ ہفتے دوا ساز کمپنی بھارت بایوٹیک نے باضابطہ طور پر اپنے کوویڈ-19 ویکسین اور کو-ویکسین کی قیمتوں کا اعلان کر دیا۔ ریاستی حکومتوں کو چھ سو روپے فی خوراک اور خانگی اسپتالوں کو بارہ سو روپے فی خوراک ادا کرنا ہوں گے۔ یہ قیمتیں سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی ویکسین کوویشیلڈ کی قیمتوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ قیمتوں نے عوام کو اور خاص طور پر ماہرین کو سخت حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اگر آئی سی ایم آر یا حکومت اس کی مالکین ہیں تو ملک کی عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ وبائی مرض کے دوران اس سے مفت فائدہ اٹھائیں۔
جہاں تک سیرم انسٹی ٹیوٹ کی ویکسین کا تعلق ہے وہ سویڈیش و برطانوی فرم آسٹرا زینکا کی تیار کردہ ہے تو اسے ان فرموں کو رائلٹی ادا کرنی ہوتی ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کا اس کے پاس یہ جواز موجود ہے۔ لیکن بھارت بایوٹیک کی کویکسین کے لیے کسی کو کوئی رائلٹی ادا کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیوں کہ یہ SARS-CoV-2 اسٹرین پر مبنی ہے جسے پونے کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ویرولوجی جو عوامی تعاون سے چلنے والا ادارہ ہے نے تیار کیا ہے۔ پونے کا یہ انسٹیٹیوٹ انڈین کونسل برائے میڈیکل ریسرچ (آئی سی یم آر) کے تحت کام کرتا ہے۔ تحقیق کے بعد آئی سی ایم آر نے اس اسٹرین کو تیار کرنے کی ذمہ داری بھارت بائیوٹیک کو سونپی ہے۔
10 مئی 2020 کو آئی سی ایم آر کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ: "آئی سی یم آر اور ین آئی وی دو شراکت داروں کے مابین ویکسین تیار کرنے پر کام شروع ہو چکا ہے۔ ویکسین کی ترقی وتیاری کے لیے بی بی آئی ایل (بھارت بایوٹیک) کو مستقل تعاون فراہم کیا جائے گا۔ آئی سی ایم آر اور بی بی آئی ایل ویکسین کی تیاری اور اس کی تیز رفتار منظوری حاصل کرنے کے لیے کام کریں گے اور ساتھ ہی جانوروں پر اس کے تجربات کے بعد ویکسین کی کلینیکل تشخیص پر بھی تیزی سے کام کیا جائے گا اور یہ مکمل طور پر دیسی ویکسین ہو گا۔
آئی سی ایم آر کے ایک عہدیدار نے میڈیا کو بتایا کہ ’’آئی سی ایم آر اور بی بی آئی ایل اس ویکسین کی پری کلینیکل اور کلینیکل تجربہ کے لیے مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔‘‘ آئی سی ایم آر نے یہ بھی اعلان کیا کہ اس نے ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کے لیے 12 انسٹیٹیوٹس کا انتخاب کیا گیا۔ یہ واحد تفصیلات ہیں جو آئی سی ایم آر اور بھارت بائیوٹیک کے مابین باہمی تعاون کے بارے میں عوامی سطح پر دستیاب ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوویکسین دونوں اداروں کے تعاون سے بنایا گیا ہے۔ تاہم ہمیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ (سارس۔کو وہ ۲) کی تحقیق میں اس کو تیار کرنے کے لیے کتنی عوامی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اسی لیے ویکسین کے ڈیزائن اور اس کی تیاری کے لیے خرچ کی جانے والی رقم میں عوامی سرمایہ کتنا ہے اس کا اندازہ لگا نا مشکل ہے۔ لیکن یقینی طور پر اس ویکسین کی تیاری میں آئی سی ایم آر کی کوششیں واقعتاً قابل قدر ہیں۔ ۳جولائی ۲۰۲۰ کو آئی سی ایم آر کے ڈائریکٹر جنرل بلارام بھارگو کے کلینیکل ٹرائلز کا انتظام کرنے والے اداروں کو لکھے گئے خط کے مندرجات جو پریس کو بھی بتائے گئے جس کی ایک کاپی بھارت بائیوٹیک کو بھی دی گئی تھی اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی شراکت داری قابل قدر حد تک ہے۔ خط کے الفاظ اس طرح ہیں: ’’انہوں نے خط میں کہا کہ ہمارا تصور ہے کہ کلینیکل ٹرائلز کی تکمیل کے بعد ۱۵ اگست ۲۰۲۰ تک یہ ویکسین عوامی استعمال کے لیے دستیاب ہو گی۔ بی بی آئی ایل (بھارت بائیوٹیک انٹرنیشنل لمیٹڈ) اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے تیزی سے کام کر رہی ہے تاہم، حتمی نتائج کا انحصار اس منصوبے میں شامل تمام کلینیکل ٹرائل سائٹس کے تعاون پر ہی ہوگا۔ لہذا آپ کو یہ تاکید کی جاتی ہے کہ اس پروجیکٹ کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے مقررہ وقت میں اس کی تکمیل کردی جائے عدم تعمیل پر سخت کارروائی ہوگی ۔
واضح طور پر مرکزی حکومت کی جلد بازی اتنی تھی کہ اس ویکسین کو یومِ آزادی کو ہی جاری کر دینا چاہتی تھی جبکہ اس کے بنیادی کلینیکل ٹرائلز ہی مکمل نہیں ہوئے تھے لیکن بہر صورت وہ اسے جاری کرنا چاہتی تھی جس کے لیے وہ بھارت بائیوٹیک سمیت اپنے دیگر پارٹنر اداروں پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ وہ اپنے کاموں کو ایک مقررہ تاریخ سے پہلے مکمل کر لیں۔ کس اختیار پر آئی سی ایم آر کے ڈائریکٹر جنرل نے ایسا خط لکھا؟ یقینی طور پر آئی سی ایم آر کو ویکسین کی تحقیق و ترقی میں کچھ نہ کچھ عمل دخل ہے اسی لیے وہ اس پر کنٹرول رکھتی ہے لیکن اس کے اختیار کی نوعیت کیا ہم نہیں جانتے۔ دوسری بات اس سال ۱۷ اپریل کومرکزی حکومت نے ممبئی میں ہیفکن انسٹیٹیوٹ سمیت تین نئی کمپنیوں کو کو ویکسین تیار کرنے کی اجازت دی ہے۔ مرکزی حکومت نے کس اختیار کی بنیاد پر ان اداروں کوکو ویکسین تیار کرنے کے لیے اجازت نامے (لائسنس) فراہم کیے؟ کیا یہ حکومت کی طرف سے ایک عام سی انتظامی منظوری تھی یا یہ ویکسین کے تحقیقی اختیار یا مالکانہ حقوق رکھنے والے کی حیثیت سے اجازت نامے دیے گئے تھے؟ یقینی طور پر حکومت کے پاس اس طرح کی منظوری دینے کا کچھ اختیار حاصل ہوگا لیکن وہ اختیار کیا ہیں اس بارے میں بھی ہم مکمل طور سے نہیں جانتے۔
بھارت بائیوٹیک کے ساتھ آئی سی ایم آر کے تعلقات کیا ہیں یہ بات ابھی کھل کر سامنے نہیں آئی ہے۔ ان کے درمیان کس طرح کے معاہدے طے پائے ہیں اس کی معلومات عام نہیں ہوئی ہیں۔ کوویکسین کے مالکانہ حقوق کس کے پاس ہیں اس کی جانکاری نہیں ہے۔ اس ضمن میں ایک اہم مضمون انوپریہ دھونچاک اور انیک بھادوری نے لکھا ہے اور کئی اہم سوالات اس ضمن میں کیے ہیں۔ انہوں نے منصوبوں یا اسکیموں کی کفالت سے متعلق مالی اعانت کے لیے مرکزی حکومت کے جنرل مالیاتی قواعد ۲۰۱۷ کی دفعات کا حوالہ دیا۔ قواعد میں یہ بات طے ہے کہ منصوبوں یا اسکیموں کی تکمیل پر اس پروجیکٹ کے اثاثوں کا مالک کفیل ہی ہو گا۔ لیکن آئی سی ایم آر اور بھارت بائیو ٹیک کے مابین معاہدہ میں کیا شرائط تھیں؟ یہ ابھی معلوم نہیں ہو سکا۔
ایک ذریعہ ہے جس سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ویکسین کا اصل مالک کون ہے کس نے اس تحقیق و ترقی کی اور کس نے کتنا سرمایہ لگایا آیا اس کی تحقیق و ترقی میں عوامی سرمایہ لگایا گیا ہے یا نہیں؟ وہ یہ ہے کہ ویکسین سے متعلق شائع ہونے والے تحقیقی مقالوں میں مالی اعانت کے بارے میں کیا اعلانات کیے گئے ہیں اس کا جائزہ لے کر ہم جان سکتے ہیں کہ اس میں کس کا روپیہ لگا ہے۔ بھارت بائیوٹیک کے مطابق کوویکسین پر اب تک چھ بین الاقوامی ہمہ مرتبہ جائزہ یعنی (پری ریویویڈ) جریدہ شائع ہو چکا ہے۔
ان مقالوں پر طائرانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چھ میں سے چار مقالوں میں وزارت صحت اور خاندانی بہبود یا قومی انسٹیٹیوٹ آف وائرولوجی پونے یا آئی سی ایم آر کی مالی مدد کا واضح طور پر اعتراف کیا گیا ہے۔ ان تمام چھ مقالوں کو بھارت بائیوٹیک اور آئی سی ایم آر / نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ویرولوجی کے اسکالرز نے مشترکہ طور پر لکھا ہے۔ چھ میں سے پانچ مقالوں میں آئی سی ایم آر کے ڈائریکٹر جنرل بلارام بھگوا نے خود لکھا ہے۔ ان چھ مقالوں میں کہیں بھی یہ مذکور نہیں ہے کہ مالی اعانت کے طور پر جو رقم شامل ہے وہ کہاں سے لی گئی ہے اس کی کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ تاہم اس بات کا واضح ثبوت موجود ہے کہ واقعتاً عوامی روپیہ ہی اس تحقیق پر خرچ کیا گیا ہے۔
ذیل میں دیے گئے جدول میں ان چھ اشاعتوں اور اس کے مالی اعلانات کا خلاصہ دیا گیا ہے:
اگر اس میں ٹیکس دہندگان کا پیسہ شامل ہے تو مرکزی حکومت کو چاہیے کہ اس سے متعلقہ تمام دستاویزات کو عوام کے سامنے لائے۔ اگر واقعی حکومت یا آئی سی ایم آر کوویکسین تمام حقوق رکھتے ہیں تو یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ تمام حقوق اپنے پاس رکھنے کے باوجود ویکسین کی تیاری کا ٹھیکا صرف ایک کمپنی بھارت بائیوٹیک کو ہی کیوں دیا گیا اسے ویکسین کی تیاری کے لیے خصوصی لائسنس کیوں فراہم کیا گیا؟ ویکسین تیار کرنے کے لیے متعدد کمپنیوں کو خصوصی لائسنس کیوں فراہم نہیں کیے گئے؟ یہ بڑے اہم سوال ہیں حکومت کو اس کے جواب دینے ہوں گے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ بھارت بائیوٹیک نے بعد میں اوکوگن جیسی فرم کے ساتھ کوویکسین کی سو ملین خوراک امریکہ کو فراہم کرنے کامعاہدہ کیوں کیا۔ اگر آئی سی ایم آر اپنے پاس اس کے مالکانہ حقوق رکھتا ہے تو کیا اسے بھی منافع میں حصہ داری ہوگی؟ کیا اسے بھی مالی فائدہ ہو گا؟ اس سے متعلق کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔ درحقیقت آئی سی ایم آر اور بھارت بائیوٹیک کے مابین کا معاہدہ ہمیں آکسفورڈ اور آسٹرا زینیکا کے مابین ہونے والے معاہدے کی یاد دلاتا ہے۔ آکسفورڈ اور آسٹرا زینکا ویکسین بنانے اور اس کی تحقیق و ترقی کے لیے ۹۷ فیصد فنڈز عوامی ذرائع سے حاصل کیے گئے جیسے برطانیہ کے سرکاری محکمے، برطانیہ کے سائنسی ادارے، یورپی کمیشن اور مختلف خیراتی ادارے وغیرہ۔ اس کے باوجود آکسفورڈ یونیورسٹی نے ویکسین کے سارے حقوق اپنے پاس رکھے اور اس ویکسین کی تیاری کے اسٹرا زینکا کو خصوصی لائسنس فراہم کر دیا اور اس کے ساتھ معاہدہ کرلیا جس کے نتیجہ میں یہ ویکسین عوامی سرمایہ کاری سے تحقیق و ترقی کر کے اب خانگی اداروں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے جس کے ذریعہ سے یہ خانگی کمپنیاں عوام سے خوب منافع خوری کریں گی گویا کہ ان کے لیے یہ ویکسن من و سلویٰ بن گئی ہو۔ اور ہم جانتے ہیں کہ آسٹرا زینکا نے بھارت کے سیرم انسٹیٹیوٹ کے ساتھ بھی ایک خصوصی معاہدہ کیا ہے جس کے تحت وہ ملک میں اسی ویکسین کو کووی شیلڈ کے نام سے فروخت کرے گا۔
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 2 مئی تا 8 مئی 2021