محمد جرجیس کریمی، علی گڑھ
معاشرہ کی بے رحمی نے بچوں کو مشکلات میں ڈال دیا
دنیا میں موجود سماجی ومعاشی ظلم اور استحصال کے شکار طبقات میں سے ایک طبقہ معصوم بچوں کا بھی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے بتایا ہے کہ دنیا میں لگ بھگ پانچ کروڑ بچے یا تو ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے یا پھر اندرون ملک ہی انہیں دربدری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مذکورہ ادارے نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا کہ دنیا میں پرتشدد واقعات کے باعث تقریباً دو کروڑ اسی لاکھ بچوں کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ اتنی ہی تعداد اپنے والدین کے ساتھ بہتر زندگی کی تلاش میں گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۵ء تک دنیا کی آبادی کا تیسرا حصہ بچوں پر مشتمل تھا اور دنیامیں پناہ گزینوں کی کل تعداد کا نصف بھی بچوں پر مشتمل ہے جو کہ گزشتہ دہائی کی بہ نسبت دوگنی تعداد بنتی ہے۔ دنیا میں ایک کروڑ بچے پناہ گزیں ہیں اور دس لاکھ ایسے ہیں جو پناہ کے متلاشی ہیں۔ تقریباً ایک کروڑ ۷۰ لاکھ بچے تنازعات کے شکار ملکوں میں رہتے ہوئے بے گھر ہوئے ہیں۔تقریباً دو کروڑ تارکین وطن بچے ایسے ہیں جو غربت اور جرائم پیشہ گروپوں کے تشدد کے سبب اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے بچوں کو تحفظ، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک دوسری تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۲۰۱۹ء میں اپنے ہی ملکوں میں مہاجر بننے والے افراد کی تعداد تقریباً چھیالیس ملین تھی۔ ان میں انیس ملین بچے ہیں جو تنازعات کے باعث اپنے ملکوں میں نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ ان بچوں کو نہ صرف بنیادی سہولتیں حاصل نہیں ہیں بلکہ ان کو جنسی استحصال کا سامنا بھی ہے۔ مزید یہ کہ انسانی اسمگلنگ، چائلڈ لیبر اور چائلڈ میرج جیسے مسائل سے بھی دو چار ہیں۔ ۱؎ بچوں سے متعلق عالمی صورت حال کی یہ ایک اجمالی تصویر تھی۔ اب الگ الگ ملکوں کے بچوں کی صورت حال کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں تین لاکھ نو عمر لڑکیاں جسم فروشی کا پیشہ کرنے پر مجبور ہیں جس میں بہت سی لڑکیوں کی عمر ۱۵ سال سے کم ہے۔ ایشیا میں اس عمر کی تقریباً ۱۰ لاکھ بچیوں سے یہ پیشہ کروایا جا رہا ہے۔ جبری عصمت دری کا شکار بھی اکثر حالتوں میں کم سن بچیاں ہی ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں عورت جنس کے خلاف تفریق وسلوک کے نتیجے میں ہر چھٹی لڑکی موت کے منہ میں دھکیل دی جاتی ہے۔ امریکہ کی ایک انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنی ایک شائع شدہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ برازیل میں ۵ لاکھ سے زیادہ بچے جسم فروشی کے دھندے میں لگا دیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ یہاں دلالوں، پولیس والوں اور مقامی حکام کا ایک جال پھیلا ہوا ہے جو بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق کسی بھی قانونی تفتیش میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ بچوں پر تشدد اور ان کے قتل کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں چودہ سال سے کم عمر کے ۶۰ لاکھ سے زیادہ بچے قالین سازی، کپڑا فیکٹریوں، اینٹ کی بھٹیوں، لوہار بھٹیوں، چمڑا رنگنے کے کارخانوں، بیکریوں، ریستورانوں اور تعمیرات کے علاوہ گھروں میں کام کرتے ہیں۔
ہندوستان میں ہر تیسرا مزدور ایک بچہ ہے۔ ان میں سے ۷۰ فیصد بچے انتہائی قلیل تنخواہ پر کام کرتے ہیں جو ہندوستانی کرنسی کے مطابق ۱۰۰ روپے ہی ہوتے ہیں۔۳۰ فیصد بچوں کو تقریباً ۱۵۰ روپے ماہانہ ملتے ہیں۔ غیر منظم سیکٹروں میں کام کرنے والے دس کروڑ بچوں میں سے ۲۰ لاکھ سے زائد بچے صحت کے لیے انتہائی مضر صنعتوں میں کام کرتے ہیں۔ بچوں کو کام کے دوران زد وکوب اور تشدد کا شکار بھی ہونا پڑتا ہے۔ بسا اوقات ان کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ بندھوا مزدوروں کی حالت تو اور بھی ابتر ہے۔
بچوں کا اغوا، خرید وفروخت اور ان کو یرغمال بنا کر ان کے والدین سے خطیر رقم کا مطالبہ کرنا بھی ان مظالم میں شامل ہے جو موجودہ دور میں ظالموں کے لیے ایک نفع بخش پیشہ اور ذریعہ آمدنی بنتا جارہا ہے ۔ اس سلسلہ میں صرف بہار میں ۲۰۰۴ء سے پہلے گزشتہ دس سالوں کے دوران اغوا اور اغوا برائے تاوان کے مجموعی طور پر ۳۲٥٠٠ واقعات پیش آئے۔ یہ صرف ایک صوبے کے اعداد وشمار ہیں۔ اس سے پورے ملک کی صورتحال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ بچوں کے ذریعہ گداگری کرانا بھی ان کا سماجی استحصال ہے جو دنیا میں مختلف صورتوں میں جاری ہے۔۲؎ ہندو پاک کے علاوہ بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، سوڈان، ہیتی، پیرو، برازیل و برطانیہ اور جمہوریہ ڈومینک میں بھی بندھوا مزدوری کا مسئلہ سنگین ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے جائزے میں کہا گیا ہے کہ چھ برس کے ننھے بچوں سے بھی یہاں مزدوری کروائی جاتی ہے۔ معصوم بچے انتہائی جاں گسل حالات میں سترہ سے اٹھارہ گھنٹے تک ہر دن محنت کرتے ہیں اور تعلیم سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض بچوں کی بار بار پٹائی کی جاتی ہے۔ اگر وہ فرار ہونے کی کوشش کریں تو ان کو سخت اذیتیں دی جاتی ہیں۔ ان کے مالکین ان کا جنسی استحصال بھی کرتے ہیں پھر ان کو فروخت کردیا جاتا ہے یا انہیں قہوہ خانوں میں بیچ دیا جاتا ہے۔ہندوستان میں جہاں نوے فیصدی بچے نامناسب غذائیت کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں ہر مہینہ ایک لاکھ بچے مر جاتے ہیں تو دوسری طرف تین کروڑ بچوں کو پر خطر اور غیر صحت مند حالات میں یومیہ ۱۱ سے ۱۲ گھنٹوں تک کام کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ تمل ناڈو کے سیوا کاشی کے جنوبی قصبات میں دیاسلائی کی فیکٹری میں تقریباً ۲۸ ہزار بچے انتہائی معمولی مزدوری پر ۱۶ گھنٹے کام کرتے ہیں، ان میں سے بیشتر کی عمر ۴ سے ۵ سال کے درمیان ہوتی ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ایک کروڑ بیس لاکھ بچے مزدوری کر رہے ہیں جبکہ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق، ملک میں دو کروڑ بچے، گھروں میں چائے کی دکانوں اور ہوٹلوں میں کام کرتے ہیں۔ ملک کی راجدھانی دہلی میں دس لاکھ بچے گھروں اور چائے کی دکانوں میں کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ملک میں کام کرنے والے بچوں کی نصف سے زیادہ تعداد پانچ ریاستوں بہار، اترپردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کی ہیں۔ ان ریاستوں میں 55 لاکھ سے زیادہ چائلڈ ورکرز ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی میں یو پی میں بچہ مزدوری میں ۱۳ فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اصلاحات کی رفتار اتنی کم ہے کہ اس کے لیے دو سو سال کی مدت درکار ہے۔۳؎
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے تازہ جائزے کے مطابق دنیا بھر میں کام میں لگے بچوں کی تعداد ۱۶۰ملین ہے۔ پچھلے سالوں میں 8.4 ملین بچوں کا کووڈ-۱۹ کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے اور لاکھوں بچے بچہ مزدوری کے خطرے سے دوچار ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنازیشن کی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے۔ ۲۰۲۲ء کے آخر تک مزید ۹۰ لاکھ بچے چائلڈ لیبر میں دھکیلے جانے کے خطرے سے دو چار ہیں۔ مزید اندیشہ ہے کہ اگر انہیں سماجی تحفظ نہیں دیا گیا تو یہ تعداد 46 ملین تک ہو سکتی ہے۔ کووڈ-۱۹ کی وجہ سے اسکول بند ہونے اور معاشی دشواریوں کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ چائلڈ لیبر میں ستر فی صد (۱۲ ملین) بچے زراعت کے پیشتہ سے وابستہ ہیں۔ بیس فیصد (31.4) گھریلو یا ہوٹل کی خدمات اور دس فیصد (16.5 ملین) صنعت سے وابستہ ہیں۔ پانچ سے گیارہ سال کی عمر کے ۲۶ فیصد، پانچ سال کی عمر کے ۳۵ فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ دیہی علاقوں میں چائلڈ لیبر کا تناسب شہری علاقوں کے مقابلے میں تیس گنا زیادہ ہے۔۴؎
دنیا میں چائلڈ لیبر کی لعنت میں 160 ملین بچے گرفتار ہیں جن میں سے ہندوستان میں اسی تعداد کا تقریباً سات اعشاریہ تین فیصد کا تناسب ہے۔ ۳۳ ملین بچے مزدور ہیں جن میں سے 8.6 ملین بچے پانچ اور چار سال کی عمر کے ہیں۔ اتر پردیش میں سب سے زیادہ بچے مزدوری کرتے ہیں۔۵؎
اقوام متحدہ کے ادارہ بہبود اطفال کے اندازے کے مطابق ہر سال صرف ایشیاء میں پانچ لاکھ بچوں اور عورتوں کی اسمگلنگ ہوتی ہے اور پوری دنیا میں ان کی ہونے والی اس تجارت کا یہ نصف ہے۔۶؎
امریکا ویورپ کے بے اولاد جوڑے بچوں کو گود لینے کے نام پر بچوں کے اسمگلنگ کے کاروبار میں ملوث ہیں جو خاص طور پر ایشیا اور افریقہ کے غریب ملکوں سے بچوں کو یورپ اور امریکہ منتقل کرتے ہیں، جن سے یا تو وہاں بڑے بڑے کاموں میں معمولی اجرت پر پر مشقت کام لیا جاتا ہے یا کل کارخانوں میں ان سے جبری مزدوری کرائی جاتی ہے، لیکن ان بچوں کی بدقسمتی یہیں پر ہی ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ان میں سے ایک بڑی تعداد کے گردے اور اعضاء رئیسہ نکال لیے جاتے ہیں اور مالداروں کے جسموں میں ان کی پیوندکاری کی جاتی ہے۔۷؎
معاصر دنیا میں بچوں پر ظلم وزیادتی کی ایک ایسی بھیانک شکل ان سے جبری فوجی خدمت لینا بھی ہے اس کی نمایاں مثال پڑوسی ملک سری لنکا ہے، جہاں کی عسکری تنظیم ایل ٹی ٹی ای نے حکومت کے خلاف کارروائیوں کے لیے بڑے پیمانے پر کم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کا استعمال کیا۔ بر اعظم افریقہ کے مختلف ممالک بھی بچوں سے عسکری خدمت لینے کے بڑے مراکز رہے ہیں۔ مثال کے طور پر افریقہ کے صرف ایک ملک برونڈی کی ۱۲ سالہ خانہ جنگی میں صرف ایک فریق کی طرف سے تین ہزار بچہ سپاہیوں کا استعمال کیا گیا جن میں سے بہت سے محض سات سال کی عمر سے برسر جنگ رہے۔۸؎
افریقہ کے دوسرے ملکوں کے علاوہ ہمارے پڑوسی ملک برما (میانمار) میں بھی بچہ سپاہیوں کا مسئلہ اسی طرح سنگین ہے۔وہاں کی فوجی حکومت کے ذریعہ دس سال تک کی عمر کے بچوں کو خرید کر یا ان کو اغوا کر کے اور ڈرا دھمکا کر فوجی خدمت کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔۹؎ اسی طرح نیپال میں بھی ماو نوازوں کی طرف سے بچوں کا استعمال کیا گیا ۔
بچوں کے استحصال کی ایک صورت یہ ہے کہ ان سے گداگری کروائی جائے۔ دنیا میں بہت سے جرائم پیشہ گروہ ایسے ہیں جو بچوں کو اغوا کرتے ہیں اور ان کو معذور بنا کر گداگری کرواتے ہیں جبکہ دنیا کے ہر ملک میں گداگری پر قانوناً پابندی ہے۔ بعض وقت ماں باپ گداگری کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی اسی آسان ذریعہ معاش سے وابستہ کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت حال میں ان کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ اس مسئلہ میں بچے اور بچیوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔ ہندوستان میں کل ۷۳ لاکھ افراد گداگری کرتے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ ہندوستان میں ہر سال ایک لاکھ بچے اغوا کیے جاتے ہیں اور ان میں سے اکثریت گداگری میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہاں پر دس کروڑ بچے گلیوں میں کام کرتے ہیں اور کوڑے دان، گداگری اور اس طرح کے دیگر ذرائع سے اپنی غذا حاصل کرتے ہیں جن کو اسٹریٹ چلڈرن کہا جاتا ہے۔ دہلی میں ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ تک ایسے بچے ہیں جن میں سے اسی فیصد نشہ کے عادی ہیں اور روزانہ تقریباً ۲۷ لاکھ کا نشہ آور مواد خریدتے ہیں۔۱۰؎
بچوں پر مظالم کے ضمن میں یہ بات کافی تشویش ناک ہے کہ بسا اوقات خود والدین بچوں کو ظلم و تشدد کا شکار بناتے ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیوروسائنسز میں بطور معالج پروفیسر کے۔ جان وجے ساگر بتاتے ہیں کہ ڈیڑھ لاکھ بچوں کی تشخیص کے دوران اس بات کا پتہ چلا کہ یہ بچے والدین کے ظلم وستم کا شکار ہوئے ہیں۔ ان میں ہلکی مار والے بچے بھی تھے اور جسمانی تشدد والے بچے بھی۔کئی بار بچوں کو جنسی تفریق کی وجہ سے ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ایسے بچے جو ظلم وتشدد کا شکار ہوئے ہوں نفسیاتی انحرافات کا شکار ہو کر کئی بار خود کشی کر لیتے ہیں یا گھروں سے فرار ہو کر فٹ پاتھوں پر زندگی گزارتے ہیں۔۱۱؎
( مضمون نگار ادارہ تحقیق و تصنیف علی گڑھ سے وابستہ ہیں)
حواشی و مراجع:
۱- انٹرنیٹ۔ بچوں سے متعلق یونیسیف کی رپورٹس
۲- تفصیلی حوالوں کے لیے دیکھیے: جرائم اور اسلام ، محمد جرجیس کریمی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، دہلی، ۲۰۱۷ء، صفحہ ۲۸،۲۴،۲۳
۳- www.riseinurbanchildlabourfindstudy,www.child
labourrateilo
۴- www.worlddayagainstchildlabour2020
۵- www.worlddayagainstchildlabour2020
۶- روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی، ۴؍ جولائی ۲۰۰۷ء
۷- روزنامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، ۲۷؍ اگست ۲۰۰۶ء
۸- اسلام میں بچوں کے حقوق ، سلطان احمد اصلاحی، ادارہ علم و ادب علی گڑھ ۲۰۱۷ء ص ۱۴-۱۸
۹- دی ہندو، نئی دہلی (انگریزی) ۱۷جنوری ۲۰۰۶
۱۰- دی ہندو، نئی دہلی (انگریزی) ۳ نومبر ۲۰۰۷ء
۱۱- دیکھیے: انٹرنیٹ بعنوان والدین کا بچوں پر ظلم (فتحان نیوز بینگلور)
***
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے تازہ جائزے کے مطابق دنیا بھر میں کام میں لگے بچوں کی تعداد ۱۶۰ملین ہے۔ پچھلے سالوں میں 8.4 ملین بچوں کا کووڈ-۱۹ کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے اور لاکھوں بچے بچہ مزدوری کے خطرے سے دوچار ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنازیشن کی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے۔ ۲۰۲۲ء کے آخر تک مزید ۹۰ لاکھ بچے چائلڈ لیبر میں دھکیلے جانے کے خطرے سے دو چار ہیں۔ مزید اندیشہ ہے کہ اگر انہیں سماجی تحفظ نہیں دیا گیا تو یہ تعداد 46 ملین تک ہو سکتی ہے۔ کووڈ-۱۹ کی وجہ سے اسکول بند ہونے اور معاشی دشواریوں کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ چائلڈ لیبر میں ستر فی صد (۱۲ ملین) بچے زراعت کے پیشتہ سے وابستہ ہیں۔ بیس فیصد (31.4) گھریلو یا ہوٹل کی خدمات اور دس فیصد (16.5 ملین) صنعت سے وابستہ ہیں۔ پانچ سے گیارہ سال کی عمر کے ۲۶ فیصد، پانچ سال کی عمر کے ۳۵ فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ دیہی علاقوں میں چائلڈ لیبر کا تناسب شہری علاقوں کے مقابلے میں تیس گنا زیادہ ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 تا 26 مارچ 2022