بمبئی ہائی کورٹ نے مہاراشٹر حکومت کو بڑھتے ہوئے نفرت انگیز سوشل میڈیا پوسٹس پر لگام لگانے کے لیے سخت اصول وضع کرنے کی ہدایت کی
ممبئی، اگست 22: بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق بمبئی ہائی کورٹ نے ممبئی کے ایک رہائشی کے ذریعے دائر پی آئی ایک پر سماعت کرتے ہوئے جمعہ کے روز مشاہدہ کیا کہ لوگ اپنے حقوق کو استعمال کرنے کے نام پر سوشل میڈیا پر آزادیِ تقریر کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔
ہائی کورٹ نے کہا ’’اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کا استعمال نفرت کے بیج بونے اور مذہبی برادریوں میں عدم اعتماد پیدا کرنے کے لیے نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چوں کہ اشتعال انگیز مراسلات/پیغامات عوامی امن و سکون کو خراب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لہذا ان کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔‘‘
چیف جسٹس دیپنکر دتّہ اور جسٹس مادھو جامدار پر مشتمل ڈویژن بنچ نے کہا کہ مہاراشٹر حکومت کو نفرت انگیز پوسٹس کی زیادتی کو روکنے کے لیے سخت اصولوں کو متعارف کرانا چاہیے، لیکن اسے آزادایِ تقریر اور اظہار رائے کے حق کے تحت فراہم کردہ معقول پابندیوں کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے۔‘‘
عمران خان نے اپنے وکیل وویک شکلا کے توسط سے دائر درخواست میں ایک شخص ابوفیضل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق متعلقہ شخص آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کا حامی ہے۔ تاہم اخبار نے درخواست گزار کا نام معین خان رکھا ہے۔ شکلا نے دعوی کیا کہ فیضل سوشل میڈیا پر فسادات بھڑکانے والے مواد پھیلارہا ہے جو دو مذہبی جماعتوں کے مابین ہم آہنگی کو خراب کرسکتے ہیں۔
مئی میں ہائی کورٹ نے اس معاملے میں فیس بک اور یوٹیوب کو حکم دیا تھا کہ وہ فیضل کے ذریعہ شائع کردہ حساس مواد کو حذف کریں۔ تب فیس بک اور یوٹیوب نے کہا تھا کہ اگر وہ عدالت اور مرکز انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 2000 کے تحت ایسا کرنے کی ہدایت کرتے ہیں تو وہ فیضل کو روک سکتے ہیں۔
جمعہ کے اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو نوڈل آفیسر سے رجوع کرنے اور اپنی شکایت درج کرنے کا حکم دیا لیکن پولیس کو فیضل کے خلاف کارروائی سے متعلق ہدایت کرنے سے انکار کردیا۔