سید اظہرالدین
ترجمہ: محمد فواز جاوید خان
ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں ’ایک بستی کو گود لینے‘ کا جوخیال پیش کیا تھا اس کا مطلب صرف یہ نہیں تھا کہ اس بستی میں نام نہاد سماجی خدمت کا کام کر دیا جائے بلکہ ان کی مالی حالت کو سدھارنے کی کوشش کی جائے، چھوٹی چھوٹی صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جائے اور ان کو نوکری بھی فراہم کی جائے تاکہ ملک کی جی ڈی پی (GDP)کو بڑھانے میں مدد ملے۔
پروفیسر ارون کمار ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں ’’دنیا بھر میں پیداوار یا تو بڑے پیمانہ کی صنعتوں میں ہوتی ہے یا چھوٹے پیمانے کی صنعتوں میں، جب کہ ہندوستان میں بہت سی درمیانی پیمانے کی صنعتیں بھی ہیں اور غیر منظم قسم کی بھی یہاں کافی صنعتیں پائی جاتی ہیں۔ بڑے اور درمیانہ پیمانے کی صنعتوں کے پاس سرمایہ بھی بہت ہے اور مشینوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جب کہ دیگر صنعتوں کے پاس ایسے کوئی وسائل نہیں ہیں۔ خام مواد کی فراہمی اور مزدوروں کی اجرت دینے کے لیے کافی سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ بزنس کی شروعات میں مشینیں خریدنے اور فیکٹری کی تعمیر کے لیے بھی کافی سرمایہ درکار ہوتا ہے جو کہ لوگ عموماً بینک سے لون پر حاصل کرتے ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے اپنی بچی ہوئی پونجی سے سرمایہ کاری کرتے ہیں یا پھر نجی قرض دہندگان سے قرض حاصل کرتے ہیں۔ کاروبار کرتے ہوئے وہ قرض تلے ڈوبے ہوتے ہیں جس پر ان کو سود بھی دینا پڑتا ہے، جو بھی منافع حاصل ہوتا ہے اس سے ان کو سود بھرنا پڑتا ہے۔ اب اگر سامان کی فروخت کسی وجہ سے رک جاتی ہے تو ان کے لیے سود ادا کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور کاروبار ٹھپ پڑنے لگتا ہے۔ بنک سے لیے گئے اس طرح کے لون غیر منقول اثاثے (non-performing asset) NPAs بن جاتے ہیں۔ اب اگر فروخت نہ ہونے کے باوجود بھی پیداوار کو جاری رکھا جائے تو مزید سرمایہ کاری کرنی پڑے گی اور تیار شدہ سامان بھی جمع ہوتا رہے گا جیسے جیسے سرمایہ بڑھے گا اس پر سود بھی بڑھتا جائے گا۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ کمپنی کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا اور کمپنی دم توڑ دیگی۔
الف۔ غیر سودی بینکنگ:
آج ہمارے سامنے بہت سے کاروبار بند ہو رہے ہیں، صنعت کار اس حالت میں نہیں ہیں کہ وہ بینک کو سود ادا کر سکیں، مرکز کی موجودہ صورتحال ایسی نہیں ہے کہ وہ حسب وعدہ صوبہ جات کو جی ایس ٹی میں سے ان کا حصہ دے سکے۔ پورا مالیاتی نظام کورونا وائرس کی وجہ سے وینٹیلیٹر پر آ گیا ہے کیونکہ عالمی وبا کے پیش نظر اس کی بھی مدافعانہ قوت کمزور پڑ چکی ہے۔ 19 مارچ 2020 کو ہنگامی کاروباری منصوبہ (Business Contingency Plan) BCP کے تحت ایک وار روم (War Room) تشکیل دیا گیا تھا۔ تاریخ میں یہ پہلی بار تھا کہ دنیا کے کسی ملک نے اس طرح بی سی پی کا قیام عمل میں لایا ہو۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی ایسا کوئی نظم نہیں کیا گیا تھا، میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ بات ایک آر بی آئی (RBI) کے آفیشیل نے کہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وار روم اور آر بی آئی کے ماہرین غیر سودی بینکنگ کے بارے میں کیوں نہیں سوچ رہے ہیں؟ جس کا مشورہ خود آر بی آئی کے سابق گورنر جناب رگھو رام راجن صاحب نے دیا تھا۔ جب کہ حالات اتنے سخت ہیں، بحران سر پر ہے، جی ڈی پی 2020-21کے پہلے چوتھائی حصہ میں 23.09 فیصد سے زیادہ نیچے گر چکا ہے اور یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ابھی اور بھی نیچے جا سکتا ہے۔ رگھو رام راجن نے غیر سودی بینکنگ کا جو منصوبہ بنایا تھا اس میں صرف افراد کا نہیں بلکہ اداروں، کمپنیوں اور خود حکومت کا بھی مفاد تھا لیکن آر بی آئی نے اسے خارج کر دیا۔
پی گھوش نے 2017میں غیر سودی بینکنگ پر ایک مضمون لکھا تھا جو کہ اسلامی مالیاتی نظام سے ماخوذ تھا۔ پی۔ گھوش نے اسلامک بینکنگ اور اسلامی معاشی نظام کو مختلف ماڈلز کے ذریعہ تفصیل سے سمجھایا ہے کہ کس طرح اس کے غیر مسلم ملکوں پر بھی اچھے اثرات پڑے ہیں۔ اسلامی قانون (شریعت لاء) ہر طرح کی بینکنگ کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلامی قانون کسی بھی مسلمان کو سودی لین دین یا کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دیتا جب کہ سود ہی کسی بھی غیر مسلم بینکنگ کی بنیاد ہے۔ شریعت کے اصولوں پر چلنے والا بینک صرف ان پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کرتا ہے جن کی شریعت اجازت دیتی ہے۔ پھر جو بھی نفع یا نقصان ہوتا ہے بینک اسے اکاؤنٹ ہولڈرس کے ساتھ تقسیم کر لیتا ہے، اس میں سود کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہے۔ البتہ اکاؤنٹ ہولڈرس کو ایک مطلوبہ فیس ادا کرنی ہوتی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (International Monetary Fund) کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلامی مالیاتی نظام کے اثاثے کی شرح نمو پچھلے دس سالوں سے دو ہندسی رہی ہے (Double Digit Growth Rate)۔ سن 2003 میں جو اثاثے 200 بلین یو ایس ڈالر کے تھے 2013 کے ختم ہوتے ہوتے ان کی قیمت 1.08 ٹرلین ڈالر ہو گئی ہے۔ یہ صرف مسلمان ملکوں تک محدود نہیں ہے بلکہ چائنا، جرمنی، برطانیہ اور امریکہ جیسے غیر مسلم ممالک میں بھی اسلامک بینکنگ سسٹم اپنی جگہ بنا رہا ہے۔
ہمارے ملک کے حالیہ معاشی بحران کے پیش نظر ہمیں بھی اپنے بینکنگ کے نظام پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم متبادل نظام تلاش کریں تاکہ معیشت کو فروغ دے سکیں اور ساری دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کر سکیں۔ ہم یہ بالکل کر سکتے ہیں کیوں کہ ہمارے پاس بڑے پیمانے پر انسانی وسائل اور انتظامی صلاحیتیں موجود ہیں۔ جناب ایچ۔ عبدالرقیب صاحب نے جو کہ انڈین سنٹر فار اسلامک فائنانس (Indian Centre for Islamic Finance) کے جنرل سکریٹری ہیں اور پچھلی دو دہائیوں سے غیر سودی بینکنگ کے نظام کو ہندوستان میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں، آر بی آئی کے سابق گورنر، ڈپٹی گورنر اور پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چئیرمین کے سامنے اس خیال کو پیش کیا تھا۔ انہوں نے ایک بینک کاری ریگولیشن ترمیم (Banking Regulation Amendment) بل بھی تجویز کیا تھا تاکہ اسے نجی ممبر بل (Private Member Bill)کے طور پر پارلیمنٹ میں پیش کیا جا ئے۔ اس میں انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ روایتی بینکوں میں غیر سودی لین دین کی بھی ایک راہ نکالی جانی چاہیے۔ 2013 کے بعد غیر سودی بینکینگ کی تجویز کو یکسر خارج کر دیا گیا۔
آر بی آئی کا کوئی قابل اعتبار اور تشفی بخش وجہ بتائے بغیر ایک ایسی تجویز کو رد کر دینا جس سے کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری بڑھ سکتی تھی اور ہندوستان کی بگڑتی معاشی صورتحال کو سہارا مل سکتا تھا، یقیناً سیاسی مفادات کے پیش نظر لیا گیا ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ پی۔ گھوش اپنی بات ختم کرتے ہوئے لکھتی ہیں ’’اسلامک بینکنگ کو ملکی سطح پر ہری جھنڈی دکھا دینا، بڑے بڑے سرکاری اور نجی بینکوں میں موجودہ مہیا خدمات کے ساتھ غیر سودی لین دین یا شریعت کے مطابق کام کرنے کی راہ ہموار کر دینے سے مودی حکومت کی جو اقلیت مخالف شناخت بنی ہوئی ہے اس پر داغ لگ جائے گا‘‘
یہ نفرت کی سیاست کرنے کا وقت نہیں ہے۔ ہم دو راہے پر کھڑے راستے کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔صنعت کاروں کی سرمایہ دارانہ سوچ نے غریبوں کو اور بھی غریب کر دیا ہے۔ بازار میں بیشتر سامان ایک ہی برانڈ کا چلتا ہے اور وہ سامان ملک بھر کے بازاروں میں میسر بھی ہوتا ہے۔ سامان کے نقل و حمل کے اخراجات، مارکیٹنگ کے اخراجات کے ساتھ ساتھ جی ایس ٹی بھی خریداروں ہی کے اوپر بوجھ بنتی ہے۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم مقامی پیداوار اور چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کو فروغ دینے کی کوشش کریں۔ خود وزیر اعظم صاحب بھی مقامی پیدوار کے حامی ہیں۔
آپ 500خاندانوں پر مشتمل ایک بستی کو لیجیے۔ ان کی بنیادی ضرورت کا جو بھی سامان ہے وہ وہیں سے مہیا کرایا جا سکتا ہے۔ یہ خاندان خود ہی اس سامان کے خریدار بھی ہوں گے۔ ایک بار خریدار بن گئے تو پھر پیداوار کا بکنا طئے ہے۔اس سے علاقہ کے لوگوں کو نوکری بھی بآسانی مل جائے گی۔ ایک ایسا نظام بن جائیگا جس سے سب خود ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہو جائیں گے اس طرح سے ایک نئی شروعات ممکن ہوگی۔ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آسانی کے ساتھ صابن، مرچ پاؤڈر، آٹا اور بیکری کے سامان جیسی اور بہت سی مصنوعات مقامی سطح پر سرمایہ کاری کر کے تیار کی جا سکتی ہیں۔ بہت سارے نوجوان جو تعلیم یافتہ ہونے کے با وجود بے روزگار ہیں ان کو بھی اس منصوبہ کا ساتھ دینا چاہیے اور اپنے مقامی علاقوں میں بیداری لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آج اگر وہ چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرتے ہیں تو کل شاید بڑے صنعت کار بھی بن جائیں گے۔ اس سے سامان کی قیمت میں ایجنٹ، نقل و حمل اور مارکیٹنگ وغیرہ کی وجہ سے جو کچھ گرانی ہوتی ہے وہ بھی بچ جائے گی ۔
ہمارے نوجوان جو کہ ملک کا مستقبل ہیں ان کی امیدیں ملک سے اور ملک کی پالیسیز سے ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا جو کردار بھی نبھا سکتے ہوں نبھانے کی کوشش کریں اس سے ملک کی معاشی حالت میں بھی ضرور سدھار آئے گا۔
آپ 500خاندانوں پر مشتمل ایک بستی کو لیجیے۔ ان کی بنیادی ضرورت کا جو بھی سامان ہے وہ وہیں سے مہیا کرایا جاسکتا ہے۔ یہ خاندان خود ہی اس سامان کے خریدار بھی ہوں گے۔ ایک بار خریدار بن گئے تو پھر پیداوار کا بکنا طئے ہے۔اس سے علاقہ کے لوگوں کو نوکری بھی بآسانی مل جائے گی۔ ایک ایسا نظام بن جائے گا جس سے سب خود ایک دوسرے کی مدد کرنے والے ہو جائیں گے اس طرح سے ایک نئی شروعات ممکن ہوگی۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020