بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے بعد افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے شہریت ترمیمی قانون پر اٹھائے سوال
نئی دہلی، جنوری 20: بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے ذریعے نریندر مودی حکومت کے ذریعہ منظور کردہ سی اے اے پر سوال اٹھائے جانے کے بعد افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی اتوار کے روز اس قانون کے بارے میں منفی تبصرہ کیا۔
کرزئی، جو یہاں رئیسینہ ڈائیلاگ میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے، نے ایک انٹرویو میں ”دی ہندو” اخبار کو بتایا کہ "تمام افغان مذہب سے پرے کئی سالوں سے پریشانی میں مبتلا ہیں”
انھوں نے واضح طور پر کہا کہ "افغانستان میں اقلیتوں پر ظلم نہیں کیا جاتا ہے”۔
کرزئی نے انٹرویو میں کہا”(سی اے اے) ہندوستان کا فیصلہ تھا اور شاید ان کے پاس اس کی وجوہات ہوسکتی ہیں اور قانون پارلیمنٹ میں لایا گیا ہے۔لیکن ہم نے افغانستان میں اقلیتوں پر ظلم نہیں کیا ہے… پورا ملک ظلم و ستم کا شکار ہے۔ ہم ایک طویل عرصے سے جنگ اور کشمکش میں ہیں۔ افغانستان میں تمام مذاہب: مسلمان اور ہندو اور سکھ جو ہمارے تین اہم مذاہب ہیں نے مشکلات کا سامنا کیا ہے۔
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ افغان اپنے ملک میں مذہبی اقلیتوں کے بارے میں کیا خیال کرتے ہیں، انھوں نے اپنی صدارت کے دور کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا "افغانستان میں جو احساس ہند میں ہے اس سے بہت مختلف ہے۔ جب میں صدر بنا تو ایک اسکول کے پرنسپل جنھیں میں نے کئی برسوں سے جانتا تھا، مجھ سے ملنے آئے۔ جاتے جاتے انھوں نے کہا: ‘میری صرف ایک درخواست ہے: ہمارے ہندوؤں اور سکھوں نے (طالبان کے دور حکومت میں) بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے اور وہ بہت زیادہ مستحق ہیں، لہذا جہاں کہیں وہ پاکستان یا ہندوستان میں بھاگے ہیں انھیں واپس لے آؤ اور ان کی جائیدادیں بحال کرو۔”
واضح رہے کہ دو روز قبل بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے دی گلف نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ سی اے اے غیر ضروری ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ سمجھ نہیں پا رہی ہیں کہ حکومت ہند ایسا قانون کیوں لائی؟ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بنگلہ دیش میں کوئی مذہبی ظلم نہیں ہوا ہے اور انھوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کے اندر بھی مسائل ہیں۔ قانون کی منظوری کے بعد بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ نے مختلف وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا ہندوستان کا طے شدہ دورہ بھی منسوخ کردیا تھا۔
بڑی تعداد میں ہندوستانی، زیادہ تر مسلمان، پورے ملک میں تقریبا ایک ماہ سے اس قانون کے خلاف لگاتار احتجاج کررہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ مذہبی درجہ بندی اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔ بیرون ملک مقیم ہندوستانی بھی اس قانون کے خلاف یہ کہتے ہوئے احتجاج کر رہے ہیں کہ یہ قانون غیر آئینی اور ملک کے سیکولر اور کثیر الثقافتی اقدار کے خلاف ہے۔