بابری انہدام کیس: سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے ایل کے اڈوانی سمیت دیگر تمام ملزمان کو بری کردیا
لکھنؤ، 30 ستمبر: سی بی آئی نے بابری مسجد انہدام سے متعلق تقریباً تین دہائیوں پرانے فوجداری مقدمے کے تمام 32 ملزموں کو بری کردیا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور کلیان سنگھ بھی ملزمین میں شامل تھے۔
عدالت نے کہا کہ یہ انہدام پہلے سے منصوبہ بند نہیں تھا اور مسجد کو منہدم کرنے والے لوگ ’’ملک دشمن عناصر‘‘ تھے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ملزمین در حقیقت بھیڑ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ایل ڈی اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ، اوما بھارتی، ستیش پردھان اور مہنت نرتیہ گوپال داس ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے کارروائی میں شریک تھے۔ 32 میں سے 26 ملزمان عدالت میں موجود نہیں تھے۔
ایودھیا میں بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو منہدم کردیا گیا تھا، لیکن عدالتی تاخیر کی وجہ سے یہ کیس سست رفتاری سے چلا اور مقدمہ 2010 میں شروع ہوا تھا اور اس وقت تک سست رفتاری سے آگے بڑھا جب تک کہ سپریم کورٹ نے 19 اپریل 2017 کو یومیہ سماعت کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی سماعت کرنے والے جج ایس کے یادو کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا۔
دریں اثنا ملزموں کی نمائندگی کرنے والے دفاع کے وکلا سے کہا گیا کہ وہ اپنی کاغذی کارروائی تیار رکھیں۔
مسجد کے انہدام کے بعد پولیس نے دو ایف آئی آر درج کی تھیں۔ پہلا نمبر 197/92، لاکھوں بے نام کار سیوکوں کے خلاف درج کی گئی تھی جو ہتھوڑوں اور کلہاڑوں سے توڑنے کے لیے مسجد کے اوپر چڑھ گئے تھے۔
دوسری ایف آئی آر نمبر 198/92 آٹھ افراد یعنی بی جے پی کے اڈوانی، جوشی، بھارتی اور وجے کٹیار اور وشو ہندو پریشد کے اشوک سنگھل، گری راج کشور، وشنو ہری ڈالمیا اور سادھوی ریتھمبھارا کے خلاف درج کی گئی تھی۔
ان میں سے ڈالمیا، کشور اور سنگھل فوت ہوگئے ہیں۔
انہدام کے دن صحافیوں پر حملوں کے سلسلے میں بھی مزید اڑتالیس ایف آئی آر درج کی گئی تھیں۔
27 اگست 1993 کو ہی سی بی آئی کو یوپی حکومت نے تمام معاملات سونپ دیے تھے۔ 5 اکتوبر 1993 کو سی بی آئی نے 40 افراد کے خلاف پہلی چارج شیٹ داخل کی، جس میں آٹھوں رہنما شامل تھے۔ دو سال کی تفتیش کے بعد سی بی آئی نے بابری مسجد پر ایک بڑی سازش اور منصوبہ بند حملے کا الزام لگا کر 10 جنوری 1996 کو ایک ضمنی چارج شیٹ داخل کی۔
سی بی آئی نے اس کے بعد شیو سینا قائدین بال ٹھاکرے اور موریشور سیو سمیت نو مزید لوگوں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 120 (بی) کے تحت فوجداری سازش کا الزام شامل کیا۔
1997 میں لکھنؤ کے مجسٹریٹ نے 48 ملزموں کے خلاف الزامات (مجرمانہ سازش سمیت) تیار کرنے کا حکم دیا۔ لیکن ان میں سے 34 نے نظر ثانی کی اپیل کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ میں رجوع کیا اور انھیں موخر کردیا گیا۔
چار سال تک ہائی کورٹ کے حکم کی وجہ سے اس معاملے میں کچھ بھی حرکت نہیں ہوئی۔
پھر 21 فروری 2001 کو الہ آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ اڈوانی، جوشی، بھارتی، کلیان سنگھ اور دیگر کے خلاف فوجداری سازش کا الزام خارج کردیا جائے۔
تین ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد 4 مئی 2001 کو لکھنؤ کی خصوصی عدالت نے ایف آئی آر 197 اور 198 کو دو بار تقسیم کیا اور کہا ہے کہ رائے بریلی میں 21 ملزمان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا، جب کہ دیگر 27 افراد کے خلاف لکھنؤ میں مقدمہ چلایا جائے گا۔
اس کے بعد سی بی آئی نے مجرمانہ سازش کے الزام کو ختم کرنے کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کے لیے ہائی کورٹ میں رجوع کیا، لیکن اس کی درخواست خارج کردی گئی۔
جولائی 2003 میں سی بی آئی نے اڈوانی کے خلاف مجرمانہ سازش کا الزام واپس لے لیا اور راے بریلی عدالت میں نئی چارج شیٹ داخل کی۔ لیکن جولائی 2005 میں ہائی کورٹ نے اڈوانی کے خلاف ’’نفرت بھڑکانے‘‘ کے الزام کو دوبارہ مرتب کیا۔
2010 تک دونوں الگ الگ عدالتوں میں دونوں معاملات پر بحث جاری تھی۔2011 میں سی بی آئی نے بالآخر سپریم کورٹ سے رجوع کیا ، جس نے مقدمے کا راے بریلی کا حصہ بھی لکھنؤ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔
اگلے سات سالوں تک عائد الزامات کے خلاف عدالتوں میں نظرثانی کی متعدد درخواستیں دائر کی گئیں، جس کی وجہ سے اس میں مزید تاخیر ہوئی۔
19 اپریل، 2017 کو سپریم کورٹ کے اس معاملے میں شامل ہونے کے بعد اڈوانی اور دیگر افراد کو مجرمانہ سازش کیس میں واپس لایا گیا تھا۔
عدالت عظمی نے ہائی کورٹ کے اس حکم کو ’’غلط‘‘ قرار دیا اور اس حکم کے خلاف پہلے اپیل نہ کرنے پر سی بی آئی کو بھی کھری کھوٹی سنائی
انہدام کے 30،000-40،000 سے زیادہ گواہ موجود تھے اور کہا جاتا ہے کہ اس مقدمے میں زبانی شہادت نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
سی بی آئی نے تحقیقات کے دوران 1،026 گواہوں کی ایک فہرست تیار کی، جن میں زیادہ تر صحافی اور پولیس اہلکار شامل ہیں اور بی جے پی اور وی ایچ پی کے آٹھ رہنماؤں کے خلاف بھی مجرمانہ سازش کا مقدمہ قائم کرنے کے لیے زبانی شواہد پر بھروسہ کیا۔
زبانی شواہد میں وہ تقاریر بھی شامل ہیں جو ان قائدین نے اس وقت کی تھیں جب ایودھیا میں رام جنم بھومی مندر کے لیے اڈوانی کی رتھ یاترا کا آغاز 1990 میں ہوا تھا۔ ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسجد کو منہدم کرنے کا خیال 1990 میں بنایا گیا تھا، جو سازش کو ثابت کرتی ہے۔
خصوصی عدالت کے روبرو سی بی آئی نے کل 351 گواہان اور 600 کے قریب دستاویزات ثبوت کے طور پر پیش کیے۔
9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے متنازعہ سائٹ کو ہندو دعویداروں کو دیتے ہوئے نوٹ کیا تھا کہ مسجد کا انہدام ’’قانون کی حکمرانی کی زبردست خلاف ورزی تھی۔‘‘
استغاثہ نے اپنے حتمی دلائل میں کہا ہے کہ چوں کہ انہدام ایک خلاف ورزی کا عمل ہے لہذا سازش کرنے والے ملزم کو سزا دی جانی چاہیے جب کہ دفاع نے سپریم کورٹ کے حتمی تبصرے کا حوالہ دیا ہے کہ یہ زمین ہندو دعویداروں کی ہے۔